تعلقات میں تلخی کی چند وجوہات
عورتوں کی ناجائز خواہشات اور مطالبات
خواتین سے مخاطب ہو کرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :’’بعض گھر اس لئے اُجڑ جاتے ہیں کہ مرد اُن کی خواہشات پوری نہیں کر سکتے۔ ڈیمانڈز بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ یا اگر اُجڑتے نہیں تو بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے۔ لیکن جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے والے ہوں اُن کا کفیل خدا خود ہو جاتا ہے، اُن کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ایک عقلمند عورت وہی ہے جو یہ سوچے کہ میں نے اپنا گھریلو چَین اور سکون کس طرح پانا ہے؟ اپنے گھر کو جنت نظیر کس طرح بنانا ہے؟ اگر دنیا کی طرف نظر رہے تو یہ سکون کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ حقیقی سکون خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ دنیاوی خواہشات تو بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری خواہش آتی چلی جاتی ہے جو بے سکونی پیدا کرتی ہے‘‘۔
پھر فرمایا :’’اگر آپ جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ یقیناً جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ نیک اعمال کر رہی ہیں اُن کی زندگیوں میں جو سکون اور اطمینان ہے وہ دنیا دار عورتوں کی زندگیوں میں نہیں ہے۔ ایسی عورتوں کے گھروں میں بھی بے سکونی ہے جو دنیا داری والی ہیں۔ لیکن جو دین کو مقدم رکھنے والی ہیں، اُس کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہیں، اُنہیں گھروں میں بھی سکون ہے، اور ان کی عائلی زندگی بھی خوش و خرم ہے۔ اُن کے بچے بھی نیکیوں پر قائم ہیں اور جماعت کے ساتھ منسلک ہیں ‘‘۔ (خطاب از مستورات بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی ۲؍جون ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۲ء)
جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۰۷ء کے موقع پر مستورات سے خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:’’ایک دفعہ حضرت علی مرتضیٰؓ گھر تشریف لائے۔ کچھ کھانے کو مانگا کہ کچھ کھانے کو دو حضرت فاطمہؓ سے۔ تو آپؓ نے بتا یا کہ آج تیسرا دن ہے گھر میں جو کا ایک دانہ تک نہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اے فاطمہ! مجھ سے تم نے ذکر کیوں نہیں کیا کہ میں کوئی انتظام کرتا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے باپﷺ نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔ یہ نہ ہو کہ آپ کے حالات ایسے ہوں اور میں سوال کروں اور وہ میری خواہش پوری نہ ہو سکے اور اس کی وجہ سے آپ پر بوجھ پڑے یا قرض لے کر پورا کریں یا ویسے دل میں ایک پریشانی پیدا ہو کہ میں اس کی خواہش پوری نہیں کر سکا۔
تو یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر عورت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ ہر اُس عورت کے لئے جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات کرتی ہیں‘‘۔(جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ ۲۸؍جولائی۲۰۰۷ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍نومبر ۲۰۱۵ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۰ء کے موقع پرفرمایا:’’اگر ہر عورت اس بات کو سمجھ لے کہ اُس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور اُ ن کی بجا آوری اس نے اس لئے نہیں کرنی کہ کہیں خاوند، باپ یا بھائی کی نظر میں آ کر اُن کی طرف سے کسی سزا کی سزا وار نہ بن جائے بلکہ اِن ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس اس لئے ہمیشہ دلوں میں رکھنا ہے اور اُ سے پختہ کرنا ہے کہ ایک خدا ہے جو عالم الغیب ہے، جو غیب کا علم رکھتا ہے، جو ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے، ہر وقت اُس کی نظر اپنی مخلوق پر پڑ رہی ہے۔ ہر ایک کا عمل اُس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ پس جب یہ احساس رہے توکوئی عورت ایسا عمل نہیں کر سکتی جو اُسے تقویٰ سے دُور ہٹا دے۔ ایک بیوی کی حیثیت سے وہ اپنے خاوند سے کامل وفا کرنے والی ہو گی۔ خاوند کے گھر کی نگران ہوگی۔ اس کے مال کو ضائع کرنے کی بجائے اس کا صحیح مصرف کرنے والی ہو گی۔ کئی ایسی عورتیں ہیں جو تقویٰ پر چلنے والی ہیں یا تقویٰ کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی چلنے والی ہیں، جو باوجود تھوڑی آمد کے اپنے خاوند سے ملنے والی رقم میں سے کچھ نہ کچھ بچا لیتی ہیں اور جمع کرتی جاتی ہیں اور بعض دفعہ مشکل حالات میں خاوند کو دے دیتی ہیں۔ خاوند کو تو نہیں پتہ ہوتا کہ کیا بچت ہو رہی ہے؟ اب وہ اُس کے مال کی اِس طرح غیب میں حفاظت کر رہی ہیں یا اگر اُن کو ضرورت ہے تو خاوند کو بتا کر اُس کا استعمال کر لیتی ہیں۔ اپنی اولاد کی صحیح نگرانی کرتی ہیں اور یہ اولا دکی نگرانی صرف خاوند کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ اِس لئے ہو رہی ہوتی ہے اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہوتی ہے کہ یہ قوم کی امانت ہیں۔ یہ جماعت کی امانت ہیں۔ پھر وہ اپنی دوستیں اور سہیلیاں بھی ایسی عورتوں کو بناتی ہیں جو اعلیٰ اخلاق کی ہیں۔ ایک خاوند کی وفادار عورت کبھی غلط قسم کی سہیلیاں نہیں بناتی جو اِس کو اُس ڈگر پر ڈالیں جو غلط ہو کہ خاوند کا پیسہ جتنا نچوڑ سکتی ہو نچوڑ لو۔ خاوند کے بغیر سیریں کرنے کے لئے آزادی سے جاؤ آخر تمہاری بھی آزادی کا حق ہے۔ جس سے چاہو جس طرح کے چاہو تعلقات رکھو، نہ ہی ایسی مشورہ دینے والی عورتیں غیب میں حفاظت کرنے والی کہلا سکتی ہیں اور نہ ہی ایسی عورتوں سے دوستیاں رکھنے والی اور باتوں پر عمل کرنے والی غیب میں حفاظت کرنے والی کہلا سکتی ہیں ‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکےخطاب از مستورات فرمودہ۳۱؍جولائی ۲۰۱۰ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍مارچ ۲۰۱۱ء)
۱۹؍مئی۲۰۱۲ء کو حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دورہ ہالینڈ کے دوران ایک نکاح کا اعلان فرمایا۔اس موقع پر خطبہ نکاح میں حضور انور نے فرمایا:’’عموماً میں نےدیکھاہےکہ رشتے بعض دفعہ اس لئے ٹوٹ رہے ہوتے ہیں، گھروں میں اس لئے جھگڑے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں کہ لڑکیوں کی ڈیمانڈ ز بہت زیادہ ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ لڑکیوں کے ساتھ ان کے گھر والے بھی مل جاتے ہیں اور پھر لڑکا ان ڈیمانڈز کوپورا نہیں کرسکتاتو پھر جھگڑوں کی بنیاد پڑتی ہے۔ اسی طرح بعض لڑکے بھی لڑکیوں سے ناجائز زیادتی کرتے ہیں۔ ان کو بھی خیال رکھنا چاہئے۔
پس جیساکہ شروع میں مَیں نے کہا اصل چیز یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو یاد رکھتے ہوئے، تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ان رشتوں کوقائم کرنا چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اگر یہ بات سامنے رہے گی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے رشتے بھی نبھتے رہیں گے۔ نئے قائم ہونے والے جورشتے ہیں وہ بھی نبھتے رہیں گے، اور آئندہ نسلیں بھی نیکیوں پرچلنے والی ہوں گی۔ اللہ کر ے کہ یہ رشتہ جونیا قائم ہو رہاہے وہ ہرلحاظ سے بابرکت ہو اور ان روایات کو قائم کرنے والا ہو جو ان دونوں گھروں کی، خاندانوں کی ہیں۔ یعنی دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی‘‘۔ (مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍جون ۲۰۱۲ء)
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے یکم ستمبر ۲۰۰۷ءکو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پراپنے خطاب میں ایک احمدی مسلمان عورت پر عائد ہونے والی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عائلی زندگی کے حوالہ سے ارشاد فرمایا:’’ایک احمدی عورت کی ذمہ داری صرف دنیاوی معاملات میں اپنے گھروں کی یا اپنے بچوں کی نگرانی کرنا اور تعلیم کا خیال رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک احمدی عورت کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ احمدی عورت نے اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنے گھر اور خاوندکے گھر کی نگرانی کرنی ہے۔ اپنی اولاد کی دنیاوی تعلیم وتربیت کا خیال بھی رکھنا ہے۔ اپنی اولاد کی اسلامی اخلاق کے مطابق تربیت بھی کرنی ہے اپنی اولاد کی روحانی تربیت بھی کرنی ہےاور ان تمام تربیتی امور کو اپنی اولاد میں رائج کرنے کے لئے، ان کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے، اپنے پاک نمونے قائم کرنے ہیں۔ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ڈھال کر عبادت اور دوسرے اعمالِ صالحہ بجا لانے کے نمونے اپنی اولاد کے سامنے رکھنے ہیں۔ تبھی ایک احمدی عورت اپنے خاوند کے گھر کی صحیح نگران کہلا سکتی ہے۔ تبھی ایک احمدی ماں اپنی اولاد کی تربیت کا حق ادا کر سکتی ہے ورنہ اس کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے کبھی اولاد صحیح تربیت نہیں پاسکتی‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ یکم ستمبر ۲۰۰۷ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۰۲؍دسمبر ۲۰۱۶ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ ۱۳۹-۱۴۵)