بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف
خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍جون ۲۰۲۳ءمیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدر کی تیاری اور صحابہ کرامؓ سے مشاورت کرنے کا ذکر فرمایا۔ اس خطبہ کا متن الفضل انٹرنیشنل۱۴؍جولائی۲۰۲۳ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ خطبہ میں مذکور تاریخی مقامات کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
میدان بدر
بدر ایک بیضوی شکل کا ریگستانی میدان ہے جس کی لمبائی چوڑائی ساڑھے پانچ میلxچار میل ہے۔ اس کے اطراف میں پہاڑ ہیں۔ یہاں کئی کنویں اور باغات ہیں۔یہ جگہ مکہ سے شام جانے والے ساحلی تجارتی راستے پر واقع ہے ۔تجارتی قافلے عموماً یہاں پڑا ؤ ڈالا کرتے تھے۔یہاں ہر سال آٹھ روز کےلیے میلہ بھی لگتا تھا۔مسجد نبویؐ سےیہ مقام جنوب مغرب کی طرف ہے اور تقریباً۱۵۰؍کلومیٹر دورہے۔اس جگہ ایک کنواں تھا جس کا مالک بدر کہلاتا تھا اسی کی مناسبت سےاس جگہ کو بدر کہا جانے لگا۔میدان کے دونوں سروں پر ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں جنہیں العدوة الدنیا اور العدوة القصویٰ کہتے ہیں۔ان کے درمیان میں مغرب کی طرف ایک طرف اونچا پہاڑ ہے جس کو جبل اسفل کہتے ہیں۔ میدان بدر میں تین وادیاں آن ملتی ہیں یہی تین داخلے کے راستے ہیں ۔ ایک مدینہ کی طرف سے جہاں سے رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ دوسرا جنوب کی طرف جو مکہ کی طرف جاتا ہے ۔لشکر کفار یہاں سے داخل ہوا اور تیسرا شمال کی طرف جو شام کو جاتا ہے۔بدر میں مسجد عریش (جہاں رسول خدا کے لیے سائبان بنایا گیا تھا)،شہدائے بدر کی یادگار،مقتولین کفار کے دفن کیے جانے کا مقام ،جنگ کا مقام ابھی تک محفوظ ہیں۔
برک الغماد
جب رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے قریش کے لشکر سے مقابلہ کرنے کےمتعلق مشورہ فرمایا تو حضرت مقداد بن عمروؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ:ہم آپ کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہیں ۔اگر آپ ہمیں برک الغماد تک بھی لے کر جانا چاہیں تو ہم آپ کے ساتھ چلنے کو تیارہیں۔ برک الغماد مکہ کےانتہائی جنوب میں یمن کےقریب دور دراز کا ساحلی مقام ہے ۔مدینہ سے اس کا فاصلہ تقریباً ۹۱۰ کلومیٹر ہے اور مکہ سے اس کا فاصلہ۴۸۷کلو میٹر ہے۔ یہ مقام سعودی عرب کے صوبہ العسیر میں واقع ہے۔مکی دور میں تکالیف کو دیکھتے ہوئے جب حضرت ابو بکرصدیقؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو آپ بھی برک الغماد مقام تک گئےیہیں آپ کی ملاقات ابن دغنہ سے ہوئی۔اسی مناسبت سے یہاں ایک مسجد ابوبکر صدیق کے آثار بھی ہیں۔