ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر۱۶۰)
آپؑ نے مقدمات کا تذکرہ کیا کہ ’’ان کی ابتدا کیونکر ہوئی۔کس طرح اول کرم دین نے مولوی عبد الکریم صاحب کو بذریعہ خطوط اطلاع دی کہ مہر علی شاہ نے فیضی متوفی کی کتاب سے سر قہ کیا ہے۔اس کی اطلاع پر کتاب نزول المسیح لکھی گئی۔پھر اس نے اپنے خطوط کے برخلاف ایک مضمون سراج الاخبار میں لکھ کر سبّ وشتم کیا اور ان کو اپنی طرف منسوب کرنے سے انکاری ہوا۔اس طرح سے ہمارا چلتا کام بند ہوگیا۔تنگ آکر حکیم صاحب نے دعویٰ کیا۔پھر کرم دین نے جہلم میں ہم پر ایک مقدمہ کیا وہ بڑا خطرناک مقدمہ تھا۔اس کے متعلق میں نے اول ہی خواب دیکھے تھے جو کہ شائع ہوچکے ہوئے تھے اور قبل از وقت اس میں کامیابی کی خبربھی خدا تعالیٰ سے پاکر ہم نے شائع کردی تھی۔ اس میں ہمیں کامیابی ہوئی۔پھرکرم دین نے خودہم پر استغاثہ دائر کیا۔وہ مقدمات ابھی چل رہے ہیں۔منصف حاکم کو تو خود خبر نہیں ہوتی کہ انجام کار مقدمہ کی کیا صورت ہوگی۔ہماری تائید تو ہمیشہ خدا تعالیٰ سے ہوتی ہے ورنہ جمہوری طور پر تو حکام کا میلان ہماری طرف کم ہی ہوتا ہے اور سوائے پر وردگار کے اَور کس کی ذات ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جاسکے۔زمین پر کیسے ہی آثار نظر آویں مگر بار بار جوحکم آسمان سے آتا ہے کہ تری نصراًمن عند اللّٰہ وہ آخر ہو کر رہے گا
بنگر کہ خون ناحق پروانہ شمع را
چنداں اماں نداد کہ شب را سحر کند ‘‘
(ملفوظات جلد ششم صفحہ ۳۶۱-۳۶۲ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
تفصیل:اس حصہ ملفوظات میں فارسی کا درج ذیل شعر آیاہے۔
بِنِگَرْکِہْ خُوْنِ نَاحَقِ پَرْوَانِہْ شَمَعْ رَا
چَنْدَاں اَمَاں نَدَادْ کِہْ شَبْ رَا سَحَرْ کُنَدْ
ترجمہ: دیکھیے پروانہ کے خونِ ناحق نے شمع کو اتنی مہلت نہ دی کہ رات کوصبح میں بدل لے۔
شرف الدین حسن اصفہانی جن کا تخلص شفائی ہے کےکلام میں یہ شعر پہلے لفظ ’’بنگر ‘‘جس کا مطلب ہے ’’دیکھیے‘‘، کی بجائے لفظ ’’دیدی ‘‘یعنی ’’تونے دیکھا‘‘کے ساتھ ملتاہے۔باقی سارا شعر اسی طرح ہے۔