ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں
تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دَور مقرر کئے ہیں یعنی ایک وہ دَور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دَور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دَور ہزار ہزار برس پر تقسیم کئے گئے ہیں۔…پھر ہزار پنجم کا دَور آیا جو ہدایت کا دَور تھا۔ یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبیﷺ مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا۔ پس آپؐ کے منجانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہایت زبردست دلیل ہے کہ آپؐ کا ظہور اُس سال کے اندر ہوا جو روزِ ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اِسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس تقسیم کی رُو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودہویں صدی کے سر تک ختم ہوتا ہے۔ اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت ﷺ نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔ چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ِظل کے ہو کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدّد صدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی۔ اِس بات میں نصاریٰ اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے۔ اور خدا نے جو سورہ والعصر کے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے۔ اور نبیوں کا اِس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوگا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہوگا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اوّل تھا۔
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۰۷ تا ۲۰۸)