سچے مذہب کی شناخت کا ذریعہ
اس اقتباس کو باآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے
مولوی حامد حسین صاحب کی طرف سے سوال ہوا کہ تمام اہل مذاہب اپنے مذہب کو صحیح خیال کر رہے ہیں۔ ہم فیصلہ کس طور سے کریں۔ فرمایا:
بات یہ ہے کہ آج کل بلکہ ہمیشہ سے سچّے مذہب کی شناخت کے لیے ضروری ہے کہ دو باتیں اُس میں موجود ہوں۔ اوّل کہ اس کی تعلیم پاک ہو۔ اور تعلیم پر انسان کی عقل اور کانشنس کا کوئی اعتراض نہ ہو کیونکہ ناممکن ہے کہ خدا کے امور ناپاک ہوں۔ دوم۔ اس کے ساتھ تائیدات سماویہ کا سلسلہ ایسا وابستہ ہو کہ جس کے ساتھ انسان خدا کو پہچان سکے اور اس کی تمام صفات کا مشاہدہ کرے تاکہ گناہ سے بچ سکے۔ گو انسان سچّے مذہب میں ہی داخل ہو پر اگر اس کے ساتھ کشتی نہیں تو وہ ایسے چشمہ کی مثل ہےکہ جو ایسی جگہ واقعہ ہے جس کے ارد گرد پہاڑ یا دیوار یا ایسا خارستان ہے کہ وہاں ہم کسی طرح پہنچ نہیں سکتے۔ پس ایسا چشمہ ہمارے لیے فضول ہے۔ غرض ضروری شرط یہ ہے کہ اس قدر اسباب موجود ہوں جن سے پکی طرح پر معرفت الٰہی پیدا ہو جاوے ۔ یہ بات بھی بدیہی ہے کہ انسان کو زیادہ مصیبت اس بات کی ہے کہ طرح طرح کے مصائب شدائد کسل وغیرہ کیڑے ایسے لگے ہوئے ہیں کہ اس کو کھاتے اور خدا سے روکتے ہیں۔ اور انہیں کی وجہ سے انسان اور خدا کے درمیان ایک بُعد پڑا ہوا ہے۔
پس اس مذہب میں ایسے وسائل ہوں جو اس کو روز بروز کھینچتے جاویں اور کامل یقین پیدا کر کے خدا سے مِلا دیں۔
دنیا تو یہی سمجھتی ہے کہ کیا ہم خدا کے منکر ہیں۔ لیکن اس کے اعمال کہتے ہیں کہ ضرور وہ منکر ہے۔ میں نے اس بات کا ذکر اکثر کتابوں میں بھی کیا ہے۔ دیکھو اگر ایک سوراخ میں سانپ ہو۔ تو کیا ایک شخص اس بات کو جان کر کہ اس سوراخ کے قریب جاوے گا یا اس میں ہاتھ ڈالے گا ۔ایک بَن میں بہت درندے رہتے ہیں۔ کیا باوجود علم کے اس بَن میں کوئی جاوے گا۔ ایک زہریلے کھانے کو علم پا کر کھاوے گا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ امر یقین کے لوازم میں سے ہے کہ جس چیز کو وہ مہلک سمجھتا ہے۔ اس کے قریب نہ جاوے۔ پس ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک موقعہ پر حقوق انسانی کو چھینتا ہے۔ تلف کرتا ہے۔ رشوت لیتا ہے۔ چوری کرتا ہے۔ بد معاشی کرتا ہے۔ نہ غصہ اعتدال پر ہے وغیرہ وغیرہ پھر پیرانہ سالی اس کو ان گناہوں سے چھڑاتی ہے۔ پر جبتک جسمانی قویٰ اس کے ساتھ ہیں۔ ہر ایک قسم کی بدکاریاں کرتا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خدا پر ایمان نہیں۔
ہر ایک شخص اپنے نفس سے گواہی لے سکتا ہے کہ جیسا اس کا حق ہے اعتدال پر چلنے کا۔ ویسا وہ نہیں چلتا۔ پس بڑا مقصود یہ ہے کہ یہ جو بے اعتدالیاں انسان سے ظہور میں آتی ہیں اُن پر غور کرے کہ اُن کا کیا سبب ہے۔ تو آخر معلوم ہو گا کہ جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے۔ وہ پورا پورا نہیں ہے۔
بعض دفعہ احسان سے اور بعض دفعہ خوف سے گناہ کم ہو جاتے ہیں۔ جیسے نسبتاً شریر لوگ ایام امراض طاعون و ہیضہ میں نمازیں شروع کر دیتے ہیں۔ پس ضروری ہے کہ جہاں دو باتیں پائی جاویں۔ تعلیم پاک اور رفتہ رفتہ خدا تک پہنچ جانا۔ وہی سچّا مذہب ہے۔ اور یہ دونوں ذریعے ایسے ہیں کہ سوائے اسلام کے کہیں نہیں ملیں گے۔ جس خدا کو اسلام پیش کرتا ہے۔ اس صفائی سے اَور کسی مذہب نے پیش نہیں کیا۔ ایک طرف تو اسلام کی تعلیم اعلیٰ ہے۔
دوسری طرف ایک شخص دس دن بھی تبدیلی کرے تو اس پر انوار و برکات نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ آج کل اسلام کے بہت فرقے ہو گئے ہیں۔ گویا گھر گھر ایک فرقہ بنا ہوا ہے۔ اس سے تشویش ہو گئی ہے۔ ایک طرف شیعہ ہیں کہ حُسینؓ کو مثل لات کے بنا رکھا ہے۔ تو ایک شخص کہہ دے گا کہ کہاں جاؤں۔ شیعہ حُسین پرست بنے ہوئے ہیں۔ خوارج علی کو گالیاں دیتے ہیں۔
درمیان میں اہل سنّت ہیں۔ اگرچہ بظاہر اُن کا اعتدال نظر آتا تھا۔ مگر اب انہوں نے ایسے قابل شرم اعتقاد بنا رکھے ہیں کہ وہ شرک تک پہنچ گئے ہیں۔ مثلاً مسیح کو خالق بنا رکھا ہے۔ احیائے موتےٰ کرنے والا مانا ہوا ہے۔
پس پاک مذہب وہی ہے جو قرآن کا معیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اگرچہ انسان بظاہر گھبراتا ہے کہ اس پاک مذہب کو مَیں کس طرح پاؤں۔ مگر یاد رکھو کہ جویندہ یا بندہ۔ صبر اور تقویٰ ہاتھ سے نہ دے ورنہ خدا تعالیٰ غنی ہے۔ اس کو کسی کی کیا پرواہ ہے۔ پس انسان خدا کے سامنے خاکسار بنے تو اس پر لُطف اور احسان کرتا اور اس کی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ توبہ، دعا، استغفار کرے اور کبھی نہ گھبراوے۔ ہر ایک شخص بیمار ہے۔ اور کبھی صحت نہیں پا سکتا جبتک خدا کو نہ دیکھ لے۔ پس ہر وقت اُداس اور دل برداشتہ رہے اور تمام تعلقات کو توڑ کر خدا سے تعلق پیدا کرے ورنہ اس وقت تک جب تک کہ خدا سے نہیں ملا یہ گندہ اور نجس ہے۔
خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے َ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی (بنی اسرائیل:73)خدا پر یقین بڑی دولت ہے۔ پس اندھا وہی ہے جس کو اسی دنیا میں خدا پر پورا یقین حاصل نہیں ہوا۔ پس جب اس کا حُسن، جمال، جلال اس پر ظاہر ہو گا تو خدا کی تجلّی ہو گی۔ اور پھر یہ دیکھ کر ممکن نہیں کہ گناہ کی طرف انسان رجوع کر سکے۔ پس گناہ بھی تبھی کرتا ہے جب اس کو خدا پر شک پڑ جاتا ہے۔ پس جو شخص نفس کا خیرخواہ ہے اس کو تو خدا پر یقین ہونا چاہیے۔ مسیح کے زمانہ میں تو گناہ کی کمی تھی مگر کفّارہ نے دنیا کو گناہ سے پُر کر دیا۔
انسان اپنی کوشش سے کچھ نہیں کر سکتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ تم سب اندھے ہو۔ مگر جس کو خدا آنکھیں دے۔ تم سب بہرے ہو مگر جس کو خدا کان دے وغیرہ وغیرہ۔ پس جب انسان کو خدا ہدایت دینے لگتا ہے تو اس کے دل میں ایک واعظ پیدا کر دیتا ہے۔ پس جبتک دل کا واعظ نہ ہو، تسلّی نہیں ہو سکتی۔ پس دینی امور میں جب تک تقویٰ نہ ہو، روح القدس سے تائید نہیں ملے گی وہ شخص ضرور ٹھوکر کھا کر گرے گا۔
اس دین کی جڑ تقویٰ اور نیک بختی ہے اور یہ ممکن نہیں جنتک خدا پر یقین نہ ہو۔ اور یقین سوائے خدا کے اَور سے ملتا نہیں۔ اسی لیے فرمایا وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)پس انسان دنیا کو چھوڑ کر اپنی زندگی پر نظر ڈالے اور اپنی حالت پر رحم کرے کہ میں نے دنیا میں کیا بنایا۔ سوچے اور ظاہری الفاظ کی پیروی نہ کرے۔ اور دعا میں مشغول رہے تو امید ہے کہ خدا اس کو اپنی راہ دکھا دے گا۔ نیک دل لے کر خدا کے سامنے کھڑا ہو۔ اور رو رو کر دعائیں مانگے۔ تضرع اور عاجزی کرے۔ تب ہدایت پاوے گا۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 426تا 429۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭