قرآنِ شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہیے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۱ء)
قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کا طریق سکھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’قرآنِ شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہُ الْقُرْاٰن۔ یعنی بہت سے ایسے قرآنِ کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآنِ کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اُس پر عمل نہیں کرتا اُس پر قرآنِ مجید لعنت بھیجتا ہے۔ تلاوت کرتے وقت جب قرآنِ کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 157۔ ایڈیشن 2003ء)
یہ صورت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب اس کی اہمیت کا اندازہ ہو، اس سے خاص تعلق ہو۔ پس یہ اہمیت اور خاص تعلق ہم نے اپنے دلوں میں قرآنِ کریم کے لئے پیدا کرنا ہے۔ بعض لوگوں کے اس بہانے اور یہ کہنے پر کہ قرآنِ شریف سمجھنا بہت مشکل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’بعض نادان لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم قرآنِ شریف کو نہیں سمجھ سکتے‘‘۔ (اس واسطے) ’’اس کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے کہ یہ بہت مشکل ہے۔ یہ اُن کی غلطی ہے۔ قرآنِ شریف نے اعتقادی مسائل کو ایسی فصاحت کے ساتھ سمجھایا ہے جو بےمثل اور بے مانند ہے اور اس کے دلائل دلوں پر اثر ڈالتے ہیں۔ یہ قرآن ایسا بلیغ اور فصیح ہے کہ عرب کے بادیہ نشینوں کو جو بالکل اَن پڑھ تھے سمجھا دیا تھا تو پھر اب کیونکر اس کو نہیں سمجھ سکتے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 177۔ ایڈیشن 2003ء)
اس زمانے میں تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے جنہوں نے ہمیں ظاہری احکام ہی نہیں بتائے بلکہ قرآنِ کریم کے گہرے حقائق و معارف ہمیں کھول کر بیان کر دئیے۔ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4) کا فیض ہمیں پہنچایا ہے۔ پس اس خزانے سے ہمیں جواہرات جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دئیے۔ اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اس سے حقیقی محبت کرنے والے نہیں بنیں گے۔ جماعت سے باہر مسلمانوں میں، دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی قراءت بڑی اچھی ہے، انعامات حاصل کرتے ہیں، بڑی بڑی ریکارڈنگ کی کیسٹس اُن کی دنیا میں چلتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اچھی قراءت کرنے والوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کو قرآنِ کریم کے معانی اور مطالب کا نہیں پتہ۔ بلکہ بڑے بڑے علماء کو نہیں پتہ لگتا تبھی تو اسلام میں بہت عرصہ آیات کے ناسخ و منسوخ کا ایک مسئلہ چلتا رہا ہے اور پھر ابھی بھی بعض آیتوں کی ان کو سمجھ نہیں آتی جس میں ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ بھی ہے۔ بہرحال یہ ان کے معانی و مطالب سے نا آشنا ہیں۔ اس بارے میں بڑی انذار کرنے والی ایک حدیث ہے جو حضرت عباسؓ بن عبد المطلب روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والے ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو ڈینگیں ماریں گے کہ ہم سے بڑا قاری کون ہے؟ ہم سے بڑا عالم کون ہے؟ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں ایسے لوگوں میں کوئی بھلائی والی بات دکھائی دیتی ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہرگز نہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ لوگ تم میں سے اور اسی اُمّت میں سے ہی ہوں گے لیکن وہ دوزخ کی آگ کا ایندھن ہوں گے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد کتاب العلم باب کراھیۃ الدعوی حدیث 876 جلدنمبر 1 صفحہ 251-252۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء۔ مسند البزار۔ مسند العباس بن عبدالمطلب۔ جلد 2 صفحہ 218)
پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی اصل چیز عاجزی سے قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھ کر اُس پر عمل کرنا ہے۔ اس کو پیشہ بنانا نہیں ہے بلکہ اس سے محبت کرنا ہے۔ اور آج ہم میں سے ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ اس پر توجہ دے۔ اس کے حصول کی کوشش کرے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ’کشتیٔ نوح‘ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظلّ تھے۔ سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الُقُرْاٰنِکہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اُس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدّق یا مکذّب قیامت کے دن قرآن ہے۔ اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 26-27)