میرے کرم فرما احباب!
خاکسار کو ربوہ میں رہتے ہوئے زمانہ طالب علمی میں بعض جید علما ئے کرام سے استفادہ کا موقع ملا۔ بزرگ اساتذہ میں سے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کا ذکر کئی جگہ کر چکا ہوں ان سے خوب فیض اُ ٹھایا اور اُن کی توجہ اور شفقت کا بھی خوب مورد رہا۔ جذبۂ تشکر کے ساتھ اسمائے گرامی تحریر کرتا ہوں۔ حضرت قاضی محمد نذیر صاحب۔ حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب۔ حضرت مولوی ظہور حسین صاحب۔ حضرت قریشی محمد نذیر صاحب۔ محترم مولانا عطاء الرحمٰن صاحب۔ محترم مولانا ارجمند خان صاحب۔ محترم مولانا ابو الحسن قدسی صاحب۔ محترم مولانا ظفر محمد صاحب۔ محترم شاہزادہ خان صاحب۔ محترم چودھری غلام حیدر صاحب۔ محترم مولانا محمد شریف امینی صاحب۔ محترم مو لانا محمد حفیظ بقاپوری صاحب۔ ( ممکن ہے کوئی نام اس وقت ذہن سے اُ تر گیا ہو ) یہ بزرگ اساتذہ اپنی علمی شان اور سادگی و قناعت میں بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کی سیرت و سوانح پر تفصیلی مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو زمرۂ ابرار میں شامل فر ماکر جنت الفردوس سے نوازے۔ آ مین اللّٰھم آ مین
کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ مجھے اپنے جن ساتھیوں کے ساتھ مل کر خدمتِ دین کرنے کی سعادت حاصل ہوئی میں ان کے متعلق اپنے تاثرات یا اُن کی خوبیوں کا مختصر تذکرہ لکھوں۔ یہ خیال اس لیے بھی ساتھ ساتھ رہتا ہے کہ مجھے کبھی بھی دوست بنانے کا فن نہیں آیا اور میں اپنی علیحدگی پسندی یا اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو چھپانے کے لیے با لعموم احباب سے ملنے سے بچتا ہی رہتا تھا اس لیے میں ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ میرے ساتھ دوستی یک طرفہ ہی ہوتی ہے۔ یعنی احباب اور کرم فر ما اپنے اچھے سلوک اور احسانات کی وجہ سے بہت قریب ہوجاتے ہیں۔ لیکن میں اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے کبھی بھی اُن سے کوئی حسنِ سلوک نہ کر سکا۔ ساتھیوں کی فہرست بہت لمبی ہے ارتجالاً چند مہربانوں کا ذکر کرتا ہوں۔
مولانا عبد الحکیم جوزاء صاحب
بطور مربی سلسلہ احمدیہ خاکسار کی پہلی تقرری کراچی میں ہوئی۔ کراچی کے بعد خا کسار ضلع ملتان بھجوایا گیا۔ اس جگہ ہمارے بزرگ مربی مکرم محمد شفیع اشرف صاحب اور مکرم مولانا عبدالحکیم جوزاء صاحب خدمت بجا لا رہے تھے۔ مکرم اشرف صاحب کا تو جماعت میں کئی لحاظ سے تذکرہ ہوتاہے مگر میرے کرم فر ما مولانا جوزاء صاحب کا غالباً ابھی تک کسی جگہ ذکر خیر نہیں ہوا۔ خا کسار یہ اپنا فرض سمجھتا ہے اور اُسے ادا کرنے کی کسی قدر کوشش کر رہا ہے۔
مکرم مولانا اشرف صاحب اپنے رکھ رکھاؤ، وضع داری اور تعلقات عامہ کے لحاظ سے بہت نمایاں تھے۔ غالباً اپنے ہم عمراحباب میں سفید پگڑی پہننے کا وہی اہتمام کرتے تھے۔ اُن کی ایک دلچسپ بات یاد آ رہی ہے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’تم نے میرا کھرا دبایا ہوا ہے ‘‘یعنی تم ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہو جہاں میری تقرری ہوتی ہے۔ اُن کا کراچی سے تبادلہ ہوا تو خاکسار کی وہاں تقرری ہوئی اسی طرح وہ ملتان سے جا رہے تھے تو خاکسار کو وہاں خدمت بجا لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ محترم اشرف صاحب کی ڈیوٹی سوانح فضل عمرؓ کی تالیف پر لگی ہوئی تھی وہ کئی سال اس خدمت پر مامور رہے لیکن اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے وہ اس کام کی تکمیل نہ کر سکے اور خاکسار کے سپرد یہ بہت اہم کام ہوا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے خاکسار نے یہ سعادت حاصل کی۔ وَ ذَالک الفضل من اللّٰہ
مکرم جوزاء صاحب قریباً میرے ہم عمر تھے مگر کالج کی تعلیم مکمل کرکے جامعہ میں آنے کی وجہ سے وہ کافی جونیئر تھے مگر میں ہمیشہ اُ نہیں اپنے برابر بلکہ کئی لحاظ سے اپنے سے بہتر ہی سمجھتا تھا۔ اُن کی سعادت مندی اور خوش خلقی تھی کہ وہ ہمیشہ ہی بڑے احترام سے پیش آتے اور مشکل مسائل وغیرہ کے حل کے لیے خا کسار کی طرف رجوع کر کے میری حوصلہ افزائی کرتے۔ انکساری اور فروتنی میں وہ اپنی مثال آپ تھے اُن کو دیکھ کر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ذہن میں آتا ہے کہمَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہ( کنز العمال کتاب الاخلاق حدیث نمبر ۵۷۳۲)جو اللہ تعالیٰ کی خاطر عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے درجے بلند کرتا ہے۔
اُن کی ایک اور نمایاں خوبی اُن کا ایثار کا جذبہ تھا۔ جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران بہت جچا تلا وظیفہ ملتا تھا۔ اُن کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ دو وقت ہوسٹل میں کھانا کھانے کی بجائے صرف ایک وقت کھانا لیتے تھے اور اس طرح اپنا پیٹ کاٹ کر اور بچت کر کے وہ اپنے بھائی کی اعلیٰ تعلیم میں اُس کی مدد کرتے رہے۔ زمانہ ٔطالب علمی کے بعد میدان عمل میں بھی انہوں نے سادگی اور قناعت کا طریق اختیار کیے رکھا۔ خا کسار ان کی انکساری اور ایثار وغیرہ جیسی صفات کی وجہ سے اُن پر رشک کرتا تھا۔
ملتان میں قیام کے زمانہ میں ہی اُن کی شادی ہوئی اس سلسلہ میں بھی وہ خا کسار سے مشورہ لیتے رہے۔ ایک مشورہ ایک پیٹی (بڑا صندوق جس میں بستر اور کپڑے وغیرہ رکھتے ہوں)خریدنے کے بارے میں تھا۔ خا کسار نے اُنہیں مشورہ دیا کہ ہم یہاں شہر میں رہتے ہیں اور آپ شادی کے بعد جو ضرورت محسوس کریں گے وہ بخوبی یہاں سے حاصل کی جا سکے گی ایسا نہ ہو کہ آپ کی اہلیہ صاحبہ کے جہیز میں جو سامان آئے وہ ضرورت سے زیادہ ہو جائے اور اس طرح بعد میں مشکل پیش آئے۔ وہ بڑی سادگی سے کہنے لگے کہ اصل میں میَں نے کبھی ایسی چیزیں استعمال نہیں کیں اس لیے مجھے اِن کا شوق بھی ہے۔ مجھے یاد ہے انہوں نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہا تھا کہ میرے پاس ۳۰۰؍ روپے جمع ہیں میں چاہتا ہوں کہ اُنہیں استعمال کر لوں گویا یہ رقم اُ نہیں بہت زیادہ لگ رہی تھی۔ اپنی اس بات کو اَور مؤثر کرنے کے لیے اُ نہوں نے یہ بھی بتایا کہ میری ساس صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ ہم بہت غریب ہیں اور ہمارے پاس جہیز میں دینے کے لیے کچھ نہیں ہم اپنی لڑکی کو بس تن کے کپڑوں میں ہی آپ کے ساتھ رخصت کریں گے۔ مَیں نے اپنا پہلا مشورہ دہراتے ہوئے اُن سے کہا کہ ہر ماں باپ ازراہِ تواضع ایسے ہی کہا کرتے ہیں مگر پھر بھی ہمارے رواج کے مطابق ضرور کچھ نہ کچھ تحفہ اپنی بچی کو دیتے ہیں۔
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اُن کی بیگم بھی اپنے ہمراہ پیٹی اور گھر کے استعمال کی دوسری چیزیں لے کر آئی تھیں اور محترم جوزاء صاحب کو تبادلے کے وقت خاص اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ پاکستان میں خدمت بجا لاتے ہوئے وہ مختلف اضلاع میں مقرر ہوتے رہے۔ بعد میں وہ کچھ عرصہ کے لیے گھانا بھی تشریف لے گئے اور وہاں پر جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کی خدمات بجا لاتے رہے۔
گھاناسے واپسی پر اُ نہوں نے کچھ عرصہ کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی۔ ہماری باہم ملاقات اُن دنوں بھی ہوتی رہتی تھی اُن کا کہنا تھا کہ مجھے یہ احساس رہتا ہے کہ میں جماعت سے جو الاؤنس لیتا ہوں اس کا حق ادا نہیں کرتا مجھے اس سے زیادہ کام کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ مجھے اُس کا گناہ ہی ہوتا ہو۔ میں اس سے بچنے کے لیے ریٹائر منٹ لینا چاہتا ہوں۔ میرا مشورہ تو اس کے خلاف تھا لیکن اُن کا جذبہ یا احساس اُن پر اس طرح غالب تھا کہ بالآخر وہ ریٹائر ہو گئے۔ اور ہمہ وقت ٹیوشنیں پڑھانے لگے۔ اُن کی محنت اور کام سے لگن اور دلچسپی کی وجہ سے اُن کی مصروفیت اور مانگ بہت زیادہ تھی۔وہ دوسرے اساتذہ کی نسبت ٹیوشن فیس بھی کم لیتے تھے۔سادگی ان کا شعار تھا۔ سر پر سفید صافہ لپیٹا ہوتا تھا سائیکل اُن کے ساتھ ضرور ہوتا تھا۔ اُس پر ایک بیگ میں کتابیں رکھی ہوتی تھیں مگر اس پر وہ سوار کم ہی ہوتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ جب تک اُس کی مرمت ہو سکتی تھی وہ کرواتا رہا ہوں مگر اب یہ مرمت کے قابل نہیں رہا میں اسے سہارے کے لیے ساتھ رکھتا ہوں اسے پکڑ کر چلنے میں سہولت رہتی ہے۔ تبلیغ کے لیے بیرون ملک جانے کے بعد بھی کبھی کبھی اُن کی خیریت معلوم ہوتی رہتی تھی۔ میرا بڑا بیٹا رشید احمد ربوہ گیا۔ دفتر خزانہ کے باہر اسے ایک منحنی کمزور سا بوڑھا آدمی نظر آیا۔ غور سے دیکھا تو وہ ہمارے مولانا جوزاء صاحب تھے۔ ہمیشہ کی طرح بڑے پیار سے ملے۔خا کسار کے متعلق بڑے خلوص سے پوچھتے رہے۔ کچھ عرصے کے بعد اُن کی وفات کی خبر سنی۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ خدا تعالیٰ اور اُس کے بندے کا تو ایک الگ ہی پوشیدہ سا تعلق ہوتا ہے میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ اُن سے مغفرت کا ہی سلوک ہوا ہوگا وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی کسی اَور دنیا کے آدمی تھے۔
مکرم مولانا جمیل الرحمٰن رفیق صاحب
مشرقی افریقہ میں فریضہ ٔتبلیغ ادا کرنے کے بعد مرکز میں تشریف لائے اور لمبا عرصہ بطور پرنسپل جامعہ احمدیہ میں خدمات بجا لاتے رہے۔ سواحیلی زبان کے بہت ماہرہیں اور میں تو یہ کہا کرتا تھا اور اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ا ُنہیں ایسی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ انہیں جس خدمت کا موقع ملتا ہے وہ وہاں ہی مناسب اور موزوں نظر آتے ہیں۔ آج کل باوجود خرابیِٔ صحت وضعف خدمات بجا لا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صحت و سلامتی والی لمبی زندگی سے نوازے۔ آ مین
جن احباب کا ذکر کیا ہے ان میں سوائے مکرم جمیل صاحب اور نذیر احمد ریحان صاحب کے باقی سب احباب :فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ(الاحزاب :۲۴) دنیا میں بہت خدمات بجا لانے کے بعد خدا کو پیارے ہو چکے ہیں۔
محترم مولانا محمد منور صاحب
ایک عالم با عمل بزرگ تحریر و تقریر کے ماہر تھے۔ وہ ماہر زبان دان تھے سواحیلی، اردو، عربی، انگریزی اور پنجابی کے ماہر تھے دوسری زبان پر اس کے لب و لہجے سمیت قابو پالیتے تھے۔ عام طور پر ہم سے گورداسپور اور امرتسر کی پنجابی بولتے تھے۔ لیکن سرائیکی ہونے کی وجہ سے جب سرائیکی بولتے تو اس میں بھی خوب بولتے۔ سواحیلی میں کمال حاصل تھا۔ ایک دفعہ خا کسار اُن کے ساتھ بس سٹاپ پر کھڑا تھا وہاں کھڑے ایک افریقن سے انہوں نے بات چیت شروع کردی جو سواحیلی زبان میں نہیں تھی۔ بعد میں پوچھنے پر کہنے لگے کہ شروع میں جب مشرقی افریقہ آیا تو اس قبیلہ کے لوگوں میں رہنے کا اتفاق ہوا تھا اور وہاں ان کی زبان سیکھ لی تھی۔ گویا آپ نے اس افریقن کو دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ فلاں قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اس سے اُس کی زبان میں بات شروع کر دی جو لمبا عرصہ پہلے آپ نے سیکھی تھی۔ اس سلسلہ میں ایک اور بات یاد آ گئی۔ ہم کچھ واقفین دفاتر تحریک جدید کے کمیٹی روم میں بیٹھے ہوئے تھے اور موضوع گفتگو یہ تھا کہ کیا وجہ ہے کہ مشرقی افریقہ والے مربییان نے وہاں کی زبان سیکھ لی مگر مغربی افریقہ میں یہ بات نظر نہیں آتی۔ مغربی افریقہ والے اس کی مختلف وجوہ بیان کر رہے تھے۔ اس گفتگو کے دوران مولانا محمد منور صاحب بھی کمرے میں داخل ہوئے غالباًان کو دیکھ کر ہی کسی نے کہہ دیا کہ اگر منور صاحب بھی مغربی افریقہ جاتے تو وہاں کی زبان نہ سیکھ سکتے۔ محترم مولانا صاحب نے یہ سُن کر اپنے ہاتھ کی ایک انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فر مایا کہ دنیا کی کوئی بھی زبان ہو ایک مہینہ میں سیکھ سکتا ہوں۔میں اس زبان کے استعمال کرنے والوں کے درمیان رہوں گا اپنے پاس ایک ڈکشنری رکھوں گا اور ایک مہینہ میں اس زبان میں بات چیت کرنے کی صلاحیت حاصل کر لوں گا۔
خاکسار لندن جلسہ سالانہ پر آیا ہوا تھا۔ واپسی پر علم ہوا کہ محترم مولانا صاحب بیمار ہیں اور ہسپتال میں ہیں۔ خاکسار ملنے کے لیے حاضر ہوا۔ منہ پر کپڑا لے کر لیٹے ہوئے تھے ایک دو دفعہ سلام عرض کیا خاموش رہے، اُن کی بیگم صاحبہ پاس بیٹھی تھیں۔ میں سمجھا کہ سوئے ہوئے ہیں پھر کسی وقت حاضر ہو جاؤں گا مگر اُن کی بیگم صاحبہ نے کہا کہ سوئے نہیں ہیں۔ میرا نام لے کر بتایا کہ وہ آپ سے ملنے آئے ہیں۔ کپڑا منہ سے سرکایا۔ حضور کی صحت اور جلسہ کے متعلق پوچھا، فرمایا کہ بہت سی باتیں کرنی تھیں ہمت نہیں ہو رہی۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر خا کسار واپس آ گیا۔ یہ میری اس عظیم خادم سلسلہ سے آخری ملاقات تھی۔
محترم خواجہ عبد الحکیم اکمل صاحب
جامعہ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہالینڈ میں بطور مبلغ تشریف لے گئے اور پھر وہاں کے ہی ہو گئے۔ ساری عمر خدمت میں گزار کر وہیں وفات پائی۔ میرے بچپن کے ساتھی تھے۔ ہم قادیان میں ایک محلہ میں رہتے تھے۔ سکول میں کلاس فیلو بھی تھے۔ ہوم ورک بھی بسا اوقات اکٹھے ہی کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے میری بڑی بہن امۃ اللطیف صاحبہ مجھے اردو کے فقرے بنانے سکھایا کرتی تھیں تو اکمل صاحب بھی اس سبق میں میرے ساتھ شامل ہوتے تھے۔ ایک محلہ میں ہونے کی وجہ سے ہم اطفال الاحمدیہ کے اجلاسوں میں اکٹھے شامل ہوتے اور اس طرح باہم ملاقات کے بہت سے مواقع ملتے رہتے تھے۔
محترم نذیر احمد ریحان صاحب
ہم جامعہ میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ جامعہ میں جب اس وقت کے طریق کے مطابق انجمن اور تحریک جدید کے طلبہ کی تقسیم ہوئی تو ہم دونوں انجمن کے حصہ میں آئے۔ یہاں غالباً اس امر کی تھوڑی سی وضاحت کی ضرورت ہے کہ اُس وقت یہ طریق تھا کہ جامعہ کی تعلیم کے زمانے میں طالب علموں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ تحریک جدید کے حصہ میں آنے والے طالب علموں کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ بیرون ملک تبلیغ کر یں گے اور صدر انجمن کے حصہ میں آنے والے طلبہ کے متعلق یہ سمجھا جاتا کہ یہ پاکستان میں مختلف جماعتوں میں بطور مربی سلسلہ خدمت کریں گے۔ اس تقسیم پر کچھ عرصہ عمل ہوتا رہا مگر بعد میں یہ طریق ختم کر دیا گیا۔ تمام طالب علم تکمیل ِتعلیم کے بعد ’’حدیقۃ المبشرین ‘‘یا ایک پول (pool) میں آ جاتے اور پھر حسب ضرورت ان کی پاکستان یا بیرون ملک تقرری ہوتی۔ ان طلبہ یا مربیوں کے تبادلے بھی ہوتے رہتے تھے۔ اور یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا کہ پاکستان میں خدمت سر انجام دینے والے لازماً پاکستان میں ہی رہیں گے اور بیرون پاکستان خدمت کرنے والے اندرونِ پاکستان کام نہیں کر سکتے۔
پرانے طریق کی بہتری کے لیے آ زمائشی طور پر جن تین مربیوں کو بیرون پاکستان خدمت کے مواقع ملے اُن میں سے ایک یہ خاکسار تھا۔ دوسرے دو ساتھی مکرم عبد الحکیم جوزاء صاحب اور مکرم سلطان احمد شاہد صاحب تھے۔ ریحان صاحب کو ایک لمبا عرصہ سندھ میں خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں نے سندھی زبان میں مہارت حاصل کی اور وہاں کی جماعتوں میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے ہم دونوں جامعہ میں اکٹھے تھے۔ اس وقت ہمارے ایک ساتھی مکرم محمد اسلم فاروقی صاحب حضرت مصلح موعود ؓکے ارشاد پر جامعہ سے فارغ التحصیل ہو کر طبیہ کالج لاہور میں طب کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ خود ایک خاندانی طبیب تھے اور خاندانی طریق کے مطابق بعض مریض ہمیشہ اُن کے زیر علاج رہتے تھے۔ یونانی طب کے علاوہ ایلو پیتھی اور ہو میو پیتھی سے بھی آپؓ کو بہت شغف تھا اور حسب موقع اِن طریقوں کو بھی استعمال فر ماتے تھے۔ یہ تو جملہ معترضہ ہے جو لمبا ہو گیا میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓنے کسی موقع پر ہمارے پرنسپل محترم مولانا ابو العطاء صاحب سے دریافت فر مایا کہ طبیہ کالج میں ہمارے دو طالب علم زیر تعلیم ہیں ؟ اور یہ جواب ملنے پر کہ وہاں صرف ایک طالب علم ہے حضور نے ایک اَور طالب علم کو وہاں بھجوانے کی ہدایت فر مائی۔ مولوی صاحب نے ہمارے طب کے دونوں اساتذہ یعنی مولانا حکیم محمد اسماعیل صاحب اور محترم ڈاکٹر ریاض صاحب سے مشورہ کیا کہ ان کے نزدیک اس مقصد کے لیے طبیہ کالج کس طالب علم کو بھجوایا جائے تو دونوں نے اس خا کسار کا نام تجویز کیا مگر مولوی صاحب نے فر مایا کہ وہ تو تبویب مسند احمد بن حنبل کر رہے ہیں اُن کو تو وہاں نہیں بھجوایا جا سکتا۔ ایک دن خا کسار اور ریحان صاحب صبح کی سیر کے بعد سرگودھا فیصل آباد سڑک پر ربوہ کی طرف آ رہے تھے کہ راستے میں ہمارے پرنسپل صاحب احمد نگر سے آتے ہوئے ملے۔ ہم دونوں نے آگے بڑھ کر مولوی صاحب سے مصافحہ کیا اور باتیں کرتے ہوئے ربوہ کی طرف چلنے لگے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھ کر خاکسار نے استاد محتر م سے عرض کیا کہ حضور کے ارشاد پر طبیہ کالج میں کس کو بھجوانے کا پروگرام بن رہا ہے؟ مولوی صاحب نے تفصیل سے وہ بات بیان فرمائی جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔ خا کسار نے ریحان صاحب کا نام تجویز کیا ( ہم دونوں میں یہ بات پہلے ہو چکی تھی)۔ حضرت مولوی صاحب نے طب میں اُن کی دلچسپی کے متعلق چند سوال کیے اور مطمئن ہو کر محترم ریحان صاحب کے طبیہ کالج جانے کی تجویز پختہ ہو گئی اور دفتری مراحل طے کرتے ہوئے انہوں نے طبیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مکرم فاروقی صاحب اور مکرم ریحان صاحب نے باری باری گولڈ میڈل کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی اور اس ذریعہ سے بھی لوگوں کی خدمت کرتے رہے۔
ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ سے یہاں لندن بھی تشریف لائے۔ یہ وہ جلسہ تھا جس میں شدید بارشوں کی وجہ سے بعض مہمانوں کو مشکل پیش آئی تھی۔ میرے بیٹے رشید احمد نے جلسہ گاہ تک لے جانے اور اسی طرح کسی بھی جگہ جانے کے لیے خدمت کا موقع پایا اور وہ ہمیشہ کی طرح خوش خوش واپس گئے۔
محترم ریحان صاحب جب بھی ربوہ آتے تو ملنے کے مواقع حاصل ہوتے تھے اور پرانے واقعات کی یاد سے خوشی حاصل کرتے۔ خاکسار جب بیرون ملک گیا تو محترم ریحان صاحب میری غیر حاضری میں بھی بچوں کی خیریت معلوم کرنے آتے اور سندھ کی کوئی نہ کوئی سو غات بھی بطور تحفہ لے کر آتے رہے۔ فجزا ھم اللّٰہ
محترم ریحان صاحب کے متعلق تو خاکسار بہت کچھ لکھ سکتا ہے مگر اور باتوں کو چھوڑتے ہوئے صرف ایک اَور بات کا ذکر کرتا ہوں۔
محترم ریحان صاحب جامعہ میں داخلہ کے لیے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ آئے تھے۔ ہمارے پر نسپل محترم مولانا ابو العطاء صاحب ہمیشہ اس وقت کا ذکر کرتے ہوئے فر مایا کرتے تھے کہ میں نے اس وقت اس بچے کے چہرے پر ایک عجیب سا نور دیکھا تھا اُس سے متاثر ہو کر میں نے اسے جامعہ میں داخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ریحان صاحب کو صحت والی زندگی سے نوازے وہ ہمارے استادمحترم کی حسن ظنی پر ہمیشہ ہی پورے اُ ترتے رہے۔
محترم محمد اسلم فاروقی صاحب
ہم جامعہ احمدیہ میں اکٹھے پڑھتے تھے وہ بھی میری طرح اوسط درجے کے طالب علم تھے۔ مگر اُن کے علم طب کا شوق اور دلچسپی غیر معمولی تھی تعلیم کے دوران بھی اُن کے پاس فرسٹ ایڈ قسم کی ادویہ موجود ہوتی تھیں اور وہ اُن کا استعمال بھی بہت اچھے طریق سے کرتے تھے۔ آپ قصور کے رہنے والے تھے۔ موسمی تعطیلات سے واپسی پر وہ وہاں کے ایک ڈاکٹر صاحب کا ذکر ضرور کرتے تھے اُس کی مہارت و حذاقت کے بہت قائل تھے اور چھٹیوں میں سارا وقت اُن کے ساتھ گزار کر اور زیادہ تجربہ حاصل کر کے آتے تھے۔ اُن کا یہ شوق اس رنگ میں پورا ہوا کہ جامعہ سے فارغ التحصیل ہو کر حضرت مصلح موعود ؓ کے منشاءکے مطابق ا نہیں طبیہ کالج لاہور میں تعلیم حا صل کرنے کا موقع ملا۔ طب سے شوق اور توجہ کی وجہ سے وہاں کے اساتذہ میں بھی خوب قدر کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور وہاں سے نمایاں کامیابی اور گولڈ میڈل کے ساتھ واپس آئے۔ جامعہ احمدیہ میں طب کی تعلیم کے علاوہ قرآن مجید پڑھانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور اس طرح دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدی مبلغین ان کی شاگردی کا بڑی عقیدت و محبت سے ذکر کرتے تھے۔
میرے ساتھ بھائیوں کا سا سلوک کرتے تھے۔ میرے بچے اُ نہیں تایا جان کہتے تھے اور اُن کا ہمیشہ یہ طریق رہا کہ میرے بچوں کا علاج اپنے بچوں کی طرح ہی کرتے۔ طالب علمی کے زمانہ سے وہ مریضوں کے علاج کی طرف توجہ دیتے تھے۔ جامعہ میں پڑھانے کے زمانے میں بھی اُن کا یہ سلسلہ جاری رہا اور جامعہ سے فراغت کے بعد وہ پوری طرح اس طرف متوجہ ہو گئے۔ دار العلاج کے نام سے باقاعدہ مطب شروع کر دیا اور عام مریضوں سے واجبی سی فیس اور دوائی کی قیمت لیتے مگر غریبوں اور حاجت مندوں کے مفت علاج کا سلسلہ بھی ہمیشہ کی طرح جاری رہا۔
عمر میں وہ مجھ سے بڑے تھے۔ ایک ٹانگ کی کمزوری کی وجہ سے لنگڑا کر چلتے تھے مگر اس معذوری کی وجہ سے وہ زندگی کی تگ ودو اور نیکی کے کاموں میں کبھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔
اللہ تعالیٰ نے کیسے اچھے اچھے جماعت کو خدامِ دین اور خاکسار کو دوست اور ساتھی عطا فرمائے سب کے لیے دعائے خیر ہے۔