متفرق شعراء

ایک راز

میرے مالک کی مجھ پہ عنایت ہوئی

ایک بیٹی مرے گھر بھی پیدا ہوئی

میں نے نازوں سے نخروں سے پالا اسے

اور پہنائی خوشیوں کی مالا اسے

اس کی آنکھوں میں آنسو نہ آنے دیا

نہ ہی غم کوئی پاس اس کے جانے دیا

اس کے ماتھے پہ کوئی اگر بل پڑا

اس کی حاجت روائی کو میں چل پڑا

رخصتی کا بالآخر وہ دن آ گیا

جب جدا اُس کو اپنے سے کرنا پڑا

آج بیٹی جب اپنی پرائی ہوئی

میرے جذبات میں اک دہائی ہوئی

جس کو سونپا اُسے میں نے کی التجا

مسکراتا ہوا اس کو رکھنا سدا

اس کو پہنچانا ہر اک خوشی تم بہم

اور قریب اس کے آئے نہ کوئی بھی غم

پھر اچانک مجھے اک خیال آ گیا

جو مری روح تک کو بھی تڑپا گیا

چند برسوں یہ پہلے کا ہے واقعہ

میں کسی کا تھا اس روز دولہا بنا

ایک بابل کی بیٹی بیاہی گئی

اور میرے نصیبوں میں لائی گئی

مجھ سے بھی اُس کے بابا نے کی التجا

مسکراتا ہوا اس کو رکھنا سدا

آج اپنی بیاہی تو خود سے کہا

کیا کسی کی میں بیٹی کو خوش رکھ سکا؟

اپنی بیٹی کی خاطر جو جذبات ہیں

اِس کی ماں کے لیے وہ خیالات ہیں؟

جس کا غم اور خوشی مجھ سے منسوب تھی

وہ بھی تو ایک بابل کی بیٹی ہی تھی

مجھ پہ برسوں کے بعد اب یہ عقدہ کھلا

اور گہرا یہ راز ایک افشا ہوا

اپنی بیٹی کو خوش دیکھنا چاہو تو

اس کی ماں کو سدا مسکراتا رکھو

(’’ن۔الف۔فہیم‘‘)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button