اللہ تعالیٰ کی صفت خالق (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۷؍ مئی ۲۰۱۰ء)
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ؕ ہَلۡ مِنۡ خَالِقٍ غَیۡرُ اللّٰہِ یَرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۫ۖ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ(فاطر: ۴) اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا ذکر قرآنِ کریم میں بے شمار جگہ پر کیا ہے۔ اور مختلف پیرایوں میں ہمیں سمجھایا ہے کہ میں خالق ہوں۔ تمہیں پیدا کرنے والا ہوں۔ اس کے باوجود تم میرے صحیح عبدنہیں بنتے۔ اس حوالے سے بعض آیات بیان کرنے سے پہلے میں اہلِ لغت نے لفظ خالق کے حوالے سے جو معنی بیان کئے ہیں وہ بتانا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے کہا خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بےشمار جگہ پر اپنے آپ کو خالق کہا ہے۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ مفردات جو لغت کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ اصل میں خَلْقکے معنی کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانے کے ہیں اور کبھی خَلْق، اِبْدَاع کے معنی میں بھی آ جاتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو بغیر مادے کے اور بغیر کسی تقلید کے تخلیق کرنا۔ چنانچہ آیتِ کریمہ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ (النحل: ۴) یعنی اس نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا، میں خلق ابتدا کے معنوں میں ہی ہے کیونکہ دوسرے مقام پر اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (البقرہ: ۱۱۸) وہ آسمان اور زمین کو بغیر کسی سابقہ نمونے کے پیدا کرنے والا ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ایک چیز کو دوسری شے سے بنانے اور ایجاد کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (النساء: ۲) کہ تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے۔خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ (المومنون:۱۳) اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی کے خلاصے سے بنایا۔ کہتے ہیں کہ خیال رہے کہ خلق بمعنی ابداع یعنی نئی چیز پیدا کرنا ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ چنانچہ ذاتِ باری تعالیٰ اور دوسروں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا۔اَفَمَنۡ یَّخۡلُقُ کَمَنۡ لَّا یَخۡلُقُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ (النحل: ۱۸) پس کیا جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہو سکتا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتا۔ کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے۔ (مفردات لالفاظ القرآن از علامہ راغب اصفہانی زیر مادہ: خلق)
ازہری کے نزدیک اَلْخَالِق اور اَلْخَلَّاق اللہ تعالیٰ کی صفاتِ حسنہ میں سے ہیں اور الف اور لام کے ساتھ یعنی اَلْ کے ساتھ یہ صفت اللہ کے سوا کسی غیر کے لئے استعمال نہیں ہوتی اور اس سے مراد وہ ذات ہے جو تمام اشیاء کو نیست سے پیدا کرتی ہے اور لفظ خَلْقکا بنیادی معنی اندازہ لگانا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ چیزوں کے وجود کا اندازہ کرنے کے اعتبار سے اور پھر اس اندازے کے مطابق انہیں وجود بخشنے کے اعتبار سے خالق کہلاتا ہے۔
اہلِ عرب کے کلام میں خَلْقسے مرادبغیر کسی سابقہ نمونے کے کسی چیز کو پیدا کرنا اور ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اسے بغیر کسی سابقہ نمونے کے شروع کرنے والا ہے۔ (لسان العرب زیر مادہ: خلق)
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے حوالے سے اور نام بھی استعمال ہوئے ہیں جیسے بَارِیہے، یعنی ایسا پیدا کرنے والا جس کا پہلے نمونہ نہیں تھا۔ پیدائش کا آغاز کرنے والا۔ بَدِیْعکی صفت بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے ایسا صانع جو نمونہ یا آلہ یا زمان و مکان کی قید سے بالا ہو کر پیدا کرتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو پیدا کرنے کے لئے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ پھر ایک لفظ فَاطِرْہے جو خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ پیدائش کی ابتداء اور اس میں خوبصورتی پیدا کرنے والا۔ بہر حال یہ بہت سارے الفاظ ملتے جلتے ہیں ان کی وضاحت تو آئندہ اپنے اپنے موقع پر ہو گی۔ اس وقت صرف اَلْخَالِق کے حوالے سے قرآنِ کریم کی آیات پیش کروں گا۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق عطا کرتاہے۔ کوئی معبودنہیں مگر وہ۔ پس تم کہاں الٹے پھرائے جاتے ہو؟
پس اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ایک پیغام دیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو اس کی پرورش کے لئے اپنی نعمتیں بھی اتاری ہیں۔ یہ مت خیال کرو کہ تمہیں جو رزق مہیا ہو رہا ہے یہ اللہ کے سوا کوئی اور مہیا کر رہا ہے۔ اس رزق کا پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو رب العالمین ہے۔ زمین جو رزق تمہارے لئے پیدا کر رہی ہے اس رزق کے پیدا کرنے کے لئے بھی آسمان کی مدد کی ضرورت ہے۔ آسمانی پانی نہ ہو تو زمینی پانی بھی خشک ہو جاتا ہے۔ پس زمین سے رزق پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اور آسمان سے ان ذرائع کا پیدا کرنے والا بھی خدا ہے جو زمینی رزق پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ (الملک: ۳۱) تو کہہ بتاوٴ تو سہی کہ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائی میں غائب ہو جائے تو بہنے والا پانی تمہارے پاس خدا کے سوا اور کون لائے گا؟پس زمین کے چشمے، پہاڑوں پر برف، بارشیں یہ سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ پھر زمینی زندگی کے لئے، انسانیت کی بقا کے لئے سورج، چاند اور دوسرے سیارے ہیں یہ بھی ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ سب خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ اس میں یہ بھی واضح کر دیا کہ جس طرح تمہاری دنیاوی زندگی اور تمام نعمتوں کا خالق خدا ہے اسی طرح تمہاری روحانی زندگی میں بھی خدا تعالیٰ نے سامان کئے ہیں۔ اور یہ روحانی اور دنیاوی زندگی کے سامان ایک نیک فطرت انسان سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ایک خدا کی عبادت کی جائے جس نے جسمانی اور روحانی زندگی کے سامان پیدا فرمائے۔ یہ بھی فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھو کہ یہ دنیاوی رزق تو عارضی رزق ہے۔ اصلی رزق وہ روحانی رزق ہے جو دائمی رہنے والا ہے۔ جو آخرت میں کام آنے والا ہے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک کہ کامل موحدنہیں بنتے، جب تک صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نہیں بنتے۔ پس یہ اصل ہے جس کو سمجھنے کی ہمیں بھی ضرورت ہے اور دنیا کو سمجھانے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے روحانی سامانوں کی تخلیق میں انبیاء کا وجود ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ اظہار خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو مبعوث فرما کر فرمایا، جو ہر لحاظ سے خدا تعالیٰ کی کامل تخلیق کا ایک نمونہ ہیں، جو انسانِ کامل کہلائے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقیقی اظہار چاہے وہ دنیاوی ہیں یا روحانی ہیں آپؐ کے اسوہ پر چل کر ہی ہو سکتا ہے جس کو ہم نے بھی اپنے سامنے رکھنا ہے اور دنیا کو بھی بتانا ہے۔ پس یہ چیز ہے جو بہت اہم ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس مقصد کو ادا کرنے والے بھی ہوں اور دنیا اس چیز کو سمجھنے والی بھی ہو اور اللہ کا عبد بنے۔
پھر ایک جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَمَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَہۡجَۃٍ ۚ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُنۡۢبِتُوۡا شَجَرَہَا ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ یَّعۡدِلُوۡنَ (النمل: ۶۱) کہ یہ بتاوٴ کہ کون ہے وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا۔ اور اس کے ذریعہ ہم نے پُر رونق باغات اگائے۔ تمہارے بَس میں تو نہ تھا کہ تم ان کے درخت پروان چڑھاتے۔ پس کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ (نہیں، نہیں)۔ بلکہ وہ ناانصافی کرنے والے لوگ ہیں۔ پس ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ زمینی اور آسمانی نظام پر غور کرو۔ اگر انصاف اور عقل کو استعمال کرو گے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے۔ اور پھر پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً۔ کہ تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا ہے تا کہ تمہاری زندگی قائم رہ سکے۔ پہلے بھی بیان کر کے آیا ہوں کہ اگر تمہارا پانی زمین میں غائب ہو جائے تو کیا کرو گے؟ کون اسے لا سکتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کا ثبوت دیا ہے کہ پانی بھیجنا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔