امیر المومنین سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2023ء کے افتتاحی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب
’’ ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلسےکے انعقاد کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بتایا ہے کہ اس جلسےمیں شامل ہونے والوں میں زہد اور تقویٰ پیدا ہو جائے
متقی تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتا ہو۔ ہر وقت خدا تعالیٰ سے اُس کی رضا چاہنے والا ہوکہ اللہ تعالیٰ اس کی ڈھال بن جائے، اس کا محافظ ہو جائے… محسن… اس سے اگلا مقام ہے کہ صرف خود ہی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں آنا بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے بعد دنیا کو بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں لانے کی کوشش کرنی ہے
’’یقینا ًسمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
’’خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اسے ایسے موقع سے بچا لیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں۔ یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا۔
جب رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
’’صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ۔
اللہ تعالیٰ کی معیّت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچا تقویٰ ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
’’سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
خدا تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے قویٰ اور طاقتوں کا جائز استعمال ہی متقی کی نشانی ہے اور ان کے جائز استعمال سے ہی مومن ان طاقتوں کی نشوونما کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے
یہ بنیادی نکتہ ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نہ کسی کا خاندان کسی کو بڑا کر سکتا ہے نہ کسی کی دولت کسی کو بڑا کر سکتی ہے نہ علم کسی کو بڑا کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہی ہے جس میں تقویٰ ہے، جو اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے، جو دوسروں کے حقوق ادا کرتا ہے، جو جھوٹی اناؤں اور تکبر سے پاک ہے
’’اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم تقویٰ سے بڑھتے ہوئے محسنین کے زمرے میں شمار ہونے والے بن جائیں۔ ہمارا ہر قول و فعل اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو۔ حقوق العباد بھی ادا کرنے والے ہوں اور ایک درد کے ساتھ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہوئے محسنین کے گروہ میں ہم شامل ہوں
جلسہ سالانہ میں شمولیت کے ایک بہت بڑے مقصد حصولِ تقویٰ پر معرکہ آرا بیان
امیر المومنین سیدناحضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2023ء کے افتتاحی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب
(فرمودہ مورخہ28؍جولائی 2023ء بروز جمعۃ المبارک بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن، ہمپشئر، یوکے)
(اس خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلسےکے انعقاد کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بتایا ہے
اور اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ
اس جلسےمیں شامل ہونے والوں میں زُہد اور تقویٰ پیدا ہو جائے۔
(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 394)
اور جب یہ پیدا ہو گا تو خدا تعالیٰ کا قرب پیدا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر انسان چلے گا اور جب یہ ہو گا تو پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے میں سستی دکھائے یا اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے میں سستی دکھائے اور کسی بھی ذریعے سے معاشرے میں فساد کا باعث بنے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں میں، اپنی بیعت میں آنے والوں کو صرف اتنا ہی نہیں کہا کہ تقویٰ اختیار کرو بلکہ ایک درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے حکموں کے مطابق قرآنِ کریم کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوہ کے مطابق ہمیں تقویٰ پر چلنے کے راستے بھی دکھائے اور واضح فرمایا کہ
میرے سلسلۂ بیعت میں آنے والے وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیشمار مواقع پر اور مختلف تقاریر اور تحریرات میں بار بار اس کی تلقین فرمائی ہے کہ اس کے بغیر ایمان، ایمان ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تقویٰ کی جڑ کے بارے میں فرمایا کہ
’’اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 336۔ ایڈیشن 1984ء)
پس
اگر تقویٰ ہی نہیں تو کچھ بھی نہیں اور تقویٰ ہے تو سب کچھ ہے۔
ایک موقعے پر تقویٰ کے متعلق نصیحت فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لیے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے کیونکہ یہ بات عقلمند کے نزدیک ظاہر ہے کہ بجز تقویٰ کے اَور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ(النحل:129)‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 10۔ ایڈیشن 1984ء)
اس آیت کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اَور بہت سی جگہ وضاحت فرمائی ہے کہ متقی کون ہے اور محسن کون ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس کی وضاحت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات پیش کروں یہاں
متقی اور محسن کے لفظ کی وضاحت
ضروری سمجھتا ہوں۔
متقی تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتا ہو۔ ہر وقت خدا تعالیٰ سے اُس کی رضا چاہنے والا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی ڈھال بن جائے، اس کا محافظ ہو جائے۔
پس یہ ہے حقیقی تقویٰ کی تعریف جسے ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اور
محسن
اس سے اگلا قدم ہے، اس سے اگلا مقام ہے کہ
صرف خود ہی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں آنا بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے بعد دنیا کو بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں لانے کی کوشش کرنی ہے۔
پس محسن کا درجہ متقی سے بڑھ گیا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مومن متقی بھی ہو اور پھر محسن بھی ہو۔
پس یہ مقام ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ صرف خود ہی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہ آؤ بلکہ دوسروں کو بھی خدا تعالیٰ کی پناہ میں لانے کی کوشش کر کے بچاؤ۔ پس
حقیقی متقی محسن ہونے کی وجہ سے حقوق العباد کی فکر بھی کرتا ہے۔
پس یہ وہ خوبصورت مقام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں دلوانا چاہتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:’’متقی کے معنی ہیں ڈرنے والا۔ ایک ترکِ شر ہوتا ہے اور ایک افاضۂ خیر۔ متقی ترکِ شر کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے اور محسن افاضۂ خیر کو چاہتا ہے… متقی کا کام یہ ہے کہ برائیوں سے باز آوے۔ اس سے آگے دوسرا درجہ افاضۂ خیر کا ہے جس کو یہاں محسنون کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے کہ نیکیاں بھی کرے۔ پورا راستباز انسان تب ہوتا ہے جب بدیوں سے پرہیز کر کے یہ مطالعہ کرے کہ نیکی کون سی کی ہے؟‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 179۔ ایڈیشن 1984ء)
پس اس سے مزید وضاحت ہو گئی کہ اپنی اصلاح کے بعد، اپنا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے بعد اس پر بیٹھ نہیں جانا بلکہ اس فکر میں رہنا ہے کہ میں محسنون میں کیسے شامل ہوں اور اس کے لیے حقوق العباد کی فکر کرنا ضروری ہے۔ پھر آپؑ نے ایک جگہ اس بارے میں مزید فرمایا کہ ’’بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو تقویٰ سے بھی بڑھ کر کام کرتے ہیں یعنی محسنین ہوتے ہیں۔‘‘ یہی حقیقی نیکی کی علامت ہے اور یہی کامل ایمان کی علامت ہے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’تقویٰ کے معنی ہیں کہ بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا
مگر یاد رکھو نیکی اتنی نہیں ہے کہ ایک شخص کہے کہ میں نیک ہوں اس لیے کہ مَیں نے کسی کا مال نہیں لیا، نقب زنی نہیں کی، چوری نہیں کرتا، بدنظری اور زنا نہیں کرتا۔ ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری یاڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا۔ پس یہ کوئی نیکی نہیں کہ جو عارف کی نگاہ میں قابلِ قدر ہو بلکہ
اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفاداری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو تیار ہو۔
اسی لیے یہاں فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل:129) یعنی اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو بدی سے پرہیز کرتے ہیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کرتے ہیں۔ یہ خوب یاد رکھو کہ نرا بدی سے پرہیز کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں جب تک اس کے ساتھ نیکیاں نہ کرے۔ بہت سے لوگ ایسے موجود ہوں گے جنہوں نے کبھی زنا نہیں کیا، خون نہیں کیا، چوری نہیں کی، ڈاکہ نہیں مارا اور باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوئی صدق و وفا کا نمونہ انہوں نے نہیں دکھایا یا نوعِ انسان کی کوئی خدمت نہیں کی اور اس طرح پر کوئی نیکی نہیں کی۔ پس جاہل ہو گا وہ شخص جو ان باتوں کو پیش کر کے اسے نیکوکاروں میں داخل کرے کیونکہ یہ تو بدچلنیاں ہیں۔ صرف اتنے خیال سے اولیاء اللہ میں داخل نہیں ہو جاتا‘‘ انسان۔ ’’بدچلنی کرنے والے، چوری یا خیانت کرنے والے، رشوت لینے والے کے لیے عادت اللہ میں ہے کہ اسے یہاں سزا دی جاتی ہے۔ وہ نہیں مرتا جب تک سزا نہیں پا لیتا۔ یاد رکھو کہ صرف اتنی ہی بات کا نام نیکی نہیں ہے۔ تقویٰ ادنیٰ مرتبہ ہے۔ اس کی مثال تو ایسی ہے جیسے کسی برتن کو اچھی طرح سے صاف کیا جاوے تاکہ اس میں اعلیٰ درجہ کا لطیف کھانا ڈالا جائے۔ اب اگر کسی برتن کو خوب صاف کر کے رکھ دیا جائے لیکن اس میں کھانا نہ ڈالا جائے تو کیا اس سے پیٹ بھر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیا وہ خالی برتن طعام سے سیر کر دے گا؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح پر تقویٰ کو سمجھو۔
تقویٰ کیا ہے؟ نفس امارہ کے برتن کو صاف کرنا‘‘
ہے۔اب خالی برتن کو صاف کرنے سے تو پیٹ بھرنے کے سامان نہیں ہو جائیں گے۔ اس کے لیے کھانے کا انتظام کرنا ہو گا، روحانی مائدے کا انتظام کرنا ہو گا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’نفس کو تین قسم پر منقسم کیا ہے نفسِ امارہ۔‘‘ یعنی پہلے جب تم نے تقویٰ سے اپنی پلیٹ کو نفس امارہ سے صاف کیا۔ ’’ نفسِ لوامہ اور نفسِ مطمئنہ۔‘‘ پھر وضاحت فرماتے ہیں کہ نفسِ امارہ کیا ہے؟ فرمایا کہ ’’…نفسِ امارہ کی وہ حالت ہے جب انسان شیطان اور نفس کا بندہ ہو تا ہے اور نفسانی خواہشوں کا غلام اور اسیرہو جاتا ہے۔ جو حکم نفس کرتا ہے اس کی تعمیل کے واسطے اس طرح تیار ہو جاتا ہے جیسے ایک غلام دست بستہ اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کے لیے مستعد ہوتا ہے۔ اس وقت یہ نفس کا غلام ہو کر جو وہ کہے یہ کرتا ہے۔‘‘ کوئی برا کام کوئی بدی ہو جو نفس کہے یہ غلاموں کی طرح کر دیتا ہے۔ ’’…یہ نفس امارہ کی حالت ہے۔‘‘ یہ انتہائی بری حالت ہے۔ آپؑ نے فرمایا: تقویٰ کی ابتدائی حالت یہ ہے کہ اس سے اپنے آپ کو مکمل پاک کرو۔ تقویٰ کی ابتدائی حالت یہ ہے کہ نفس امارہ سے اپنے آپ کو پاک کرو۔ تم کھانا کھانے کے لیے بھی اپنے برتنوں کو صاف کر کے اس میں کھانا ڈالتے ہو۔ پس اپنے دل کے برتنوں کو بھی اپنے ایمان کی مضبوطی کے لیے صاف کرو۔ اگر صاف نہیں کرو گے تو جو کھانا بھی اس میں ڈالو گے وہ گندے برتن میں ڈالے ہوئے کھانے کی طرح گندا ہو جائے گا چاہے جیسا بھی عمدہ کھانا ڈالو۔ پس اس حالت پر ہر ایک کو غور کرنا چاہیے کہ کس حد تک ہم نے اس برتن کو صاف کیا ہے۔ جب صاف کر لیا تو دل سے اور نیک نیتی سے شیطان کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد شروع کر دی تو پھر نفس لوامہ کی حالت شروع ہو جاتی ہے۔
آپؑ نے فرمایا: ’’اس کے بعد نفسِ لوّامہ ہے۔ یہ ایسی حالت ہے کہ گناہ تو اس سے بھی سرزد ہوتے رہتے ہیں مگر وہ نفس کو ملامت بھی کرتا رہتا ہے اور اس تدبیر اورکوشش میں لگا رہتا ہے کہ اسے گناہ سے نجات مل جائے۔
جو لوگ نفسِ لوّامہ کے ماتحت یا اس حالت میں ہوتے ہیں وہ ایک جنگ کی حالت میں ہوتے ہیں یعنی شیطان اور نفس سے جنگ کرتے رہتے ہیں۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نفس غالب آکر لغزش ہو جاتی ہے اور کبھی خود نفس پر غالب آجاتے اور اس کو دبا لیتے ہیں۔ یہ لوگ نفسِ امارہ والوں سے ترقی کرجاتے ہیں۔‘‘ فرمایا ایسے لوگ حالتِ جنگ میں ہیں جس میں کبھی نفس غالب اور کبھی وہ، ابھی کامل فتح نہیں ہوئی۔ پس
فتح پانے کے لیے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے، مسلسل استغفار کی ضرور ت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد کی ضرورت ہے۔ ہر وقت اس بات کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کر کے محسنون کے گروہ میں شامل ہونا ہے۔
اور جب اس طرح اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے انسان مسلسل کوشش کرتا ہے تو پھر نفسِ مطمئنہ کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے داخل کر دیتا ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’…تیسری حالت جو نفسِ مطمئنہ کی حالت ہے یہ وہ حالت ہے جب ساری لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور کامل فتح ہو جاتی ہے اسی لیے اس کانام نفسِ مطمئنہ رکھا ہے یعنی اطمینان یافتہ۔‘‘ اس کی وضاحت اس طرح پھر فرمائی کہ ’’انسان کے ہر ایک قویٰ پر اس کا قابو ہو جاتا ہے اور طبعی طور پر اس سے نیکی کے کام سرزد ہوتے ہیں۔‘‘ فرمایا جب یہ حالت ہو ’’اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر سچا ایمان لاتا ہے اور وہ یقین کرتا ہے کہ واقعی خدا ہے۔ نفسِ مطمئنہ کی انتہائی حد خدا تعالیٰ پر ایمان ہوتا ہے کیونکہ کامل اطمینان اور تسلی اسی وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو۔‘‘ فرمایا
’’یقینا ًسمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصلی جڑ خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔
جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر اعمالِ صالحہ میں کمزوری اور سستی پائی جاتی ہے لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اسی قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ پر ایمان رکھنے والاگناہ پر قادر نہیں ہو سکتا۔‘‘ اگر اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ گناہ کرے، نہ چھوٹا نہ بڑا۔ ’’کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضا کو کاٹ دیتا ہے۔‘‘ آپؑ فرماتے ہیں ’’جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اسے دیا جاتا ہے یہی وہ مقام ہے۔‘‘ کامل اطمینان اسے دیا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے ’’جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہیے‘‘ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اور ہماری جماعت کو اس کی ضرورت ہے۔اور اطمینانِ کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمانِ کامل کی ضرورت ہے۔‘‘ پس غور کی بھی ضرورت ہے۔ فرمایا
’’ ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل کریں۔‘‘
(ملفوظات جلدششم صفحہ241تا245۔ ایڈیشن 1984ء)
پس ہم سب کو اس پر بہت غور کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔ تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو اور محسنون وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں اور پھر یہ بھی فرمایا۔ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى (یونس:27) یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’مجھے یہ وحی بار بار ہوئی اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ اور اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ میں گن نہیں سکتا۔ خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو۔ اس سے غرض یہی ہے کہ تا جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ
صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں یا صرف خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی معیّت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچا تقویٰ ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو۔‘‘
(ملفوظات جلدہشتم صفحہ371۔ ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۔ خداتعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔ پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہیے اور اس میں غور کرنا چاہیے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے۔ انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد10صفحہ137-138۔ ایڈیشن 1984ء)
پس یہ ہمارے لیے بہت سوچنے اور فکر کا مقام ہے۔ ہمیں اپنی حالت کی طرف بہت زیادہ فکر کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہمیں تقویٰ اور نیکیوں میں بڑھنے کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جب یہ ہو گا تب ہی ہم حق بیعت ادا کرنے والے ہوں گے۔
ایک موقعےپر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزاعیں بھی ہوجاتی ہیں اور معمولی نزاع سے‘‘ معمولی جھگڑوں سے، رنجشوں سے ’’پھرایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنے لگتا ہے اور اپنے بھائی سے لڑتا ہے۔ یہ بہت ہی نا مناسب حرکت ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو کیا حرج ہے۔ بعض آدمی ذرا ذرا سی بات پر دوسرے کی ذلت کا اقرار کیے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ان باتوں سے پرہیز کر نا لازم ہے۔ خدا تعالیٰ کا نام ستار ہے۔ پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پر دہ پوشی سے کام نہیں لیتا۔ چاہیے کہ اپنے بھا ئی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزت وآبرو پر حملہ نہ کرے۔ ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے۔‘‘ مثال دیتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں ’’کہ ایک بادشاہ قرآن لکھا کر تا تھا۔‘‘ کہانی ہے ایک۔ ’’ایک ملّا نے کہا کہ یہ آیت غلط لکھی ہے۔‘‘ کوئی مولوی اس کے پاس آیا اس نے کہا یہ آیت غلط لکھی ہے۔ اتنی جرأت تھی اس زمانے میں یا اس کہانی میں جرأت ظاہر کی گئی۔ ’’بادشاہ نے اس وقت اس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ اس کو کاٹ دیا جائے گا۔ جب وہ چلا گیا تو اس دائر ہ کو کاٹ دیا۔ جب بادشاہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ دراصل وہ غلطی پر تھا مگر میں نے اس وقت دائرہ کھینچ دیا کہ اس کی دلجوئی ہو جاوے۔‘‘ یا اس قسم کا مولوی تھا جو زور دار ہو گا جس طرح آجکل کے پاکستان کے مولوی ہیں جو حکومت سے جو چاہتے ہیں کروا لیتے ہیں اور ان کی دلجوئی کرنے کے لیے ہماری حکومت حق کی تائید نہیں کرتی بلکہ بعض لوگ، ہمارے لیڈر ملاں کے خوف سے کر رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال بادشاہ نے اس دائرے کو کھینچ دیا کہ اس کی دلجوئی ہو جاوے، اس کو کاٹ دیا۔ حقیقت میں مولوی غلط تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں
’’یہ بڑی رعونت کی جڑ اور بیماری ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دیدیا جاوے۔ ایسے امور سے نفس خراب ہو جاتا ہے۔ اس سے پر ہیز کرنا چاہیے۔
غرض یہ سب امور تقویٰ میں داخل ہیں اور اندرونی بیرونی امور میں تقویٰ سے کام لینے والا فرشتوں میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی سرکشی باقی نہیں رہ جاتی۔ تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خداتعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں۔ متقی دنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے۔ خدا ان کا پردہ پوش ہو جاتا ہے جب تک یہ طریق اختیار نہ کیا جاوے کچھ فائدہ نہیں۔ ایسے لوگ میری بیعت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ فائدہ ہو بھی تو کس طرح جب کہ ایک ظلم تو اندر ہی رہا۔ اگر وہی جوش، رعونت، تکبر، عُجب، ریاکاری، سریع الغضب ہونا باقی ہے جو دوسروں میں بھی ہے تو پھر فرق ہی کیا ہے؟ ‘‘ فرمایا ’’سعید اگر ایک ہی ہو اور وہ سارے گاؤں میں ایک ہی ہو تو لوگ کرامت کی طرح اس سے متاثر ہوں گے۔
نیک انسان جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نیکی اختیار کرتا ہے اس میں ایک ربّانی رعب ہوتا ہے اور دلوں میں پڑ جاتا ہے کہ یہ باخدا ہے۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے خدا تعالیٰ اپنی عظمت سے اس کو حصہ دیتا ہے
اور یہی طریق نیک بختی کا ہے۔پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھائیوں کو دکھ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع اخلاق کے متمِم ہیں اور اس وقت خداتعالیٰ نے آخری نمونہ آپؐ کے اخلاق کا قائم کیا ہے۔ اس وقت بھی اگر وہی درندگی رہی تو پھر سخت افسوس اور کم نصیبی ہے۔ پس دوسروں پر عیب نہ لگاؤ کیو نکہ بعض اوقات انسان دوسرے پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے اگر وہ عیب اس میں نہیں لیکن اگر وہ عیب سچ مچ اس میں ہے تو اس کا معاملہ پھر خدا تعالیٰ سے ہے۔‘‘
اگر کسی میں عیب لگا رہے ہو اس میں عیب نہیں ہے تو خود بھی اس عیب میں پڑ سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ پھر ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ خود بھی انسان ان میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ سچ مچ عیب اس میں ہے تو پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پہ چھوڑو۔ ’’بہت سے آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر معاً ناپاک الزام لگا دیتے ہیں۔ ان باتوں سے پر ہیز کرو۔ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤ اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی، ہمسایوں سے نیک سلوک کرو۔ اور اپنے بھائیوں سے نیک معاشرت کرو اور
سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلدششم صفحہ341تا344۔ ایڈیشن 1984ء)
پس یہ وہ سنہری اصول ہے جو بیعت کا حق ادا کرنے کے ساتھ معاشرے کے امن و سکون کی بھی ضمانت ہے اور انہی مقاصد کے لیے ہم آج یہاں جمع ہیں اور یہی وہ اصول ہے جن پر اگر ہم کاربندہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ہمارے مخالفین سے خود ہی نپٹے گا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے اور شرک سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو۔ پس یہ انتہائی اہم نکتہ ہے کہ ہم نے اپنے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنا ہے تا کہ تقویٰ کی بنیاد ہمارے اندر پیدا ہو۔ اور
کس طرح پتا چلے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو گیا ہے،
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اللہ کاخوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول وفعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے۔‘‘ جو وہ کہہ رہا ہے اور جو وہ کر رہا ہے ان میں آپس میں مطابقت ہے؟ ’’پھر جب دیکھے کہ اس کا قول وفعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ وہ مورد غضب الٰہی ہو گا۔‘‘ استغفار کا مقام ہے۔ ’’جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہو وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا۔ بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہو گا۔ پس میری جماعت سمجھ لے‘‘ فرمایا:
’’میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لیے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھل دار درخت ہو جاوے پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے؟ اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے۔
اگر ہماری جماعت بھی خدا نخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے۔ وہ غنی ہے وہ پرواہ نہیں کرتا۔‘‘ فرمایا کہ ’’بدر کی فتح کی پیش گوئی ہو چکی تھی ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رورو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابو بکرصدیقؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورتِ الحاح کیا ہے؟‘‘ ضرورت کیا ہے اتنا رونے کی گڑگڑانے کی۔ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے یعنی ممکن ہے کہ وعدہ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ11۔ایڈیشن 1984ء)
پس یہ وہ اصول اور اسوہ ہے جسے ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تو کوئی وجود اور ذات نہیں جن کی دعائیں قبول ہوتی ہوں اور جن سے کیے گئے وعدوں کا اللہ تعالیٰ کو پاس ہو لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا سب سے زیادہ علم تھا اور ادراک تھا اللہ تعالیٰ کے غنی ہونے کی صفت سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ تڑپ تڑپ کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے باوجود یہ دعا کرتے تھے کہ آج مسلمانوں کو بچا لے۔ پس ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم اس طرح گڑ گڑائیں نہ۔ بیشک اللہ تعالیٰ کے اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو قائم کرنے کے آج بھی وعدے ہیں لیکن ہمارے قول و فعل اور ایمان کی حالت اس معیار پر ہوں گے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تبھی وعدے بھی پورے ہوں گے۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بار بار یہ تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو جلد پورا ہوتا دیکھنے کے لیے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو اور اپنے قول و فعل کو ایک کرو۔
متقی کی علامات
بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’پس ہمیشہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے تقویٰ وطہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کاخود متکفل ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا۔ وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق:3-4) جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لیے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لیے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم وگمان میں نہ ہوں یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا۔‘‘ جھوٹ بولے بغیر اس کا کام نہیں چل سکتا ’’اس لیے وہ دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لیے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں۔
خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اسے ایسے موقع سے بچا لیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں۔ یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا۔ جب رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔‘‘
پس بڑے خوف کا مقام ہے اور یہ نقطہ ہمیشہ ہر ایک کے سامنے ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چھوڑتا ہے شیطان ضرور اس پر قابو پا لیتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔ وہ بڑی طاقت والا ہے۔ جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کرو گے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ(الطلاق:4) لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے وہ اہلِ دین تھے۔ ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لیے تھیں اور‘‘ ان کے ’’دنیوی امور حوالہ بخدا تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ غرض
برکاتِ تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور کے حارج ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ12 ایڈیشن 1984ء)
پس ہم جب دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کرتے ہیں تو یہ سوچ بھی ساتھ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میری دنیاوی ضروریات پوری فرمائے گا اگر میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں۔ لیکن یہاں پھر وہی بات ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کامل توکّل ہو اور تقویٰ ہو۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔‘‘ خوف رہے تمہارے دل میں۔ ’’کسی پر ظلم نہ کرو۔ نہ تیزی کرو۔ نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔ جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے۔ اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلی ہے۔ یہ مقام بہت نازک ہے۔‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ9 ایڈیشن 1984ء)
یعنی جلدی غصہ میں آنے والی طبیعت ہے تو پھر اپنا جائزہ لو کہ یہ گرم طبیعت تمہارے تکبر اور انا کی وجہ سے تو نہیں جو کچھ تمہارے سے ظاہر ہو رہاہے۔ کیونکہ
بات بات پر اَنا اور تکبر کی وجہ سے ہی انسان کو غصہ آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں۔
پھر اس بات کی نصیحت فرماتے ہوئے کہ
خدا تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے قویٰ اور طاقتوں کا جائز استعمال ہی متقی کی نشانی ہے اور ان کے جائز استعمال سے ہی مومن ان طاقتوں کی نشوونما کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں وہ ضائع کرنے کے لیے نہیں دئیے گئے ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوونما ہے۔ اسی لیے اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا جیسے فرمایا قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المومنون:2) اور ایسے ہی …متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا۔ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (البقرۃ:6) یعنی وہ لوگ جو تقویٰ پر قدم مارتے ہیں ایمان بالغیب لاتے ہیں، نماز ڈگمگاتی ہے پھر اسے کھڑا کرتے ہیں۔ خدا کے دئیے ہوئے سے دیتے ہیں۔‘‘ نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ صدقات دینے والے ہیں۔ ’’باوجود خطرات نفس بلا سوچے گذشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخر کار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سر پر ہیں۔ وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابر آگے کو جا رہی ہے اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتا ہے۔ پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں گے۔‘‘ وہ کون ہیں؟ وہی جو اللہ کے بھی حق ادا کر رہے ہیں اور بندوں کے بھی حق ادا کر رہے ہیں وہی منزل مقصود تک پہنچتے ہیں ’’اور راہ کے خطرات سے نجات پا چکے ہیں۔‘‘ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچا لیا۔ ’’اس لیے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہم کو تقویٰ کی تعلیم دے کر ایک ایسی کتاب ہم کو عطا کی جس میں تقویٰ کے وصایا بھی دیے۔ ‘‘ یہ بیان فرمانے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’سو ہماری جماعت یہ غم کل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پرلگائے کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں۔ ‘‘
پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کس حد تک ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پھر اہلِ تقویٰ کی ایک شرط آپؑ نے یہ بیان فرمائی کہ وہ غربت اور مسکینی میں زندگی بسر کرتے ہیں اور جماعت کے افراد کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔‘‘ غربت سے مراد مالی غربت نہیں ہے بلکہ عاجزی ہے
اور اس دنیا کو سب کچھ نہ سمجھنا چاہیے بلکہ اگلے جہان کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ غربت کی زندگی ہے اور عاجزی غربت کی زندگی ہے۔ نیک اعمال بجا لانے والا غربت کی زندگی گزارتا ہے۔ مسکینی اختیار کرو۔ فرمایا وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ ’’یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔‘‘ غضب سے بچنا، غصہ سے بچنا بہت بڑی، کڑی چیز ہے۔ فرمایا کہ ’’عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘ غرور اور تکبر غصہ سے اور غضب سے پیدا ہوتا ہے ’’اور ایسا ہی کبھی خود غضب عُجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظرِ استخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندر حقارت ہے۔ ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔ بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔ اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ(الحجرات:12) تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو یہ فعل فساق و فجار کا ہے۔ جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہی ہے جو متقی ہے۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (الحجرات:14)‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ35-36۔ ایڈیشن 1984ء)
پس یہ بنیادی نکتہ ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نہ کسی کا خاندان کسی کو بڑا کر سکتا ہے نہ کسی کی دولت کسی کو بڑا کر سکتی ہے نہ علم کسی کو بڑا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہی ہے جس میں تقویٰ ہے، جو اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے، جو دوسروں کے حقوق ادا کرتا ہے، جو جھوٹی اناؤں اور تکبر سے پاک ہے۔
پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ
اگر تم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو
آپؑ فرماتے ہیں:’’جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے۔‘‘ یعنی فوج متعین کرنا ضروری ہے۔ ’’اسی طرح تم بھی تیار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن سرحد سے گزر کر اسلام کو صدمہ پہنچائے۔ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہوتو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آسکو۔ اور پھر تم کو اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں خود آؤ۔ اس مضبوط قلعےکے اندر خود جاؤ جواللہ تعالیٰ کی پناہ کا قلعہ ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی خدمت کا موقع دے گا۔ فرمایا ’’تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔ قومیں ان کو نفرت وحقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو۔‘‘ مسلمانوں کی حالت دیکھ کر جماعت کے افراد کو سبق لینا چاہیے۔ ’’تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں۔‘‘ گھوڑا خالی خود نہیں حفاظت کر رہا ہوتا گھوڑوں پر سوار فوج ہوتی ہے جو پرانے زمانے میں جس طرح فوج ہوتی تھی اس زمانے میں سرحدوں کی حفاظت کرنے کے یہ مختلف ذرائع ہیں۔ اسی طرح محافظ ہونا پڑے گا۔ فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں ہی کے شاملِ حال ہوا کرتا ہے۔ اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاوے۔‘‘ ایسی حالتیں نہ بناؤ کہ اسلام کو داغ لگے۔ ’’بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے۔ کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قے کرتا پھرتا ہے۔ پگڑی گلے میں ہوتی ہے۔ موریوں اور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے۔ پولیس کے جوتے پڑتے ہیں۔ ہندو اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں۔ اس کا ایسا خلافِ شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا۔‘‘ یہ جو حرکتیں ہوتی ہیں اس کی کہ دین سے ہٹے ہوئے ہیں اور دین کے خلاف کر رہے ہیں وہ اپنی ہنسی مذاق نہیں اڑوا رہے ہوتے، اپنی تضحیک نہیں کروا رہے ہوتے ’’بلکہ در پردہ اس کا اثر نفسِ اسلام تک پہنچتا ہے۔‘‘ اسلام پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ فرمایا کہ ’’مجھے ایسی خبریں یا جیل خانوں کی رپورٹیں پڑھ کر سخت رنج ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ اس قدر مسلمان بد عملیوں کی وجہ سے موردِ عتاب ہوئے۔
دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو صراطِ مستقیم رکھتے ہیں اپنی بد اعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اسلام پر ہنسی کراتے ہیں۔‘‘
فرمایا کہ ’’…میری غرض اس سے یہ ہے کہ مسلمان لوگ مسلمان کہلا کر ان ممنوعات اور منہیات میں مبتلا ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کو بلکہ اسلام کو مشکوک کر دیتے ہیں پس‘‘ آپ نے جماعت کے افراد کو فرمایا
’’اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفار کو بھی تم پر (جو دراصل اسلام پر ہوتی ہے) نکتہ چینی کرنے کا موقعہ نہ ملے۔‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ77-78۔ ایڈیشن 1984ء)
پس ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے تو اپنے جائزے لینے کی ضرور ت ہے۔ یہاں ان ملکوں میں جہاں آزادی کے نام پر مذہب سے استہزا کیا جاتا ہے، اخلاقی قدروں کی کوئی حقیقت نہیں۔وہ اعلیٰ اخلاق جن کی خدا تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے ان کو پامال کیا جاتا ہے، ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پس ایسے میں، ایسے حالات میں خطرہ ہے کہ معاشرے کی ان برائیوں کا اثر ہمارے لوگوں پر بھی نہ پڑ جائے، ہماری نسلوں پر نہ پڑ جائے بلکہ بعض دفعہ ایسے معاملات اٹھتے رہتے ہیں جن میں احمدیوں کے ملوث ہونے کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس
بہت فکر کے ساتھ اس ماحول میں رہ کر ہمیں اپنے بچوں اور اپنے آپ اور اپنے معاشرے کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے اور عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہاں آ کر صرف نعرے لگانے سے ہم اپنا مقصد پورا نہیں کر سکتے بلکہ اپنی عملی حالتوں کو بدلنا ہو گا۔
پھر اس بات کو بڑے درد سے بیان فرماتے ہوئے کہ
ہماری جماعت کے لوگ میرے مرید ہو کر مجھے بدنام نہ کریں
آپؑ فرماتے ہیں :’’جو شخص اپنے ہمسایہ کو اپنے اخلاق میں تبدیلی دکھاتا ہے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے وہ گویا ایک کرامت دکھاتا ہے۔‘‘ اور خاموش تبلیغ اسی طرح ہو رہی ہے۔ اگر ایک پاک تبدیلی پیدا ہو گئی ہے اور دوسرے اس کو دیکھ رہے ہیں۔ ’’اس کا اثر ہمسایہ پر بہت اعلیٰ درجہ کا پڑتا ہے۔ ہماری جماعت پر اعتراض کرتے ہیں‘‘ یعنی لوگ اعتراض کرتے ہیں، مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں ’’کہ ہم نہیں جانتے کہ کیا ترقی ہو گئی ہے‘‘ جماعت میں ’’اور تہمت لگاتے ہیں کہ افترا،غیظ و غضب میں مبتلا ہیں‘‘ یہ لوگ۔ جیسے ہم افترا کرتے ہیں لوگوں پر۔ غیظ و غضب ہے، غصہ آتا ہے حقوق ادا نہیں کر رہے ویسے ہی احمدی بھی کر رہے ہیں۔ کیا ترقی ہوئی ہے۔ فرمایا کہ ’’کیا یہ ان کے لیے باعثِ ندامت نہیں ہے کہ انسان عمدہ سمجھ کر اس سلسلہ میں آیا تھا۔ جیسا کہ ایک رشید فرزند اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے۔‘‘ جو احمدی غلط کام کرتے ہیں ان کو تلقین فرما رہے ہیں کہ ’’جیسا ایک رشید فرزند اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے کیونکہ بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو امہات المومنین کہا ہے گویا کہ حضورؐ عامة المومنین کے باپ ہیں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عامة المومنین کے باپ ہیں۔ ’’جسمانی باپ زمین پر لانے کا موجب ہوتا ہے اور حیاتِ ظاہری کا باعث مگر روحانی باپ آسمان پر لے جاتا ہے اور اس مرکزِ اصلی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو بدنام کرے؟ طوائف کے ہاں جاوے؟ اور قمار بازی کرتا پھرے۔ شراب پیوے یا اَور ایسے افعالِ قبیحہ کا مرتکب ہو جو باپ کی بدنامی کا موجب ہوں۔ میں جانتا ہوں کوئی آدمی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس فعل کو پسند کرے لیکن جب وہ ناخلف بیٹا ایسا کرتا ہے تو پھر زبانِ خلق بند نہیں ہو سکتی۔ لوگ اس کے باپ کی طرف نسبت کر کے کہیں گے کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا فلاں بد کام کرتا ہے۔ پس وہ ناخلف بیٹا خود ہی باپ کی بدنامی کا موجب ہوتا ہے۔ اسی طرح پر
جب کوئی شخص ایک سلسلہ میں شامل ہو تا ہے اور اس سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال نہیں رکھتا اور اس کے خلاف کرتا ہے تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوتا ہے کیونکہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا بلکہ دوسروں کے لیے ایک برا نمونہ ہو کر ان کو سعادت اور ہدایت کی راہ سے محروم رکھتا ہے۔‘‘
یعنی ایسے لوگوں کے عمل پھر تبلیغ کے راستے میں روک بن جاتے ہیں۔ کسی کو کس طرح ہدایت دینا ہو، لوگ کہیں گے ہمارے جیسا ہی ہے تو فائدہ کیا ہے۔کیوں دنیا کی مخالفت بھی لی جائے اور کچھ حاصل بھی نہ ہو۔ کوئی تبدیلی بھی نہ ہو۔ ایسے لوگ جماعت کی مجموعی تبلیغی کام میں بھی روک پیدا کرنے والے ہو جاتے ہیں۔ پس فرمایا کہ
’’جہاں تک آپ لوگوں کی طاقت ہے خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور اپنی پوری طاقت اور ہمت سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ جہاں عاجز آجاؤ وہاں صدق اور یقین سے ہاتھ اٹھاؤ کیونکہ خشوع اور خضوع سے اٹھائے ہوئے ہاتھ جو صدق اور یقین کی تحریک سے اٹھتے ہیں خالی واپس نہیں ہوتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ صدق سے کی ہوئی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ ’’ہم تجربہ سے کہتے ہیں کہ ہماری ہزارہا دعائیں قبول ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔‘‘ پس دعائیں کرو، دعائیں کرو اپنی اصلاح کے لیے، اپنے بچوں کی اصلاح کے لیے ہمیں بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں اور اس پر بہت زور دینا چاہیے۔ پھر آپؑ نے فرمایا ’’یہ ایک یقینی بات ہے اگر کوئی شخص اپنے اندر اپنے ابنائے جنس‘‘ یعنی دوسرے انسانوں ’’کے لیے ہمدردی کا جوش نہیں پاتا وہ بخیل ہے۔ اگر میں ایک راہ دیکھوں جس میں بھلائی اور خیر ہے تو میرا فرض ہے کہ میں پکار پکار کر لوگوں کو بتلاؤں۔ اس امر کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں۔‘‘ پس یہ پکار پکار کر کہنا اور تبلیغ کرنا اس وقت فائدہ دیتا ہے جب ہمارے اپنے اندر بھی ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہو اور یہی ہمارا فرض ہے کہ اپنے عمل اور دعاؤں سے دوسروں کو صحیح راستے پر لانے کی بھرپور کوشش کریں۔
پھر
ہماری دنیا و عاقبت سنوارنے کے لیے آپؑ انتہائی درد کا اظہار
کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’…میں یہ بات کھول کر بیان کرتا ہوں کہ میرے مناسب حال یہ بات نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ لوگوں کو کہتا ہوں میں ثواب کی نیت سے کہتا ہوں۔ نہیں! میں اپنے نفس میں انتہا درجہ کا جوش اور درد پاتا ہوں گو وہ وجوہ نامعلوم ہیں۔‘‘ مجھے پتہ نہیں کیوں جوش ہے میرے اندر لیکن جوش ہے ایک درد ہے ’’کہ کیوں یہ جوش ہے۔مگر اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ یہ جوش ایسا ہے کہ میں رک نہیں سکتا۔ اس لیے آپ لوگ ان باتوں کو ایسے آدمی کی وصایا سمجھ کر کہ پھر شاید ملنا نصیب نہ ہو ان پر ایسے کاربند ہوں کہ ایک نمونہ ہو اور ان آدمیوں کو جوہم سے دور ہیں اپنے فعل اور قول سے سمجھا دو۔ اگر یہ بات نہیں ہے اور عمل کی ضرورت نہیں ہے تو پھر مجھے بتلاؤ کہ یہاں آنے سے کیا مطلب ہے۔‘‘ اگر عمل ہی نہیں کرنا تو پھر آنے کی ضرورت کیا ہے۔ ’’میں مخفی تبدیلی نہیں چاہتا۔‘‘ چھپی ہوئی تبدیلیاں مجھے نہیں چاہئیں۔ ’’نمایاں تبدیلی مطلوب ہے تا کہ مخالف شرمندہ ہوں اور لوگوں کے دلوں پر یک طرفہ روشنی پڑے اور وہ ناامید ہو جاویں کہ یہ مخالف ضلالت میں پڑے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بڑے بڑے شریر آ کر تائب ہوئے وہ کیوں ؟ اس عظیم الشان تبدیلی نے جو صحابہؓ میں ہوئی اور ان کے واجب التقلید نمونوں نے ان کو شرمندہ کیا۔‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ146تا148۔ ایڈیشن 1984ء)
صحابہؓ میں جو تبدیلیاں تھیں ان کی وجہ سے لوگ تائب ہو کر اسلام میں داخل ہوئے۔
پس
اگر ہم نے خود بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہے اور لوگوں کو بھی ہدایت کے راستے کی طرف لانا ہے تو اس کے لیے ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے، اپنے اعمال کی اصلاح کرتے ہوئے اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے اس طرف توجہ کرنی ہو گی۔
اگر ہمارے عمل ہماری باتوں سے مطابقت نہیں رکھتے، وہ پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے جو صحابہؓ نے کیں تو پھر ہم دنیا کی اصلاح کا کام بھی صحیح طرح انجام نہیں دے سکتے۔ تبلیغ کا کام ہم صحیح طرح نہیں کر سکتے۔
حقیقی احمدیوں سے خدا تعالیٰ کا کیا وعدہ ہے،
اس بات کو بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (اٰل عمران:56)‘‘ فرمایا ’’یہ تسلی بخش وعدہ ناصرت میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے واے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہی الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے۔‘‘ یعنی مجھے بھی یہی بشارت دی ہے کہ ’’اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدۂ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امّارہ کے درجہ میں پڑے ہوئے فسق و فجور کی راہوں پر کاربند ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے تویاد رکھو اور دل سے سن لو! میں پھر ایک بار ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثرنہ صرف میری ذات تک بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس بر گزیدہ انسانِ کامل کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ہی ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پروا تھی مگر اس پر بس نہیں ہوتی۔ اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی بر گزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ جو باتیں میں کہتا ہوں اگر ان کو نہیں مان رہے اور تبدیلیاں پیدا نہیں کر رہے تو پھر صرف مجھے بدنام نہیں کر رہے بلکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بدنام کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی حرف لا رہے ہو۔ فرمایا ’’پس ایسی صورت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی (کہ قیامت تک مکفرین پر غالب رہو گے۔)‘‘ جو آیت ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ قیامت تک میرے ماننے والے دوسروں پر غالب رہیں گے۔ اس ’’کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی میں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔ اس سے زیادہ اور میں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے۔ پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے‘‘ غور سے ’’سنو اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ103تا105۔ ایڈیشن 1984ء)
پس
یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں حقِّ بیعت ادا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
اگر ہم اس حالت کو حاصل کرنے کے لیے پوری کوشش نہیں کرتے تو پھر کیا فائدہ؟ لوگوں کی مخالفت بھی سہیڑیں اور خدا تعالیٰ کا حق بھی ادانہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم تقویٰ سے بڑھتے ہوئے محسنین کے زمرے میں شمار ہونے والے بن جائیں۔ ہمارا ہر قول و فعل اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو۔ حقوق العباد بھی ادا کرنے والے ہوں اور ایک درد کے ساتھ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہوئے محسنین کے گروہ میں ہم شامل ہوں۔
جلسہ کے ان دنوں میں دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جلسےکو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور جلسےکا جو حقیقی مقصد ہے اسے حاصل کرنے والے ہم ہوں۔
ان دنوں میں درود بھی پڑھیں جیسا کہ میں نے خطبے میں بھی کہا، بہت درود پڑھنے کی ضرورت ہے ان دنوں میں استغفار بھی بہت کریں۔ نمازوں میں بھی دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جلسےمیں آنے کا مقصد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب فیض پانے والے ہوں اور یہ دن ذکر الٰہی میں گزارنے والے ہوں۔
اب ہم دعا کریں گے دعا کرلیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری ساری دعاؤں کو قبول فرمائے۔
٭٭دعا٭٭