آئیکون آف دی سیز
۱۵؍اپریل ۱۹۱۲ءمیں پیش آنے والے ٹائی ٹینک حادثے میں ایک ہزار پانچ سو بارہ افراد ہلاک ہوئے، جو کہ اپنے سفر کے چوتھے اور پانچویں دن کی شام میں ایک برفانی تودے سے ٹکرا گیا اور دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ اس کا ملبہ شمالی بحر اوقیانوس میں تین سے چار ہزار میٹر کی گہرائی میں پایاجاتا ہے۔ اگرچہ ماضی میں ۱۱۸۷؍فٹ لمبے بحری جہاز بنائے جا چکے ہیں، تاہم اب ایک صدی کےبعد جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے فن لینڈ کے شہر ترکو کے شپ یارڈ میں ایک بار پھر ایسا بحری جہاز بنایا گیا ہے۔ بحری جہاز بنانے والی کمپنی ’رائل کیریبیئن انٹرنیشنلز آئیکون‘ کی طرف سے ۲۰۲۳ء میں دنیا کے سب سے بڑے بحری جہاز بنانے کا کام مکمل ہوچکا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے بحری جہاز کو ’آئیکون آف دی سیز‘ (Icon of the Seas) کا نام دیا گیا ہے جو مجموعی طور پر ۱۲۰۰؍فٹ لمبا اور ۱۶۵؍فٹ چوڑا ہے۔ اس کی تیاری کے لیے ۲۶۰۰؍مزدوروں نے روزانہ کی بنیاد پر رات دن خدمات سر انجام دی ہیں۔ سفر کو خوبصورت اور یادگار بنانے کے لیے اسے تمام تر سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہے۔ آئیکون آف دی سیز کی تکمیل کے لیے دو ارب ڈالرز کی لاگت آئی ہے۔اس کا وزن ڈھائی لاکھ ٹن سے زیادہ ہے۔ یہاں اس بات کا خیال رہے کہ ’آئیکون آف دی سیز‘ ایک صدی قبل ڈوبنے والے جہاز ٹائٹینک سے پانچ گنا بڑا ہے، ٹائٹینک کی لمبائی ایک ہزار فٹ سے کم تھی اور اس میں صرف۲۳۰۰ افراد کے سوار ہونے کی گنجائش تھی۔
’آئیکون آف دی سیز‘ کا پہلا آزمائشی سفر ۲۲؍جون کو کیا گیا۔ اس کے بعد دیگر آزمائشی سفر بھی ۲۰۲۳ء کے اختتام تک کیے گئے۔اس کے پہلے سفر کے لیے، ہزاروں افراد نے مہینوں پہلے سے ایڈوانس ٹکٹ بھی بک کروائے۔ رائل کیریبین کی ویب سائٹ کے مطابق اس میں ایک ہفتہ سفر کرنے کا کرایہ ایک ہزار ۷۰۰؍ سے دو ہزار ۷۰۰؍ ڈالر تک فی کس ہے۔
اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز بالآخر فلوریڈا کے شہر میامی سے اپنے پہلے سفر کے لیے ۲۷؍جنوری کو غروب آفتاب سے قبل میامی کی بندرگاہ سے روانہ ہوا۔اس میں مسافر اپنی مرضی کے مطابق انتہائی طویل یا مختصر سفر کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ سات دن کے طویل سفر سے لطف اندوز ہونے کے لیے بحری جہاز میامی سے مشرقی کیریبین تک جائے گا، اورراستے میں ٹروپیکل علاقوں میں مختلف جزائر کا دورہ کرے گا۔
یہ بحری عجوبہ۲۰ منزلوں پر مشتمل ہے جس میں ۷ ہزار سے زائد مسافر اور اڑھائی ہزار کے قریب عملے کے ارکان کی گنجائش ہے۔ اس سمندری عجوبہ میں بالغوں اور بچوں کے لیے الگ الگ خصوصی کیبنز ہونے کے علاوہ فیملی کیبنز بھی الگ ہیں جب کہ دوستوں کے ہمراہ سفر کو انجوائے کرنے والوں کے لیے بھی الگ الگ کیبنز دستیاب ہیں۔ جن کی تعداد تقریباًایک ہزار کے قریب بنتی ہے۔
اس بحری جہاز میں سات بڑے سوئمنگ پولز، چھ واٹر سلائیڈز، ۴۰؍سے زائد ریستوران، بار اور لاؤنج اور کھیلوں کے میدان ہیں۔ اس کے علاوہ سوئمنگ پولز اور تفریحی میدانوں کو بچوں اور بالغوں کے لیے الگ الگ رکھا گیا ہے۔ اس میں سینما، ورزش کے لیے جم خانے، شاپنگ سینٹر نیز ۱۷؍میٹر کا ایک اونچی آبشار بھی شامل ہے۔
بحری جہاز میں رات کے وقت تفریح کے لیے خصوصی لائٹس کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جبکہ جہاز میں کچھ ایسے مقامات بھی موجود ہیں جہاں شیشے کی دیواریں اور سمندر کے نظارے بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ اس کے علاوہ ایک آئس سکیٹنگ رِنگ بھی جہاز میں موجود ہے۔
یہ بحری جہاز رائل کیریبین گروپ کی ملکیت ہے۔ رائل کیریبین کا یہ آئیکون آف دی سیز ایک تیرتا ہوا عجوبہ ہے جو کہ انسانی ذہانت کا منہ بولتاثبوت اور جدید لگژری سفر کے شعبے میں جدت کی اعلیٰ مثال بھی۔ آئیکون آف دی سیز نے ’ونڈر آف دی سیز‘ سے دنیا کے سب سے بڑے کروز شپ کا ٹائٹل بھی لے لیا ہے جو ’رائل کیریبین‘ ہی کی ملکیت تھا۔ یہ تیرتا ہوا عجوبہ اپنے اندر ایک چھوٹا سا شہر سمیٹتے ہوئے کروز انڈسٹری میں نئے معیارقائم کرتا ہے۔
ماہرین ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ مائع قدرتی گیس سے چلنے والا جہاز ہوا میں میتھین لے جائے گا جو کہ نقصان دہ ہے۔اگرچہ ایل این جی روایتی سمندری ایندھن جیسے ایندھن کے تیل کے مقابلے میں زیادہ صاف جلتی ہے، لیکن کچھ گیسوں کے اخراج کا خطرہ ہے جس میں میتھین شامل ہے جوکاربن ڈائی آکسائیڈ سے کہیں زیادہ طاقتور گرین ہاؤس گیس ہے۔گو اسے ماحول دوست متبادل کے طور پر پیش کیا گیاہے لیکن یہ موضوع کروز انڈسٹری میں کافی تنقید کا باعث بنا ہوا ہے۔
(الف فضل)