پرندہ اور پتھر
فاتح صوفہ پر چھلانگ لگا کر بیٹھتے ہوئے بولا : امی جان آج آپ پریوں کی کہانی سنائیے گا!
امی جان نے فاتح کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا: کیوں نہیں۔ لیکن فاتح احمدپہلے یہ تو بتائیں کہ آج سارے دن میں کیا کیا کام کیے؟
فاتح انگلیوں پر گنتے ہوئے کہنے لگا: امی جان آج سب کام کرلیے تھے۔نمازیں، تلاوت، سکول، دانتوں کی صفائی، ہوم ورک اور گھر کو سیٹ کرنے میں آپ کی تھوڑی سی مدد بھی کی۔
امی جان: واہ فاتح تو آج بہت تھک گیا ہوگا لیکن آپ نے آج کچھ کھیلا نہیں۔
اتنے میں فارس بھی بھاگتا ہوا آیا اور چھلانگ مار کر امی جان کے ساتھ کہانی سننے لیٹ گیا۔
فاتح بولا: امی جان وہ تو میں بتانا بھول گیا۔ آج جب سورج نکلا تھا تو ہم صحن میں خوب کھیلے۔ آپ کو معلوم ہے جامن کے درخت پر آج ایک طوطا آکر بیٹھا تھا۔ اس سے ہم نے بہت باتیں کیں۔ ہم جو آواز نکالتے وہ اس کا جواب دیتا تھا۔
ارے واہ آپ دونوں نے تو آج نیا دوست بنا لیا!امی جان نے کہا۔
لیکن امی جان جب فارس بھائی نے ایک چھوٹا پتھر پھینکا تو وہ اڑ گیا۔فاتح نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
امی جان:ارے فارس بیٹا! یہ بہت بری حرکت ہے۔ پرندوں کو تنگ نہیں کرتے۔ابھی پچھلے بچوں کے الفضل میں ہم نے اسی بارہ میں واقعات پڑھے تھے۔ آپ اتنی جلدی کیسے بھول گئے؟ مجھے حضرت مصلح موعودؓ کے بچپن کا بھی ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کا نام یاد ہے آپ کو۔کن کے بیٹے تھے وہ؟
حضرت مسیح موعودؑ کے بیٹے تھے! فارس فوراً بولا۔
امی جان: شاباش فارس بیٹا! آپؓ بچپن میں ایک دفعہ ایک طوطے کو شکار کر کے لائے اور حضرت مسیح موعودؑ کو اپنا شکار دکھایا۔
فاتح: حضورؑ کو پسند آیا پھر؟
امی جان: نہیں بیٹا! آپؑ نے طوطے کو دیکھ کر کہا کہ ’محمود! اس کا گوشت حرام تو نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لیے ہی پیدا نہیں کیا۔ بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لیے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں۔ بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سن کر کان لذّت حاصل کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر حس کے لیے نعمتیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب چھین کر زبان ہی کو نہ دے دینی چاہئیں‘۔پھر حضرت مسیح موعودؑنےان کو فرمایا کہ ’دیکھو یہ طوطا کیسا خوبصورت جانور ہے۔ درخت پر بیٹھا ہوا دیکھنے والوں کو کیسا بھلا معلوم ہوتا ہوگا‘۔
اس کے بعد امی جان بولیں: فارس کیا سمجھے آپ اس سے؟
فارس:امی جان! مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ آپ کیا بتا نا چاہ رہی ہیں۔ میں آئندہ اس بات کا خیال رکھوں گا اور کسی بھی پرندے کو تنگ نہیں کروں گا۔ بلکہ ان سے کھیلنے کی کوشش کروں گا۔ اور اگر طوطا واپس آیا تو میں اس طوطے سے بھی سوری (sorry)کروں گا۔
امی جان نے کہا: یہ سبق یاد رکھنا ہے کہ آئندہ کسی پرندے کو تنگ نہیں کرنا کیونکہ وہ پتھر جو آپ نے پھینکا تھا اگر طوطے کو لگ جاتا تو وہ زخمی ہو جاتا، ہو سکتا تھا کہ وہ باہر کسی گزرنے والے شخص کے سر پر لگ جاتا یا ٹہنی سے ٹکرا کر واپس آپ کو لگ جاتا، تو اس وجہ سے زخم آ سکتا تھا۔ چلیں اب وقت بہت ہو گیا ہے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیں پھر کھانا کھاتے ہیں۔