مسجد فضل لندن
اُنیسویں صدی کے تناظر میں امّت مسلمہ مذہبی اور سیاسی زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر چکی تھی اور اس زبوں حالی کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ کچھ شدت پسند دلوں سے زنگ اتارنے کے لیے تلوار کو ہی واحد ذریعہ سمجھتے تھے اور اس کے حصول کے لیے دیوانے ہوئے جارہے تھے اور بعض جدّت پسند جدید تعلیم کو ہی اخلاقی و دنیاوی انحطاط کا واحد ذریعہ نجات سمجھتے تھے۔ایک مؤرخ نے جدید دَور میں امّت مسلمہ کو جو مسئلہ درپیش تھا اسے چند لفظوں میں سمو دیا ہے۔
’’The fundamental malaise of modern Islam is a sense that something has gone wrong with Islamic history. The fundamental problem of modern Muslims is how to rehabilitate that history: to set it going again flourish as a divinely -guided society should and must.‘‘(Smith 1957:41)
اس مسئلہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے مذہبی اور سیاسی راہنما اپنے اپنے دائرہ کار میں جدوجہد کر رہے تھے لیکن امید کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن جب رستہ تکتے تکتے ہر ایک راہ گزار سوگئے تو بے اختیار لبوں پہ آگیا۔
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
یہ وہ تناظر تھا جب ایک ماہتاب لب جو آیا اور یہ نوید سنائی:’’ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی… دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۶۷)
مایوسی کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ان حیات آفریں الفاظ نے دلوں میں ایک نئی جوت جگا دی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان نام نہاد مذہبی راہنماؤں کو جو ماضی اور مستقبل میں تلوار کو ہی اشاعت اسلام کا ذریعہ سمجھتے تھے واضح پیغام دیا کہ’’تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گذرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہیے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے۔ پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوارسے پھیلانا چاہیے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے۔‘‘(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۶۷)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نوید فتح اور واضح راہنمائی نے توحید کے متوالوں کو گرمیٔ عشق سے بیتاب کر دیا اور یہ شوق تبلیغ انہیں اکناف عالم میں لے آیا۔
مسجد فضل لندن کا پس منظر
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں خواجہ کمال الدین صاحب انگلستان پہنچے اور ووکنگ میں اپنا کام شروع کیا۔۲۵؍جولائی ۱۹۱۳ء کو چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ لندن پہنچ گئے کچھ عرصہ وہاں قیام کر کے ووکنگ پہنچے اور آپ کا قیام مارچ ۱۹۱۴ء تک ووکنگ میں رہا۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد’’چودھری صاحب نے حضرت خلیفہ ثانی ؓکی بیعت کر لی اور خواجہ کمال الدین صاحب بیعت سے منحرف رہے۔اس اختلاف کی وجہ سے…انہیں ووکنگ چھوڑ کر پھر مئی ۱۹۱۴ء میں لندن آنا پڑا۔ اور یہاں پر انہوں نے اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کا انتظام اور کام کرنا شروع کیا…سب سے پہلا پھل چودھری صاحب کی مساعی کا ایک شخص مسٹر کوریو(Mr. Corio)تھا۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ،تواریخ مسجد فضل لندن، صفحہ۱۶)
تحریک مسجد لندن
تحریک مسجد لندن کا آغاز سب سے پہلے قادیان میں ۱۹۲۰ءمیں ہوا۔اس سلسلہ میں حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’سب سے پہلے ناظرین کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں (یعنی مسیح موعود کے) سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اور جیسا کہ پیشگوئیوں کا قاعدہ ہے ان میں استعارات کا رنگ بہت غالب ہوتا ہے…اس کی تاویل یعنی حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمائی ہے کہ آخری زمانہ میں اسلام کا سورج مغربی ممالک پر طلوع ہوگا اور ان لوگوں کو بھی جو ہزارہا سال سے اندھیرے میں تھے منور کیا جائے گا۔ اور چونکہ اسلام اور مسجد کا وجود لازم و ملزوم چیز ہیں۔ اور مسجد اسلام میں خانۂ خدا سمجھی جاتی ہے اس لئے انگلستان میں مسجد کا وجود دراصل اس پیشگوئی والے سورج کا مطلع ہے جہاں سے اسلام ان ممالک میں پھیلے گا۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ،تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۲۶-۲۷)
اسلام اور مسجد کا وجود لازم و ملزوم چیز ہیں اور انگلستان لندن میں قیام مسجد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص قدرت کے ذریعے انتظام فرمایا۔
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں: ’’اگرچہ ولایت میں تبلیغی سلسلہ جاری ہوتے ہی حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کو مسجد کے وجود میں لانے کا خیال پیدا ہوگیا تھا…مگر یہ کام بظاہر مشکل نظر آتا تھا …مگر خدا نے ہر انتظام بہترین صورت میں پورا کر دیا۔ سب سے پہلا زینہ روپیہ کی فراہمی تھی اوروہ اس طرح ہوئی… ۶؍جنوری۱۹۲۰ء ، منگل کا دن تھا جب خاص طور پر حضرت صاحب کو اس کا خیال ہوا۔ حضور ظہر کی نماز پڑھا کر واپس تشریف لے جاہی رہے تھے کہ آگے نمازیوں کی وجہ سے راستہ نہ ملا۔ اس پر حضور بیٹھ گئے اور ناظر صاحب بیت المال کو بلا کر فرمایا کہ اس وقت چودہ پندرہ ہزار قرض لے کر بھیج دیا جاوے…جب حضور گھر میں تشریف لے گئے۔ اور تحریک تحریر فرمائی تو بجائے چودہ پندرہ ہزار کے تیس ہزار رقم لکھ دی اور بجائے قرضہ کے چندہ کا لفظ لکھ دیا۔ حضور فرماتے تھے کہ گویا خود بخودہی ایسا ہوگیا …مسجد مبارک میں گنجائش کم اور اعلان کے لئے وقت تھوڑا !مگر حضور کی اس پہلی تحریک پر ہی چھ ہزار چندہ ہوگیا۔ ‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب،تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۲۹-۳۰)
لندن میں مسجد کی تعمیر کے لیے قادیان میں احمدیوں کا جوش وخروش دیکھنے کے قابل تھا قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہوگئی۔ مردو زن ، بچے سب ایک خاص نشۂ محبت میں چُور نظر آتے تھے۔ کئی عورتوں نے اپنے زیور اتار دیے اور بہتوں نے ایک مرتبہ چندہ دے کر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کے نام پر اور پھر بھی جوش نہ تھمتا تو اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دینا شروع کر دیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’جوش کا یہ حال تھا کہ ایک بچہ نے جو ایک غریب اور محنتی آدمی کا بیٹا ہے، مجھے ساڑھے تیرہ روپے بھیجے کہ مجھے جو پیسے خرچ کے لئے ملتے تھے ان کو میں جمع کرتا رہتا تھاوہ میں سب کے سب اس چندہ کے لئے دیتا ہوں۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب،تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۳۱)
بڑوں او ر بچوں کا یہ ذوق و شوق دیکھ کر واقعہ یاد آگیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے موقع پر صحابہ کرامؓ کے ساتھ تشریف لے جارہے تھے۔’’مدینے سے تھوڑی دور نکل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا…کم عمر بچے جو …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کے شوق میں ساتھ چلے آئے تھے واپس کئے گئے۔ عمیر بھی کمسن تھے۔ انہوں نے جب بچوں کی واپسی کا حکم سنا تو لشکر میں اِدھر اُدھر چُھپ گئے۔ لیکن آخر ان کی باری آئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی واپسی کا حکم دیا۔ یہ حکم سن کر عمیر رونے لگے اور آپؐ نے ان کے غیر معمولی شوق کو دیکھ کر انہیں اجازت دے دی۔ ‘‘(اصابہ : ذکر عمیر بن ابی وقاص۔ بحوالہ سیرت خاتم النبیینؐ ازحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ، صفحہ ۴۰۶)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروزِ کامل کے دَور میں گو یہ مالی جہاد کی تحریک تھی لیکن ذوق و شوق اور جوش کی وہی جھلکیاں نظر آرہی تھیں۔ ۶؍جنوری ۱۹۲۰ء کو تحریک تیس ہزار روپےسے شروع ہوئی۔’’غرض روپیہ ولایت جاتا رہا اور آخری قسط ۲۱؍فروری ۱۹۲۰ء کو …کل روپیہ جو اس وقت ولایت بھیجا گیا چونسٹھ ہزار چھ سو پچاس (۶۴،۶۵۰)تھا۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ،تواریخ مسجد فضل لندن۔ صفحہ ۳۳)
حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ نے مرکز سے ملنے والی اطلاع کے مطابق لندن پٹنی ساؤتھ فیلڈ میں زمین مع مکان ۲۲۲۳؍پاؤنڈ میں خریدی۔
مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو ’’یہ خیال آتا تھا کہ میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھوں یہ پاک خواہش ان خواہشوں میں سے ایک تھی جو دنیا کی رَستگاری کے لئے آنے والے لوگوں کی ہوتی ہے۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب،تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۳۹)
لیکن اللہ تعالیٰ نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے عجب سامان پیدا کیا۔
’’شروع ۱۹۲۴ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں سوشلسٹ لیڈر مسٹر ولیم لافٹس (Mr. William Loftus Hare) نے یہ تجویز کی کہ اس عالمی نمائش کے ساتھ ساتھ ایک مذاہب کانفرنس بھی منعقد کی جائے…کمیٹی کے جائنٹ سیکرٹری ایم ایم شارپلز …نے محسوس کیا کہ اسلام سے متعلق احمدی جماعت کا نقطۂ نگاہ ضرور پیش ہونا چاہیے۔…(انہوں )نے کمیٹی کو توجہ دلائی کہ انتخاب مقررین میں نیّر صاحب (حضرت مولوی عبدالرحیم نیرؓ ) سے ضرور مشورہ لیا جائے …آپ (نیّر صاحب) نے حضرت صوفی حافظ روشن علی صاحب کا نام لکھایا مگر ساتھ ہی بتایا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ کی اجازت سے ہی حافظ صاحب آسکیں گے…کمیٹی …(نے )فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں کانفرنس میں شمولیت کی درخواست کی جائے اور صوفی صاحب کو بھی ساتھ لانے کی گزارش کی جائے اس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں انگلستان کے سربرآوردہ مستشرقین کی طرف سے دعوت نامہ پہنچا۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد۴صفحہ ۴۲۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے احباب سے مشورہ کیاتو ’’نوّے فیصدی جماعتوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ حضور بنفس نفیس تشریف لے جائیں پھر حضور نے بھی اور چالیس کے قریب دوستوں نے استخارے بھی کئے جن سے اسی مشیت الٰہی کا علم ہوا کہ خود آپ ہی کو تشریف لے جانا چاہیئے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۴۲۷)
’’بالآخر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فیصلہ فرمالیا اور روانگی کی تاریخ ۱۲؍جولائی ۱۹۲۴ء معین کر دی گئی۔۱۲؍جولائی ۱۹۲۴ء کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزارِ مبارک پر صبح کے وقت دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔ ۸ بجے کے قریب حضور رضی اللہ عنہ نے بیت الدعا میں لمبی دعا کرائی۔ حضرت امّ المومنین نے دیر تک حضورؓ کو گلے لگا کر دعاؤں سے رخصت فرمایا۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۳۳)
حضور رضی اللہ عنہ بمبئی ، عدن، قاہرہ ، بیت المقدس ، دمشق، اٹلی سے ہوتے ہوئے ۲۲؍اگست ۱۹۲۴ء کے قریب لندن کے مشہور وکٹوریہ سٹیشن پر پہنچے۔
’’حضور نے پلیٹ فارم پر قدم رکھتے ہی اپنے قافلہ سمیت دعا کی …آپ نے اسلام کی کامیابی اور کسر صلیب کے لئے دعا کی …حضور ایک لمبی دعا کرنے کے بعد اپنے خدام سمیت اپنی قیام گاہ (واقع چشم پیلس نمبر۴) میں تشریف لے گئے۔ اور دعا کے بعد قیام فرما ہوگئے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ۴۴۶)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس دن سفر یورپ کے لیے روانہ ہوئے تھے برطانوی پریس میں آپ کی آمد کی خبریں کثرت کے ساتھ شائع ہونی شروع ہوگئیں۔ ٹائمز اخبار نے لکھا:
’’A notable feature of the afternoon will be an account of the Ahmadiyya movement by the son of the founder and the present head, Bashir- ed- Din Mahmud Ahmad, who has travelled from the Punjab, with 12 oriental scholars, for the conference, and will arrive in London next week. The movement takes its name from its founder, Mirza Ghulam Ahmad khan, who died in 1908 and claimed to be Messiah and the Mahdi.‘‘(The Times, August 18, 1924, Page 15)
’’لندن ورود کے بعد…اتنی کثرت سے آپ کے فوٹو اور حالات وغیرہ شائع کئے گئے کہ ایک متعصب رومن کیتھولک اخبار کو لکھنا پڑا کہ تمام برطانوی پریس سازش کا شکار ہوگیا ہے۔ اور کئی لوگوں نے برملا اظہار کیا کہ اس نے اتنی اہمیت اور شہرت لندن میں آنے والے کی بڑے سے بڑے لارڈ کو بھی نہیں دی۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۴۴۶)
کانفرنس میں حضورؓ کے مضمون کی شاندار کامیابی
’’۲۳؍ستمبر ۱۹۲۴ء کا دن سفر یورپ کی تاریخ میں سنہری دن ہے کیونکہ اس دن ویمبلے کانفرنس میں حضور کا بے نظیر مضمون پڑھا گیا۔ جس نے سلسلہ احمدیہ کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے۔ یورپ میں اسلام کی روحانی فتح کی بنیادیں رکھ دیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لندن میں تقریر کرنے کارؤیا پوری آب و تاب سے پورا ہوگیا…مردوں اور عورتوں نے بھی نہایت شوق اور خوشی سے سنا۔ ایک گھنٹہ بعد لیکچر ختم ہوا تو لوگوں نے اس گرم جوشی کے ساتھ اور اتنی دیر تالیاں بجائیں کہ پریذیڈنٹ سر تھیوڈر ماریسن کو اپنے ریمارکس کے لئے چند منٹ انتظار کرنا پڑا…قانون کے ایک پروفیسر نے بیان کیا کہ جب وہ مضمون سن رہا تھا تو یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ دن گویا ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہے……ایک پادری منش نے کہا تین سال ہوئے مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ خواب پورا ہوگیا۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۴صفحہ ۴۵۱، ۴۵۳)
مسجد فضل کا سنگ بنیاد
مسجد کے سنگ بنیاد کے لیے ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۲۴ء ہفتہ کا دن مقرر تھا۔ لندن کے اخبارات نےموسم کے متعلق پیش گوئی کی تھی کہ سورج نکلے گا لیکن صبح ہی سے بارش شروع ہوگئی۔ جب اس کا ذکر حضور رضی اللہ عنہ سے ہوا تو آپؓ نے نہایت اطمینان سے فرمایا:’’یہ بہت اچھا ہے۔ ایسی حالت میں جو لوگ آئیں گے وہ اخلاص ہی سے آئیں گے اور انشاء اللہ یہ تقریب کامیاب ہو گی۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب، تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۴۰)
اللہ کے فضل سے یہ تقریب کامیاب ہوئی۔ دو بجے سے ہی مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی۔ لندن کے بعض اکابر اور پورٹ سمتھ تک کے بعض نو مسلم اور ہندوستانی اور ہر طبقہ کے لوگ تقریب میں آئے۔
’’یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ احمدی سائبان کے نیچے انگریز، جاپانی، جرمن، سروین، زگوسلاف، اتھوپین، مصری، اٹالین، امریکن، ہنگرین، انڈین اور افریقن سب جمع تھے گویا مشرق مغرب کو حضرت اولوالعزم نے ایک مقام پر اکٹھا کر دیا اور مذہب کے لحاظ سے عیسائی، یہودی، زرتشتی، آزاد خیال، ہندو اور مسلمان سب تھے اور یہ معزز مجمع دو سو (۲۰۰)سے زائد آدمیوں پر مشتمل تھا۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب،تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۴۱)
پرائم منسٹر سر ریمزے میکڈانلڈ (Sir Ramze McDonald)نےامام جماعت احمدیہ کی اس دعوت پر شکریہ ادا کیا لیکن چونکہ وہ لندن سے باہر تھے اس لیے اس موقعہ پر وہ نہ آسکے اور انہوں نے اس پر بہت افسوس کا اظہار کیا۔
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تین بجے خیمہ میں تشریف لائے۔ تمام حاضرین حضور کے احترام میں سروقد کھڑے ہو گئے آپ نےسب مردوں سے مصافحہ کیا۔ بعد میں اعلان کیا گیا کہ احباب اس مقام پر چلیں جہاں سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ سارا مجمع اس جگہ پر پہنچا جہاں مسجد کے محراب کی جگہ مسجدکا سنگ بنیاد نصب کرنا تھا۔
تلاوت قرآن پاک کے بعدحضور رضی اللہ عنہ نے اپنا ایڈریس انگریزی میں خود پڑھا۔
’’اس ایڈریس کا حاضرین پر ایک خاص اثر تھا خود حضرت پر ایک قسم کی ربودگی طاری تھی…اس ایڈریس کے پڑھے جانے کے بعد آپ نے سنگ بنیاد رکھا۔ ٹھیک اس وقت سلسلہ کے مرکز سے آپ کے نائب حضرت مولوی شیر علی صاحب کا تار جماعت کی طرف سے مبارکباد کا وصول ہوا۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب، تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۴۴)
اس کےبعد حضورؓ نے لمبی دعا کی۔ پھر عصر کی نماز اسی مقام پر پڑھی اور حضور ؓنے اعلان فرمایا کہ میں اعلان کرتا ہوں کہ اس مسجد کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا گیا۔
نماز کے بعد مبارکباد کی آواز ہر طرف بلند ہوئی اور مسجد کے محراب پر ایک جھنڈا لہرایا گیا جو حیدر آباد کے ہوم سیکرٹری نواب اکبر نواز جنگ صاحب نے دیا تھا۔(تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۴۵۹)
حضور رضی اللہ عنہ کے مسجد فضل کے سنگ بنیاد رکھنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کشف کامل طور پر پورا ہوگیا:’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ ۲۱۴)
یہ کشف اس مسجد کی دیوار پر نصب کتبہ میں آپ کا نام لکھا جانے سے کامل طور پر پورا ہوگیا۔(ماخوذ از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب،تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۲۸)
اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مضمون تعوذ اور تسمیہ کے بعد انگریزی میں پڑھا۔ یہ نہایت بصیرت افروز تھا جو کہ ۱۹۲۴ء میں اُس وقت پڑھا گیا جب دنیا آہستہ آہستہ جنگ عظیم دوم کی طرف بڑھ رہی تھی۔ آپؓ نے فرمایا:’’جس عمارت کی بنیادرکھنے کے لئے ہم آج جمع ہوئے ہیں وہ اتحاد اور اتفاق کا ایک نشان ہے اور اپنے وجود سے ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلا رہی ہے کہ ہماری امید اور مرجع ایک ہی ہے پس ہمیں آپس کے اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑنا اور فساد کرنا نہیں چاہیے……یہ مسجد صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے تا کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں۔ متوجہ ہوں۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب،تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۴۶-۴۸)
خاکسار جب حضور رضی اللہ عنہ کے ایڈریس کا مطالعہ کر رہاتھا تو یہ جان کر ورطۂ حیرت میں پڑ گیا کہ جو بات آپ ۱۹۲۴ء میں فرما رہے تھے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں ہوسکتی۔ وہی بات عالمی مؤرخ ٹائن بی 1972ء میں کر رہا تھا۔
’’Each time a people has lost faith in its religion, its civilization has succumbed to domestic social disintegration.‘‘ (The Toynbee Ikeda Dialogue: Kodansha Inrernational Ltd. 1976 Page 288)
آپ اسی حقیقت کا اعلان ۱۹۲۴ء میں فرما رہے تھے اور دنیا کو آنے والی جنگ کے خطرہ سے متنبہ فرما رہے تھے۔ مسجد فضل کا افتتاح ۳؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کو ہوا۔پروگرام کے مطابق اس مسجد کا افتتاح شاہ فیصل سے کروایا جانا تھا اور افتتاح کی تاریخ ۲۹؍ستمبر کو مقرر تھی لیکن فارن آفس کے مشورے سے پہلے تاریخ میں تبدیلی کروائی گئی اور بعد میں معذرت کر لی گئی چنانچہ
’’In the absence of the Emir the Choice fell upon Sir Abul Qadir Barrister of law and former minister of the Punjab Government and member of the Indian delegation at the League of Nation.‘‘(The Times, October, 4, 1926, P, 11)
مسجد کے افتتاح سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔آپؓ نے تحریر فرمایا:’’ہم لوگوں کا مقصد اس مرکز توحید میں بیٹھ کر محبت اور اخلاص کے ساتھ واحد خدا کی پرستش رائج کرنا اور اس کی محبت کو قائم کرنا ہو گا…آؤ ! ہم سب مل کر تو حید کو جن پر سب کا اتفاق ہے۔ قائم کر یں۔ ہم لوگوں کے اندر یہ روح پیدا کر یں کہ وہ تعصب سے آزاد ہو کر جو سب سے بڑا بت ہے۔ خدائے واحد کی دیانت داری سے جستجو کر یں۔ اور خواہ وہ کسی مذہب میں ہو۔ اسے قبول کر لیں۔ ہم اس خدا کی طرف نہ جھکیں۔ جو ہمارے دماغوں نے پیدا کیا ہے۔کیونکہ …وہ ایک بُت ہے بلکہ اس خدا کی طرف جھکیں…جو اپنی زندہ طاقتیں ہمیشہ اپنے مقدسوں کے ذریعہ سے ظاہر کرتا رہتا ہے۔ اور پھر اس مشرق ومغرب کے خدا پر ایمان لاتے ہوئےیہ کوششیں کر یں۔ کہ دنیا میں امن و امان قائم ہو۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب،تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ۸۹،۸۸)
اس خطبہ کے بعد خان بہادر سر عبدالقادر نے ’’چاندی کی کنجی‘‘ کو امام سے لیا اور قفل میں داخل کر کے جب پھرایا تو بآواز بلند یہ الفاظ کہے:’’خدائے رحیم و رحمن کے نام پر میں اس کی اس عبادت گاہ کا افتتاح کرتا ہوں۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب،تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ ۹۰)
سر عبدالقادر نے اپنے خطاب میں فرمایا:’’مجھے امید ہے کہ وہ اس مسجد کے وجود سے جو اسلام کے اصولوں پر روشنی ڈالنے کے لئے عیسائیت کے مرکز میں بنائی گئی ہے۔ پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ بہت سے طالبان حق اس نور سے حصہ پانے کے لئے تیار ہیں جس کو ہمارے پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں لے کر آئے تھے۔‘‘(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب، تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ۹۵)
مسجد فضل لندن عالم اسلام کے لیے ایک مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جہاں سے مسلمانان عالم کے مذہبی اورسیاسی حقوق کے لیے نہ صرف آواز اٹھائی گئی بلکہ راہنمائی کا فریضہ بھی ادا کیا گیا۔ فلسطین سے لے کر کشمیر تک مظلوم مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد کی گئی۔ سب سے اہم مرحلہ اس وقت آیا جب ۱۹۲۷ء میں ہندوؤں کی طرف سے کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ اور رسالہ ’’ورتمان‘‘میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں انتہا کو پہنچ گئیں۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور حرمت کی حفاظت کی خاطر نہ صرف کامیاب مہم چلائی بلکہ آپ نے یہ تجویز پیش کی۔
’’لوگوں کو آپ پر (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر) حملہ کرنے کی جرأت اس لئے ہوتی ہے کہ وہ آپؐ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں …اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیئے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپؐ کی پاکیزگی سے آگاہ ہوجائے اور کسی کو آپؐ کے متعلق زبان درازی کر نے کی جرأت نہ رہے…ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کو خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں۔ جب وہ آپؐ کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ آپؐ کی ذات نور ہی نور ہے۔ اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۵صفحہ ۳۰)
اس تحریک کی گونج لندن میں بھی سنائی دی اور مسجد فضل لندن میں سیرت کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں مسلم ، غیر مسلم مقتدر شخصیتوں نے شرکت کی اور سرورِ کائنات بادشاہِ ہردوسرا، مولائے کل کو خراج عقیدت پیش کیا۔ چنانچہ ۲۰؍مئی ۱۹۲۹ء کو فضل مسجد میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی صدارت مہاراجہ بردوان نے کی۔ اس میں جن شخصیات نے خطاب کیا ان میں عبداللہ یوسف علی، امام مولوی فرزند علی صاحب اور مسز سروجنی نائیڈو (Mrs. Sarogini Naidu) شامل تھے۔ اس کا موضوع ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دنیا کے لئے سرچشمہ فیض‘‘تھا۔
مسز سروجنی نائیڈو نے جو اپنی منفرد شاعری کی وجہ سے بلبل ہند کہلاتی تھیں ان الفاظ میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
’’We Praise thee, o compassionate,
Master of love and time and fate
Lord of the labouring winds and seas
Ya Hameed , Ya Hafeez‘‘ (The Review of Religions, July 1929, page 221)