ایمیزون جنگل اور حالیہ پُر اسرار شہر کی دریافت
ایمیزون جنگل کے نام سے توہم سب ہی واقف ہیں۔ یہ جنگل روئے زمین کا سب سے خوفناک جنگل ہے جس کے اندر بہت سے پُر اسرار راز پوشیدہ ہیں۔ ایمیزون کے جنگل میں آج بھی وحشی اور انسان خور قبائل موجود ہیں۔ جنگل میں موجود ان قبائل کی تعداد۴۰۰ بتائی جاتی ہے جن کی کُل آبادی چالیس لاکھ سے زائد ہے۔ جب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہو تو تب بھی ایمیزون کے جنگل کا بڑا حصہ اس قدر تاریکی میں ڈوبا ہوتا ہے کہ ٹارچ کے ساتھ آپ کو زمین دیکھنی پڑتی ہے۔ جنگل کے کچھ حصے اس قدر گھنے ہوتے ہیں کہ اگر ایک انسان جنگل کے ایک حصہ میں کھڑا ہو اور بارش شروع ہوجائے تو اس تک بارش کے قطرے دس سے پندرہ منٹ تک پہنچیں گے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ صرف برازیل میں ۹۶۶۶۰ سے ۱۲۸۸۴۳ غیر فقاری (invertebrate)جانوروں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔
ایمیزون برساتی جنگل (Amazon rainforest) جسے عام طور پر انگریزی میں Amazon Jungle یا Amazonia بھی کہا جاتا ہے شمالی اور جنوبی امریکہ کے علاقوں کی طرف کا ایک غیرمعمولی بڑا جنگلاتی علاقہ ہے جو دریائے ایمیزون کو بھی عبور کرتا ہے اور کہیں اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں میل تک آباد ہے۔
دریائے ایمیزون لمبائی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جس کی کل لمبائی سات ہزار کلو میٹر ہے اور اس کی عمر کا تخمینہ گیارہ ملین سال تک کا لگایا گیا ہے۔ اس کی ابتداجنوبی امریکہ کے بارہ لاکھ سال پرانے پہاڑوں سے ہوتی ہے۔ ایمیزون کا جنگل دنیا کےنو ممالک کی حدود میں واقع ہے۔ان ممالک میں برازیل، فرانسیسی گیانا، ایکواڈور، گیانا، کولمبیا، وینزویلا، بولیویا، پیرو اور سرینام کے کچھ حصے شامل ہیں۔
ایمیزون جنگل کا بہت بڑا حصہ برازیل میں واقع ہے جو پچاس فیصد سے زائد ہے۔ وسطی ایمیزون میں درجہ حرارت ۳۰؍ ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جبکہ ایمیزون کے مغربی حصہ میں درجہ حرارت ۲۵؍ ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ وکی پیڈیا(Wikipedia) کے مطابق ایمیزون جنگل کا رقبہ۲,۵۱۰,۰۰۰؍ مربع میل ہے جو کہ آسٹریلیا کے رقبہ کے تقریبا ًبرابر ہے۔ دنیا کی زندہ حیات کا نصف اسی جنگل میں پایا جاتا ہے۔ ایمیزون ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ’’لڑاکو عورت‘‘ہے۔ یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔ زمین کی۲۰؍ فیصد آکسیجن اسی جنگل کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں۔ یہ علاقہ حشرات الارض کی ۲.۵؍ ملین اقسام، لاکھوں نباتات اور پرندوں اور ممالیہ جانوروں کی دو ہزار انواع کا گھر ہے۔ ایمیزون جنگل کی جانورخور مکڑیاں اتنی بڑی اور طاقتور ہوتی ہیں کہ پرندوں کو موقع ملتے ہی ہلاک کردیتی ہیں۔ جانوروں کو سورج کی دھوپ لینے کے لیے اونچے اونچے درختوں پر چڑھنا پڑتا ہے۔ وہاں ۹؍ میٹر سے زائد لمبے سانپ تو عام پائے جاتے ہیں۔
ایمیزون کے جنگلات میں جو بہت سےلوگ گئے آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ۲۰۰۹ء میں سی این این کی ایک خبر کے مطابق برازیل کے ایک قبیلہ ’’کولینا‘‘نے ایک انیس سالہ نوجوان کو اغوا کیا اور اس کے ٹکڑے کرکے اسےکھا لیاگیا۔پیرو ملک کے ایمیزون جنگل کے ایک علاقہ میں ایک دریا بہتا ہے جو اتنا گرم ہے کہ اندر گرنے والا منٹوں ہی میں پانی میں گھل جاتا ہے۔ ابلتے پانی کی بھاپ ہمیشہ دریا کے کناروں پر بہتی رہتی ہے۔ مقامی لوگ اس کو روحانی پانی مانتے ہوئے اس کے ارد گرد مختلف عبادتیں کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایمیزون کے جنگل میں اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جو جدید زندگی سے خود کو دُور رکھتے ہیں اور ماضی کی طرح اپنے آباء و اجداد کی طرح رہنا پسند کرتے ہیں۔ سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق الگ تھلگ رہنے والے قبائل کی تعداد ۵۰ ہے۔ اور ۱۸۰؍ کے قریب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جون اور اگست کے مہینوں میں ایمیزون جنگل کے کچھ قبائل کوارپ نامی جشن مناتے ہیں۔ اس موقع پر ہر قبیلہ اپنے رواج کے مطابق رقص، کھانا اور رسومات پیش کرتا ہے۔ ان قبائل کے آس پاس بڑی تعداد میں ایسے قبائل بھی آباد ہیں جن کے جدید دنیا سے رابطے ہیں۔
ایمیزون کے گھنے جنگلوں میں بڑے بڑے سائز کے گول پتھروں کو دیکھا گیا ہے، وہ قدرتی طور پر گول نہیں ہیں بلکہ ان کو بنایا گیا ہےان کا قطر۲.۵میٹر ہے، مختلف مضامین میں ان کو ’’جنگل کی گیندیں‘‘کہا گیا ہے اور ان کی تعمیر ابھی تک سائنس دانوں کو حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔ اسی طرح سائنس دانوں اور آثار قدیمہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ۲۰۱۲ءمیں ایکواڈور کے ایمیزون کے جنگلوں میں سے ایک ’’گمشدہ شہر‘‘دریافت ہوا تھا۔ وہاں ایک بہت بڑا اہرام تھا جس کی اونچائی۷۸؍میٹر تھی، ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا تھا کہ جن انسانوں نے اس شہر کی تعمیر کی ہے ان کے قد ۸ فٹ کے لگ بھگ تھے، یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو ’’جنات کا شہر‘‘کا نام دیا گیا تھا۔سٹیفن روسٹین نے دو دہائیاں قبل پہلی بار ایکواڈور میں مٹی کے ٹیلوں اور دفن شدہ سڑکوں کا سلسلہ دریافت کیا جس کی تھری ڈی تصاویر بنائی گئیں۔ تاہم انہیں اس وقت معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے کیا دریافت کیا ہے۔
حال ہی میں سائنس نامی جریدے میں شائع ہونے والی نئی تحقیق کے بارے میں رپورٹ کرنے والے محققین میں سے ایک سٹیفن کا ۱۱؍جنوری ۲۰۲۴بروزجمعرات کہنا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ سب ایک ساتھ کیسے فٹ بیٹھتا ہے۔لیزر سینسر ٹیکنالوجی میپنگ سے پتا چلتا ہے کہ یہ مقامات بستیوں اور ان سے جڑی سڑکوں کے گنجان نیٹ ورک کا حصہ تھے، جو اینڈیز کے پہاڑی سلسلے کے جنگلات کے دامن میں واقع تھے۔ اینڈیز کا پہاڑی سلسلہ جنوبی امریکہ کے اوپر سے نیچے تک پھیلا ہوا ہے۔ بستیوں اور سڑکوں کا وجود تقریباً ایک ہزار سال تک موجود رہا۔فرانس کے نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ میں تحقیق کی نگرانی کرنے والے سٹیفن کا کہنا ہے کہ ’یہ شہروں کی وادی ہے جو گم ہو گئی تھی۔ یہ ناقابل یقین ہے۔‘
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایمیزون کا جنگل ایک قدرتی خزانہ کی طرح بھی ہے جو مستقبل میں انسانی ترقی میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔لیکن اس کے جنگل والے رقبے میں تیزی سے کمی آ رہی ہے جو پوری دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایمیزون کے اندر کیا کچھ ہے اس بارے میں بہت کچھ ابھی پردے میں ہے۔
(’الف فضل‘)