وہ یار کیا جو یار کو دل سے اتار دے (منظوم کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
وہ یار کیا جو یار کو دل سے اتار دے
وہ دل ہی کیا جو خوف سے میدان ہار دے
اِک پاک صاف دل مجھے پروردگار دے
اور اس میں عکس حسنِ ازل کا اتار دے
وہ سیم تن جو خواب میں ہی مجھ کو پیار دے
دل کیا ہے بندہ جان کی بازی بھی ہار دے
افسردگی سے دل مرا مرجھا رہا ہے آج
اے چشمۂ فیوض نئی اِک بہار دے
دنیا کا غم اِدھر ہے اُدھر آخرت کا غم
یہ بوجھ میرے دل سے الٰہی اتار دے
مسند کی آرزو نہیں بس جوتیوں کے پاس
درگہ میں اپنی مجھ کو بھی اِک بار، بَار دے
گزری ہے ساری عمرگناہوں میں اے خدا
کیا پیشکش حضور میں یہ شرمسار دے
وحشت سے پھٹ رہا ہے مرا سر مرے خدا
اس بےقرار دل کو ذرا تو قرار دے
تُو بارگاہ حسن ہے میں ہوں گدائے حسن
مانگوں گا باربار مَیں، تُو بار بار دے
دن بھی اسی کے راتیں بھی اس کی جوخوش نصیب
آقا کے در پہ عمر کو اپنی گزار دے
دل چاہتا ہے جان ہو اسلام پر نثار
توفیق اس کی اے مرے پروردگار دے
( کلامِ محمود مع فرہنگ صفحہ۲۴۳)