الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
(گذشتہ سوموار کے’’الفضل ڈائجسٹ‘‘سے پیوستہ۔ ا ٓخری حصہ)
سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: مَیں نے بچپن سے ہی حضور میں سوائے اوصاف حمیدہ اور خصائل محمودہ کے کچھ نہیں دیکھا۔ ابتدا میں ہی آپ میں نیکی کے انوار اور تقویٰ کے آثارپائے جاتے تھےجو آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اَور زیادہ نمایاں ہوتے گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں گیارہ سال کا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے لیے کوئی شخص کپڑے کا ایک جُبّہ لایا تھا جو مَیں نے آپ سے لے لیا تھا ،کسی اَور خیال سے نہیں بلکہ اس لیے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے۔ مَیں اسے پہن نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے دامن میرے پائوں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے۔ ۱۹۰۰ء کے لگ بھگ جب مَیں گیارہ سال کا ہوا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں؟ رات دیر تک اس مسئلہ پر سوچتا رہا آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے۔ وہ گھڑی کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچہ کو اُس کی ماں مل جائے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا۔ سماعی ایمان ،علمی ایمان سے تبدیل ہوگیا۔ میں اپنے جامہ میں پھُولا نہیں سماتا تھا۔ مَیں اُس وقت سے ایک عرصہ تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ ہاں اب مجھے زائد تجربہ ہے اب دعا میں اس قدر زیادتی کرتاہوں کہ خدایا! مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔
آپؓ کا آنحضور ﷺسے تعلق روایتی اور جذباتی ہی نہیں تھا بلکہ آپؓ معرفت و وجدان کی دولت سے مالامال تھے۔ خود فرماتے ہیں: ’مَیں کسی خوبی کا اپنے لیے دعویدار نہیں ہوں۔ مَیں فقط خداتعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے خداتعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے۔ اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعویٰ ہے نہ مجھے کسی دعویٰ میں خوشی ہے۔ میری ساری خوشی اسی سے ہے کہ میر ی خاک محمد رسول اللہ ﷺ کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آجائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہو جائے اور میرا خاتمہ رسول کریم ؐ کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو۔‘
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: مجھے کبھی نہیں یاد کہ آپؓ نے آنحضرتﷺ کا نام لیا اور آپؓ کی آواز میں لرزش اور آپؓ کی آنکھوں میں آنسو نہ آگئے ہوں۔ آپؓ کے درج ذیل اشعار آپؓ کی اس محبت پر روشنی ڈالتے ہیں :
مجھے اس بات پر ہے فخر محمودؔ
مرا معشوق، محبوبِ خدا ہے
ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ
کہ وہ شاہنشہ ہر دو سرا ہے
اسی سے میرا دل پاتا ہے تسکیں
وہی آرام میری روح کا ہے
خدا کو اس سے مل کر ہم نے پایا
وہی اک راہِ دیں کا رہنما ہے
عشق ومحبت کی یہ بے مثال کیفیت الفاظ و بیان کی حدود سے کہیں زیادہ وسیع اور گہری ہے۔ ۱۹۲۷ء میں ایک ہندو اخبار ’’ورتمان‘‘ نے آنحضرت ﷺ کے متعلق ایک نہایت دلآزار مضمون شائع کیا اور اسی زمانے میں ایک نہایت گندی کتاب ’رنگیلا رسول‘ کے نام سے بھی شائع ہوئی تو آپؓ نے ایک مضمون بعنوان ’’رسول کریمﷺکی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے؟‘‘ تحریر فرمایا جسے بصورت پمفلٹ و پوسٹر ملک بھر میں شائع کیا گیا۔
اسی طرح آپؓ کی تجویز پر ملک بھر میں منظّم طریق پر سیرت النبیؐ کے جلسوں کا انعقاد شروع ہوا۔ اس کا پس منظر حضورؓ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’لوگوں کو آپؐ پرحملہ کرنے کی جرأت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ آپؐ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں یا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپﷺ کے حالات زندگی اورآپ ﷺکی پاکیزگی سے آگاہ ہوجائے اور کسی کو آپؐ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرأت نہ رہے۔‘‘ چنانچہ آپؓ کی تجویز پر کثرت سے مضامین لکھے گئے اور جلسے منعقد ہوئے جن میں غیرمسلم شرفاء نے بھی آنحضورﷺ کی سیرت مقدّسہ پر روشنی ڈالی۔
حضورؓ کے قرآن کریم سے عشق کے بارے میں حضرت سیدہ چھوٹی آپا ؒبیان فرماتی ہیں: جس طرح آپؓ نے قرآن کریم کی تفسیریں لکھ کر اس کی اشاعت کی وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ تلاوت کا کوئی وقت مقرر نہ تھا۔ جب بھی وقت ملا تلاوت کرلی۔ یہ نہیں کہ دن میں صرف ایک یا دو بار۔ عموماً یہ ہوتا تھا کہ ناشتہ سے فارغ ہوکر ملاقاتوں کی اطلاع ہوئی۔ آپؓ انتظار میں ٹہل رہے ہیں اور قرآن مجید ہاتھ میں ہے۔ لوگ ملنے آگئے قرآن مجید رکھ دیا۔ مل کر چلے گئے تو پڑھنا شروع کردیا۔ تین تین چار چار دنوں میں عموماًختم کرلیتے۔
آپؓ کی قرآن سے گہری محبت اور اشاعتِ علمِ قرآن کی تڑپ ہی تھی کہ قاتلانہ حملے کے بعد احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام میں فرمایا کہ ’’مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! ابھی دنیا تک تیرا قرآن صحیح طور پر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمان کی زندگی۔ تُو مجھے پھر سے توفیق بخش کہ مَیں قرآن کے بقیہ حصے کی تفسیر کرجائوں اور دنیا پھر ایک لمبے عرصے کے لیے قرآن شریف سے واقف ہوجائے اور اس پر عامل ہوجائے اور اس کی عاشق ہوجائے۔‘‘ چنانچہ آ پؓ کا عظیم کارنامہ تفسیر صغیراور تفسیر کبیر کی صورت میں ہمارے پاس موجودہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے ذکر پر آپؓ کی آنکھیں اکثر بھیگ جاتی تھیں۔ حضرت اماں جانؓ سے بھی بہت پیار تھا۔ایک مرتبہ آپؓ بیمار ہوئیں تو حضورؓ نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ سے کہا کہ اماں جانؓ کے لیے بہت دعا کرومگر ایک دعا مَیں کرتا ہوں تم بھی کیا کروکہ ہماری اماں جان کو خدا تعالیٰ لمبی عمر دےلیکن اب ہم پانچوں میں سے کسی کا غم آپؓ نہ دیکھیں۔
حضرت مسیح موعودؑ پسند فرماتے تھے کہ نوجوانی کی عمر کو پہنچتے ہی بچہ کی شادی کردی جائے۔چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی عمر ابھی تیرہ برس کی تھی کہ آپؑ نے ۱۹۰۲ء میںاپنے ایک مخلص مرید حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدینؓ کو تحریک فرمائی کہ وہ اپنی بڑی لڑکی رشیدہ بیگم (جن کا نا م حضرت امّاں جانؓ نے محمودہ بیگم رکھ دیا تھااور جو بعدازاںاُمّ ناصرؓ کے نام سے مشہور ہوئیں)کا رشتہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ کرنے کے بارہ میں غور کریں۔ اس سلسلہ میں آپؑ نے حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کولکھا: چند ہفتہ تک استخارہ کریں کہ ہر ایک کام جو استخارہ اور خدا کی مرضی سے کیا جاتا ہے وہ مبارک ہوتا ہے۔ دوسرا میرا ارادہ یہ ہے کہ اس نکاح میں انبیاء کی سنت کی طرح سب کام ہو۔ بدعت اور بےہودہ مصارف اور لغو رسوم اس نکاح میں نہ ہوں۔ بلکہ ایسے سیدھے طریق پر ہو جو خدا کے پاک نبیوں نے پسند فرمایا ہے، نکاح ہوجاوے تو مُوجبِ برکات ہو۔
اُن دنوں ڈاکٹر صاحبؓ رڑکی ضلع سہارن پور (یوپی) میں متعین تھے۔چنانچہ صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ، حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ، حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور چند اَور بزرگ ۲؍اکتوبر ۱۹۰۲ء کی شام کو رڑ کی پہنچے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے ایک ہزار روپیہ حق مہر پر نکاح پڑھا اور ۵؍اکتوبر کو بعد نماز عصر یہ قافلہ رڑکی سے بخیریت قادیان پہنچا۔
رخصتانہ کی تقریب ۱۹۰۳ء میں آگرہ میں منعقد ہوئی۔ ۱۱؍اکتوبر۱۹۰۳ء کو بارات واپس قادیان پہنچی۔ اگلے دن اس خوشی میں حضورؑ کے گھر سے بتاشے تقسیم کیے گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ اپنی اہلی زندگی میں بے تکلّفی کے علاوہ بیگمات کے آرام و راحت اور ان کے جذبات و احساسات کا بہت خیال فرماتے۔ حضرت مہر آپا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ایسی صورت پیش آئی کہ گھر کے ملازم بوجہ بیماری رخصت پر تھے۔ گھر کے کاموں کی مسلسل مصروفیت کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کا کام بھی پہلی دفعہ مجھے خود کرنا پڑا۔ حضورؓ نے کھانے کی خوب تعریف فرمائی بلکہ حوصلہ افزائی اور قدردانی کے طور پر حضرت امّاں جانؓ کو بھی کھانا بھجوایا اور یہ صراحت فرمائی کہ یہ بشریٰ نے تیار کیا ہے۔ اس کے علاوہ آپؓ نے اس امر پر مسرت انگیز حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہ تم نے اتنی جلدی اتنا سارا کام کیسے کرلیا۔ اور یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اپنے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈال لینا کہ تمہاری صحت پر اثر پڑے۔
حضرت چھوٹی آپاؒ نے بیان فرمایا کہ عموماً شادیاں ہوتی ہیں دلہا دلہن ملتے ہیں تو سوائے عشق ومحبت کی باتوں کے اَور کچھ نہیں ہوتا، مجھے یاد ہے کہ میری شادی کی پہلی رات بےشک عشق ومحبت کی باتیں بھی ہوئیں مگر زیادہ تر عشق الٰہی کی باتیں تھیں۔ آپؓ کی باتوں کا لُبِ لباب یہ تھا اور مجھ سے ایک طرح عہد لیا جا رہا تھا کہ میں ذکر الٰہی اور دعائوں کی عادت ڈالوں، دین کی خدمت کروں، آپؓ کی عظیم ذمہ داریوں میں آپؓ کا ہاتھ بٹائوں، باربار آپؓ نے اس کا اظہار فرمایا کہ ’’مَیں نے تم سے شادی اسی غرض سے کی ہے۔‘‘ اور مَیں خود بھی اپنے والدین کے گھر سے یہی جذبہ لے کر آئی تھی۔
حضرت چھوٹی آپا مزید فرماتی ہیں کہ بچوں کے لیے انتہائی شفیق باپ تھے۔ تربیت کی خاطر لڑکوں پر وقتاً فوقتاً سختی بھی کی لیکن ان کی عزت نفس کا خیال رکھا۔ ایک بار مجھے ان کی زور سے ڈانٹنے کی آواز آئی۔ مَیں اندر کمرہ میں تھی۔ ایک دم اس خیال سے باہر نکلی کہ دیکھوں کیا بات ہے۔ حضورؓ کسی بچہ کو پڑھائی ٹھیک نہ کرنے پر ناراض ہورہے تھے۔ مَیں اسی وقت واپس چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد اندر کمرہ میں آئے تو کہنے لگے ’’مَیں جب اپنے بچہ کو ڈانٹ رہا تھا تو تمہیں وہاں نہیں آنا چاہیے تھا اس سے وہ شرمندہ ہوگا کہ مجھے تمہارے سامنے ڈانٹ پڑی۔‘‘ بیٹیوں سے بہت زیادہ محبت کا اظہار کرتے تھے لیکن جہاں دین کا معاملہ آجائے آنکھوں میں خون اُتر آتا تھا۔ نماز کی سستی بالکل برداشت نہ تھی۔ اگر ڈانٹا ہے تو نماز وقت پر نہ پڑھنے پر۔ بچوں کے دلوں میں شروع دن سے یہی ڈالا کہ سب دین کے لیے وقف ہیں۔ ان کو دینی تعلیم بھی دلوائی۔ جب ۱۹۱۸ء میں شدید انفلوئنزا کا حملہ ہوکر بیمار ہوئے اور اپنی وصیت شائع کروائی تواس میں بھی فرمایا کہ ’’بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جائے کہ وہ آزاد پیشہ ہوکر خدمت دین کرسکیں۔ جہاںتک ہوسکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جائے ۔‘‘
بچیوں کی تربیت کے حوالے سے حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ میری شادی سے چند روز قبل حضرت اباجانؓ صحن میں ٹہل رہے تھے اور مجھے سمجھاتے جارہے تھے کہ دیکھو تمہاری عادت ہے تم کھانے میں بہت نخرے کرتی ہو اور اکثر چیزیں تم نہیں کھاتی۔ ماںباپ کے گھر میں تو ایسی باتوں کا گزارہ ہوجاتا ہے وہ اپنی اولاد کے ناز نخرے اُٹھالیتے ہیں مگرسسرال میں جاکر ایسا نہیں کرنا۔ جو ملے خاموشی سے کھالینا وغیرہ۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ مَیں قریباً چھ سال چچاجان کے ساتھ رہی کبھی ایک لفظ کھانے کے متعلق منہ سے نہیں نکلا میری پسند ناپسند اس عرصے میں ختم رہی۔ حضورؓ نے کبھی لڑکیوں سے سسرال کے متعلق بات نہ پوچھی۔ اگر کبھی کوئی بات دوسروں کے ذریعے سے پہنچی بھی تو سُنی اَن سُنی کرگئے۔
حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے پہلی تقریر سالانہ جلسہ کے موقع پر کی۔ اس وقت آپؓ کی آواز اور آپؓ کی ادا اور آپؓ کا لہجہ اور طرز ِتقریر حضرت مسیح موعودؑ کی آوازاور طرزِ تقریر سے ایسے شدید طور پر مشابہ تھے کہ سننے والوں کے دل میں حضرت مسیح موعودؑکی یاد تازہ ہوگئی اور سامعین میں سے بہت ایسے تھے جن کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔
۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ء بروز ہفتہ بعد نماز عصر انتخاب خلافت کے لیے احمدی مسجد نور میں جمع ہوئے،منکرین خلافت بھی موجود تھے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے حضرت خلیفہ اولؓ کی وصیت پڑھ کر سنائی جس میں جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی نصیحت تھی۔ا س پر ہر طرف سے میاں صاحب، میاں صاحب کی آوازیں آنے لگیں۔ آپؓ کی تائید میں مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے خلافت کی اہمیت اور ضرورت پر تقریر کی۔اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب اور سید میر حامدشاہ صاحب کھڑے ہوگئے۔ مولوی یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے کہا کہ ’’یہ وقت ان جھگڑوں کا نہیں۔ ہمارے آقا! حضور ہماری بیعت قبول فرمائیں۔‘‘چنانچہ حضورؓ نے بیعت لی۔ پھر لمبی دعا ہوئی اور آپؓ نے ایک دردانگیز تقریرکرتے ہوئے فرمایا: ’’مَیں ایک کمزور اور بہت کمزور انسان ہوں مگر مَیں خدا سے امید رکھتا ہوں کہ جب اس نے مجھے اس خلعت سے نوازا ہے تو وہ مجھے اس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت دے گا۔ اگر اطاعت اور فرمانبرداری سے کام لوگے اور اس عہد کو مضبوط کروگے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری کرے گا۔‘‘
۱۹۴۴ء میں آسمانی پیشگوئیوں کے مطابق آپؓ نے جب من جانب اللہ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَ خَلِیْفَتُہٗکی آسمانی آواز سنی تو اس کو علی الاعلان مشتہر کیا۔آپؓ فرماتے ہیں: ’’مَیں اس واحد قہارخدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانالعنتیوں کا کام ہے اور جس پرافتراءکرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں ۱۳۔ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان میں یہ خبر دی ہے کہ مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوںاور مَیں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحیددنیا میں قائم ہوگی۔‘‘
(تقریر جلسہ لاہور، الفضل۱۵؍مارچ ۱۹۴۴ء)
حضرت مصلح موعودؓکے ۵۲ سالہ دورِ خلافت میں ’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘میں بیان فرمودہ تمام وعدے بڑی شان کے ساتھ پورے ہوئے۔ چند کارہائے نمایاں یہ ہیں:
٭…منارۃ المسیح کی تعمیر اخراجات کی وجہ سے رکی ہوئی تھی۔ ۲۷؍دسمبر۱۹۱۴ء کو حضورؓ نے اپنے خطبہ جمعہ میں اس کے لیے تحریک کی اور جمعہ کے بعد منارہ کی نامکمل عمارت پر اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھی۔حضورؓ کی توجہ اور مخلصین کی قربانیوںسے دسمبر۱۹۱۶ء میں منارہ مکمل ہوگیا۔
٭…سفر یورپ کے دوران حضورؓ نے احمدی خواتین کی علمی ترقی کے لیے سکیم بنائی اور واپس آکر ۱۷؍مارچ ۱۹۲۵ء کو مدرسۃالخواتین کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل حضورؓ لجنہ اماءاللہ کا قیام ۱۹۲۲ء میں فرماچکے تھے۔
٭…۱۵؍اپریل ۱۹۲۸ء کو حضورؓ نے جامعہ احمدیہ قائم کرنے کا فیصلہ فرمایا اور۲۰؍مئی کو اس کا افتتاح فرمادیا۔
٭…حضورؓ نے ۱۸؍جون۱۹۱۳ء کو اخبار الفضل کا اجرا فرمایا جس کے لیے ابتدائی سرمایہ مہیا فرمانے والوں میں حضرت سیّدہ اُمّ ناصر صاحبہؓ نے اپنے دو زیور پیش کیے۔حضورؓ فرماتے ہیں: ’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی … اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیے جن سے میں دین کی خدمت کے قابل ہوا اور میرے لیے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لیے بھی بہت بڑا سبب پیدا کردیا۔‘
اسی طرح حضرت اماں جانؓ نے اپنی ایک زمین عنایت فرمائی جو ایک ہزار روپے میں فروخت ہوئی۔ نیز حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے نقد رقم کے علاوہ زمین بھی دی جو تیرہ سو روپے میں فروخت ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد ۱۵؍ستمبر۱۹۴۷ءکو لاہور سے اخبار الفضل کا پہلا پرچہ شائع ہوا۔
٭… مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے چلائی جانے والی تحریک شدھی میں حضرت مصلح موعودؓ کا قائدانہ کردار بےمثال تھا۔ حضورؓ کی تحریک پر احباب جماعت نے اپنے اموال، اپنی جانیں اور اپنی اولاد کو پیش کردیا۔ اگرچہ اس سے قبل جماعت احمدیہ اور حضورؓ کا اسم گرامی ملک کے اہم حلقوں میں معروف ہوچکا تھا لیکن تحریک شدھی ہی ملک گیر شہرت کا وہ پہلا زینہ ثابت ہوئی جسے طے کرتے ہوئے تمام ہندوستان میں عوامی سطح پر بھی آپؓ کا شہرہ بام عروج پر جا پہنچا۔
٭…ذیلی تنظیموں کا قیام حضورؓ کی بصیرت افروز نگاہ کا مرہون منّت ہے۔ ۲۵؍دسمبر۱۹۳۹ءکو حضورؓ نے پہلی بار لوائے احمدیت اور خدام و لجنہ کے پرچم بھی لہرائے۔
٭…نئے مرکز احمدیت ربوہ کا قیام اولوالعزم خلیفہ حضرت مصلح موعودؓ کا ایک عظیم المرتبت کارنامہ اور ہجرت کے نتیجے میں تبلیغ میں رکاوٹ پیدا نہ ہونے سے متعلق آپؓ کی دعا کی قبولیت کے نتیجے میں ملنے والی بشارتوں کا ثمر تھا۔
۱۰؍مارچ۱۹۵۴ء کو عبدالحمید نامی ایک شخص نے حضورؓ پر قا تلانہ حملہ کیا مگر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل، اپنی قدرت اور صفتِ احیاء کا غیرمعمولی نظارہ دکھایا اور اس بندۂ درگاہ عالی کو خارق عادت رنگ میں بچالیا۔
عظیم الشان پیشگوئی مصلح موعود میں دی گئی ہر الٰہی بشارت کو دنیا سے منوانے کے بعد آخرکار ۷ اور ۸؍نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب حضرت مصلح موعودؓ نے وفات پائی۔نماز جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں حضرت اماںجانؓ کے پہلو میں جسداطہرکی تدفین ہوئی۔
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
………٭………٭………٭………