ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (دورہ کینیڈا۔ اکتوبر، نومبر۲۰۱۶ء کے چند واقعات۔ حصہ چہارم)
احمدیوں کے جذبات
جس دوران حضور انور ملاقاتوں کا شرف بخش رہے تھے میری ملاقات ایک احمدی وسیم ملک صاحب سے ہوئی جو پچیس برس قبل کینیڈا منتقل ہوئے تھے۔ میں وسیم صاحب کو نہیں جانتا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس آکر کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً تیسری یا چوتھی مرتبہ انہوں نے اپنے بار بار آنے کی وجہ بتائی۔ نم آنکھوں کے ساتھ وسیم صاحب اس طرح محو گفتگو ہوئے کہ عابد صاحب! میں بار بار آپ سے ملنے کے لیے اس لیے آ رہا ہوں کیونکہ میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ آپ کی کسی خوبی کی وجہ سے نہیں ہےبلکہ آپ سے ملنے کی صرف ایک وجہ ہے کہ آپ میرے محبوب حضرت خلیفۃ المسیح کے قریب ہیں جو ایسا وجود ہے کہ جس کو میں ساری دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔
دورہ جات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض احمدی احباب حضورِ انور کے سٹاف ممبران کے پاس آتے ہیں اور محبت بھرے لہجہ سے گفتگو کرتے اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جو میں نے ذاتی طور پر مشاہدہ کی ہے اور بعض سینئر قافلہ ممبران نے اس بات کو یقیناًمیرے سے زیادہ مشاہدہ کیا ہو گا۔یوں تو وسیم صاحب کے الفاظ بالکل درست اور حقیقت پر مبنی تھے جب انہوں نے مجھے باور کروایا کہ لوگ ہمارے پاس ہماری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں آتے بلکہ ہماری سمت مَیں ان کے دیکھنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ان کی خلافت کے لیے محبت ہے۔
ہماری زندگی کے سب سے قیمتی لمحات
میری ملاقات عمران احمد خان صاحب (عمر ۳۸؍سال)سے ہوئی جن کا تعلق Montrealسے تھا اور وہ زندگی میں پہلی مرتبہ فیملی کے ساتھ حضور انور سے ملاقات کی سعادت پارہے تھے۔
عمران صاحب نے اپنے تجربات کے بارے میں بتایا کہ ہم کئی ہفتوں اور مہینوں سے دعائیں کررہے تھے کہ ہمیں حضور انور سے ملاقات کا شرف ملے۔ تاہم جب میں نے ملاقات کا فارم پُر کرنا شروع کیا تو میں نصف فارم پُر کر کے رُک گیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ حضور انور جو اس دنیا کے سب سے عظیم شخص ہیں، کیا میرے جیسے گناہ گار آدمی کو آپ سے ملاقات کی درخواست کرنی چاہیے؟ تاہم میری اہلیہ نے مجھے آمادہ کیا کہ میں اس فارم کو مکمل کروں اور توجہ دلائی کہ ہم دونوں کودعاؤں اور استغفار میں کثرت اختیارکرنی چاہیے۔ چنانچہ ہم دونوں نے اس کے بعد خوب دعائیں کیںاور یوں ہمارے یہاں آنے سے قبل بھی حضور انور نے ہماری اصلاح میں ہماری مدد فرمائی۔
موصوف نے مزید بتایا کہ وہ دو منٹ جو ہمیں حضور انور کی صحبت میں میسر آئے وہ ہماری زندگی کے سب سے قیمتی لمحات تھے۔حضور انور نے ہمیں ماں باپ ہونے کے حوالے سے بھی ہدایات سے نوازا۔ جب ہم نے آپ کو بتایا کہ ہماری بارہ ماہ کی بیٹی صرف دودھ پیتی ہے اور کوئی ٹھوس غذا نہیں کھاتی تو یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے فرمایا کہ ہمیں اس کوابلے ہوئے آلو پیس کر دینے چاہئیں۔ تو میری اہلیہ نے بتایا کہ ہم اس کی کوشش کر چکے ہیں لیکن وہ یہ بھی نہیں کھاتی۔ جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ہمیں صرف اس کے آگے کھانا رکھ دینا چاہیے اور اس کو اس کے ساتھ کھیلنے دینا چاہیے اور صبر سے کام لینا چاہیے،آہستہ آہستہ وہ اسے کھانے لگ جائے گی۔
خلافت دنیا میں امن قائم کرنے کا مرکز ہے
میری ملاقات نائیجیریا کے خامس اولووِیکم سلام آلاڈا صاحب(عمر۴۳؍سال ) سے ہوئی،جو اس وقت اوٹاوا میں مقیم ہیں۔ زندگی میں پہلی بار حضور انور سے ملاقات کرنے کے بعد سلام صاحب نے بتایا کہ میرے لباس سے حضور انور نے پہچان لیا کہ میرا تعلق نائیجیریا کے یوروبا قبیلے سے ہے، جس سے مجھے بہت حیرت ہوئی۔ بہرحال خلیفہ وقت سے زندگی میں پہلی بار ملاقات کی حالت ناقابل بیان ہے اور میں جذبات سے مغلوب ہو گیا۔ ہمارے خلیفہ ایک فرشتہ کی طرح معلوم ہوتے ہیں اور میں پوری دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ خلافت دنیا میں امن قائم کرنے کا مرکز ہے۔
موصوف نے مزید بتایا کہ میری بیٹی کی آنکھ میں شدید مسئلہ تھا، دراصل پہلے وہ دیکھ نہیں سکتی تھی لیکن اب آپریشن کے بعد اس کی نظر اگرچہ بہت کمزور ہے مگر بینائی ہے۔ اس کو دیکھتے ہی حضور انور نے اس کی تکلیف کو بھانپ لیااور آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک انگوٹھی اس کی آنکھوں سے مَس کی۔ مجھے یقین ہے کہ اس لمحہ کی برکت اس کی بینائی کو بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوگی،ان شاءاللہ۔
نفرت کا جواب امن سے دیا جائے
ایک اَور دوست جو حضور انور سے زندگی میں پہلی مرتبہ ملاقات کی سعادت پا رہے تھے وہ نسیم الدین احمد صاحب (عمر۳۳؍سال)تھے۔ ملاقات کے بارے میں نسیم صاحب نے بتایا کہ مجھے ایسی روحانی کیفیت کا تجربہ اس سے قبل نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی ایسے جذبات سے مغلوب ہوا ہوں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے مجھے ساری دنیا کے خزانوں سے نواز دیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں، میری اہلیہ کو ایک دھمکی آمیز نوٹس ملا ہے جس میں لکھا تھا کہ ’’واپس اپنے ملک چلے جاؤ۔مسلمانوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔‘‘ہم نے یہ بات حضور انور کو بتائی اور دعا کی درخواست کی۔جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ایسے لوگ جاہل ہوتے ہیں اور ہمیں انہیں یاد دلانا چاہیے کہ ایک محدود مقامی کمیونٹی کے علاوہ کینیڈا ہجرت کرکے آنے والوں کا ملک ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ کوشش کریں کہ ایسی نفرت کا جواب امن سے دیا جائے لیکن اگر یہ زیادہ بڑھے تو ہمیں پولیس کو رپورٹ کرنی چاہیے۔
چند انمول لمحات
اس شام مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کے بعد مجھے کچھ وقت حضور انور کی بابرکت مصاحبت میں گزارنے کا موقع ملا۔ حضور انور نے پیٹر مینزبرج کے انٹرویو کا دوبارہ تذکرہ فرمایا نیز یہ بھی فرمایا کہ آپ نے امریکی صدر کی طرف سے مسلمانوں پر پابندی یا دیگر امتیازی پالیسیاں متعارف کروانے کی صورت میں خانہ جنگی (civil war) کے حوالے سے تنبیہ فرمائی تھی۔ حضور انور نے فرمایا کہ اس تنبیہ کی وجہ یہ تھی کہ جہاں کسی ایک فریق یافردِ واحد کی طرف سے نا انصافی ہوتو فطرتاً مظلوم کی طرف سے رَدِّعمل ظاہر ہوتاہے۔ اگر حکومت ایک مخصوص گروہ کے خلاف اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتی ہے تو یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ رَدِّعمل دکھائیں گے اور نا انصافی کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے۔
میں نے یہ بھی عرض کیا کہ پیس ولیج میں تزئین کے لیے لگائے گئے برقی قمقمے گذشتہ دو راتوں سے بند ہیں۔اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ مَیں نے ہدایت دی تھی کیونکہ ان دنوں شیعہ مسلمان عاشورہ منا رہے ہیںاس لیےچند دن کے لیے ان کو بند رکھا جائے ۔اس سے عیاں ہوتا ہے کہ کس طرح حضور انور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں اور یوں خلافت ِاحمدیہ حقیقی رنگ میں رواداری کو فروغ دے رہی ہے۔
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)