خطبہ جمعہ بھی نمازِ جمعہ کا حصہ ہے
یہ بھی یاد رکھیں کہ خطبہ جمعہ بھی نماز کا حصہ ہے۔ بعض عورتیں اور بچیاں جو شاید سکولوں میں چھٹیوں کی وجہ سے آجکل مسجد میں آ جاتی ہیں لگتا ہے کہ وہ نماز کی بجائے اس نیت سے اس میں آتی ہیں کہ سہیلیوں اور دوستوں سے ملاقات ہوجائے گی۔ اور یہ جو مَیں نے کہا ہے کہ ملاقات ہو جائے گی تو وہ اس غرض سے اس میں آتی ہیں۔ یہ مَیں بدظنی نہیں کر رہا بلکہ بعضوں کے عمل اس بات کا ثبوت ہیں۔ مثلاً گزشتہ جمعہ کی یہاں کی رپورٹ مجھے ملی کہ بعض بچیاں خطبے کے دوران اپنے اپنے موبائل پر یا تو ٹیکسٹ میسیجز (Text Messages) بھیج رہی تھیں اور یا باتیں کر رہی تھیں اور اس طرح دوسروں کا خطبہ جمعہ بھی خراب کر رہی تھیں جو وہ سن نہیں سکیں۔ یہی شکایت بعض چھوٹے بچوں کے بارے میں آتی ہے۔ آجکل ہر ایک کو ماں باپ نے موبائل پکڑا دئیے ہیں۔ حکم تو یہ ہے کہ اگر خطبہ کے دوران کوئی بات کرے اور اسے روکنا ہو تو ہاتھ کے اشارے سے روکو کیونکہ خطبہ بھی نماز کا حصہ ہے۔ یہ بظاہر چھوٹی باتیں ہیں لیکن بڑی اہمیت کی حامل ہیں اس لئے ان کا خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کسی نے اتنی ضروری پیغام رسانی کرنی ہے یا فون کرنا ہے کہ جمعہ کے تقدّس کا بھی احساس نہیں اور مسجد کے تقدّس کا بھی احساس نہیں تو پھر گھر بیٹھنا چاہئے، دوسروں کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہئے۔ مردوں پر تو بہرحال واجب ہے کہ اگر وہ مریض نہیں اور کوئی جائز مجبوری نہیں تو بہرحال جمعہ پر آنا ہے۔ (خطبہ جمعہ ۱۳؍اپریل ۲۰۰۷ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۴؍مئی ۲۰۰۷ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی ایک دفعہ عورتوں کے جمعہ پڑھنے کے بارے میں مسئلہ پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ جو امر سنّت اور حدیث سے ثابت ہے اس سے زیادہ ہم اس کی تفصیل کیا کر سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کر دیا تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا۔ (یعنی جمعہ کا۔) (البدر 11؍ستمبر 1903ء صفحہ366 جلد 2 نمبر 34)
پس مَردوں پر تو بہرحال واجب ہے کہ اگر وہ مریض نہیں اور کوئی جائز مجبوری نہیں تو بہرحال جمعہ پر آنا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی ۲۰۱۶ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۲؍جولائی ۲۰۱۶ء)