جنگ اُحد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قربانیوں اور عشقِ رسولﷺ کا ایمان افروز تذکرہ: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍ فروری۲۰۲۴ء
٭… عمرو بن ثابتؓ کے متعلق روایت میں مذکور ہے کہ وہ احد کے دن نمازِ فجر کے بعد ایمان لائے تھے اور اسی روز مسلمانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے
٭… خیثمؓہ نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مَیں بدر کی جنگ میں شرکت نہیں کرسکا تھا اور اللہ کی قسم! مَیں اس پر حریص تھا
٭… جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے شہداء کی تدفین کے لیے تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا کہ ان شہداء کو ان کے زخموں سمیت ہی کفن دے دو کیونکہ مَیں ان پر گواہ ہوں
٭…شہدائے احد کی تعداد کے متعلق اکثر علماء کا قول ہے کہ اس روز کُل مقتولین کی تعداد ستّر تھی، جن میں سے چار مہاجرین میں سے اور باقی انصار صحابہؓ تھے
٭… انسانیت کے تباہی سے بچنے کے لیے دعاؤں کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍فروری۲۰۲۴ء بمطابق ۱۶؍ تبلیغ ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۶؍فروری ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جنگِ احد کے واقعات کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کرام کے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے تعلق کا ذکر ہورہا تھا۔اس حوالے سے حضرت خارجہ بن زید ؓکی شہادت کا بھی ذکر ملتا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کو تیرہ سے زائد زخم لگے تھے اور بالآخر صفوان بن امیہ نے آپ کو شہید کردیا تھا۔ پھر آپ کا مثلہ بھی کیا گیا تھا۔
ایک روایت کے مطابق حضرت عباس بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اپنا خود حضرت خارجہ بن زید ؓکو پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو اس کی ضرورت ہے؟ تو حضرت خارجہ ؓنے جواب دیا کہ نہیں! جس چیز کی تمہیں آرزو ہے مجھے بھی اسی (یعنی شہادت) کی خواہش ہے۔حضرت عباس بن عبادہؓ کو سفیان بن عبدِالشمس نے شہید کیا تھا۔
پھر حضرت شماس بن عثمانؓ کی شہادت کا ذکر ہے۔ آپ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہوئے اور غزوۂ احد میں بڑی جانفشانی سے لڑتے ہوئے ۳۴؍برس کی عمر میں شہید ہوئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں نے شماس بن عثمان کو ڈھال کی مانند پایا۔
پھر حضرت نعمان بن مالکؓ کی شہادت کا ذکر ہے۔ آپ بھی غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شریک ہوئے اور غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کو صفوان بن امیہ نے جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ کو ابان بن سعید نے شہید کیا تھا۔
ایک خاندان کے چار افراد کی شہادت کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ان شہداء میں ثابت بن وقشؓ اور ان کے بھائی رفاعہ بن وقشؓ اسی طرح ثابت کے دو بیٹے سلمہ بن ثابتؓ اور عمرو بن ثابتؓ شامل ہیں۔
ان سب کا تعلق انصار کے قبیلے بنو عبدالاشہل سے تھا۔ رفاعہ بن وقشؓ بوڑھے آدمی تھے جنہیں خالد بن ولید نے شہید کیا۔
عمرو بن ثابتؓ کے متعلق روایت میں مذکور ہے کہ وہ احد کے دن نمازِ فجر کے بعد ایمان لائے تھے اور اسی روز مسلمانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے متعلق فرمایا کہ عمرو بن ثابتؓ جنتی ہے۔
اسی طرح صحابہ ؓکی قربانیوں کے ذیل میں حضرت عبداللہ بن جحشؓ کا ذکر ہے۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی محبت نے آپ رضی اللہ عنہ کو تمام دنیا سے بے نیاز کردیا تھا۔
انہیں اگر کوئی تمنا تھی تو یہ کہ جانِ عزیز کسی طرح راہِ خدا میں نثار ہو جائے۔چنانچہ آپ کی یہ خواہش پوری ہوئی اور احد کی جنگ میں آپ شہید ہوگئے۔
شہادت سے ایک روز قبل آپ رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تھی کہ اے خدا! کل میرے سامنے ایسا شخص آئے جو حملہ کرنے میں سخت ہو اور اس کا رعب غالب ہو۔ اس سے مَیں تیری خاطر قتال کروں اور وہ مجھ سے قتال کرے۔ وہ غالب آکر مجھے قتل کردے، اور میرے ناک کان کاٹ ڈالے۔ پھر مَیں اس حالت میں تیرے حضور حاضر ہوں اور تُو مجھ سے پوچھے کہ اے عبداللہ! کس کی راہ میں تیرے ناک کان کاٹے گئے ہیں تو مَیں عرض کروں اے اللہ! تیری راہ میں اور تیرے رسول کی راہ میں۔
حضرت حمزؓہ اور حضرت عبداللہ بن جحشؓ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔ حضرت حمزہ ؓحضرت عبداللہ بن جحشؓ کے ماموں تھے اور شہادت کے وقت آپ کی عمر چالیس سال سے کچھ زائد تھی۔
پھر ابو سعد خیثمہؓ بن ابو خیثمہ کی شہادت کا ذکر ہے۔ خیثمؓہ نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مَیں بدر کی جنگ میں شرکت نہیں کرسکا تھا اور اللہ کی قسم! مَیں اس پر حریص تھا۔ مَیں نے بدر میں جانے کے لیے قرعہ ڈالا تو میرے بیٹے سعد بن خیثمہؓ کے نام قرعہ نکلا اور اس نے شہادت حاصل کی۔
مَیں نے رؤیا میں اپنے بیٹے کو جنت کے باغوں اور نہروں میں سیر کرتے ہوئے بڑے اچھے حال میں دیکھا۔ وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ آپ ہمارے پاس آجائیں ہم جنت میں ساتھ ہوں گے۔
مَیں نے اپنے رب کے وعدوں کو حق پایا ہے۔ پس مَیں اپنے بیٹے سے ملاقات کا مشتاق ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت اور جنت میں اپنے بیٹے کی رفاقت عطا کرے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور یوں خیثمؓہ جنگِ احد میں شہید ہوگئے۔
پھر عبداللہ بن عمرو ؓکی شہادت کا ذکر ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے شہادت سے قبل اپنے بیٹے حضرت جابر ؓکو فرمایا تھا کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ مَیں اوّلین شہداء میں سے ہوں گا۔ میرے ذمہ کچھ قرض ہے تم وہ ادا کردینا اور اپنی بہنوں سے حسنِ سلوک کرنا۔ جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ اگلے روز میرے والد سب سے پہلے شہید ہونے والے تھے۔ کافروں نے ان کا مثلہ بھی کیا تھا۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے شہداء کی تدفین کے لیے تشریف لائے تو آپ نے فرمایا کہ ان شہداء کو ان کے زخموں سمیت ہی کفن دے دو کیونکہ مَیں ان پر گواہ ہوں۔
کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ کی راہ میں زخمی کیا جائے مگر وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا خون بہ رہا ہوگا اور اس کا رنگ زعفران کی طرح ہوگا اور اس کی خوشبو کستوری کی ہوگی۔ یعنی یہ لوگ پسندیدہ لوگ ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان کرتے ہیں کہ میرے والد کو جب احد کے دن لایا گیا تو میری پھوپھی رونے لگیں اور مَیں بھی رونے لگا۔ لوگ مجھے روکنے لگے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں روکا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس پر رؤیا نہ رؤ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اللہ کی قسم! فرشتے اس پر مسلسل سایہ کیے ہوئے تھے یہاں تک کہ تم نے اسے دفن کردیا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مسلمان شہید ہوگئے ہیں تم انہیں مردہ نہ کہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کے زندہ سپاہی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا ضرور بدلہ لے گا۔ دیکھو! اگر ایک صحابی مارا گیا تو اس کے مقابلے میں مشرکوں کے پانچ پانچ آدمی مارے گئے اور ہر جنگ میں کفار مسلمانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہلاک ہوئے سوائے جنگِ احد کے، کہ اس میں بہت سے مسلمان مارے گئے تھے۔ مگر ان کا بدلہ بھی اللہ تعالیٰ نے دوسری جنگوں میں لے لیا۔
جنگِ احد کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزوری کی وجہ سے بیٹھ کر نمازِ ظہر پڑھائی۔ آپ کے پیچھے صحابہ نے بھی بیٹھ کر نماز ادا کی۔
شہدائے احد کی تعداد کے متعلق اکثر علماء کا قول ہے کہ اس روز کُل مقتولین کی تعداد ستّر تھی، جن میں سے چار مہاجرین میں سے تھے اور باقی انصار صحابہ تھے۔ بعض متفرق روایات میں یہ تعداد اسّی اور چھیانوے نیز انچاس سے ایک سَو آٹھ تک بھی بیان ہوئی ہے۔
شہدائے احد کی نمازِ جنازہ کے متعلق یہ ذکر ملتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کی نمازِ جنازہ اس موقعے پر نہیں پڑھی تھی۔
ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کی نمازِ جنازہ جنگِ احد کے آٹھ سال بعد ادا کی تھی۔
حضرت امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ متواتر روایات سے یہ بات پختہ طور پر معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا۔ جن روایات میں ذکر آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہداء کا جنازہ پڑھا اور حضرت حمزہ ؓپر ستّر تکبیرات کہی تھیں، یہ بات درست نہیں ہے۔جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد ان شہداء کا جنازہ پڑھا تھا تو اس روایت میں اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ یہ واقعہ آٹھ سال بعد کا ہے۔
خطبہ جمعہ کے اختتام پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے موجودہ حالات کے متعلق فرمایا کہ جنگ کی آگ تو اب پھیلتی جارہی ہے۔
انسانیت کے تباہی سے بچنے کے لیے اب دعا کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ احمدی اگر حقیقت میں صحیح طرح دعا کریں تو اس کے لیے کچھ کرسکتے ہیں۔
اسرائیلی حکومت اپنی ڈھٹائی پر تُلی ہوئی ہے۔ ہر بات پر وہ اپنا کوئی نہ کوئی عذر تراش کر بیان کردیتے ہیں۔ کسی عقل کی بات کو ماننے کے لیے یہ تیار نہیں ہیں۔ دنیا کی باقی حکومتوں کی مرضی ہے یا انہیں اسرائیل کا خوف ہے کہ اپنے بیان دینے کے بعد پھر اسرائیل کے بیان پر صادکریتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے اور ان کو خدا تعالیٰ کی طرف جھکائے۔ یہی ایک رستہ ہے جس کی پناہ میں آکر یہ لوگ دنیا اور عاقبت سنوار سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور ہمیں بھی دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مزید تفصیل کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں
٭…٭…٭