مجھے بھی رمضان کا انتظار تھا
رمضان صرف ایک عبادت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ عبادات کے ایک بہت بڑے مجموعے کا نام ہےکیونکہ جب رمضان آتا ہے تو جن پر روزے فرض ہیں وہی مستعد اور چوکس نہیں ہوتے بلکہ دنیا کا ہر چھوٹا بڑا مسلمان کمرِہمت کس لیتا ہے اور وہ نیکیوں کی ہر راہ اختیار کرنے کا عزمِ صمیم باندھ لیتا ہے۔پس رمضان آتا ہے تو نمازوں کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے۔ نوافل کی تعدادمیں اضافہ ہوجاتاہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کی طرف بار بار دھیان جاتاہے۔ دعاؤں اور ذکر الٰہی پر زیادہ زور دیا جاتاہے۔حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی مستعدی دکھائی جاتی ہے۔ صدقہ وخیرات کی طرف زیادہ توجہ ہوجاتی ہے۔ اسی ماہِ مبارک میں زکوٰۃ ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر روزے افطار کروائے جاتے ہیں۔ فدیہ ادا کرکے بے شمار روزے داروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ صدقۃ الفطر ادا کیا جاتاہے گویا ہر طرف نیکیوں کی بہاریں اور حصول تقویٰ کے نظارے دکھائی دیتے ہیں۔
اگرچہ اسلام سے پہلے بھی روزے فرض تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح اسلام کے ذریعہ دوسری عبادات کو اُن کی معراج تک پہنچا دیا بالکل اسی طرح آنحضرت ﷺ کے ذریعہ روزے بھی اپنی معراج کو پہنچے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کی جزاکو اپنی لِقاکا ذریعہ ٹھہرا یاہے۔حقیقت یہ ہے کہ رمضان ایک ایسا مہمان ہے جس کا دنیا میں سب سے زیادہ انتظار کیا جاتا ہے۔کچھ لوگ تو رمضان کے گزرتے ہی اگلے رمضان کا انتظار کرنے لگتے ہیں اور جیسے جیسے رمضان کے دن قریب آتے جاتے ہیں اس کا انتظار کرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جاتا ہے۔گویا پورا عالم اسلام اس بابرکت مہمان کی آمد کا منتظر ہوتاہے۔ رمضان آتا ہے توجماعت مومنین کے گھروں میں جشن کا سا سماں ہوتاہے۔وہ ظاہری قمقمے روشن کرنے کی بجائے نیکیوں کے ارادوں اور تقویٰ کے چراغوں سے اُس کا استقبال کرتے ہیں اوروہ یہ عزم کرلیتے ہیں کہ اپنے ربّ کو راضی کرنے کی ہر راہ اختیار کریں گے۔ وہ نہ تو کسی چھوٹی نیکی کو چھوڑتے ہیں اور نہ ہی کسی بڑی نیکی سے پیچھے رہتے ہیں بلکہ وہ ہر بدی کو بیزار ہوکر ترک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے دلوں کے سکون کے لیے اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کی بجائے تلاوت قرآن شریف سے اپنے گھروں کو برکت دیتے ہیں۔ وہ اپنی راتوں کو عاجزانہ خشوع وخضوع سے سجاتے اور اپنی پنجوقتہ نمازوں کی عادت کو مزید پختہ بناتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہی انسان کامیاب ہوگا جو اپنے دل میں تقویٰ کی کھیتیاں اُگا کر اُنہیں نیکیوں کے مصفّا پانی سے سیراب کر تا رہے گا۔قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشَّمْس:۱۰) یقینا ًوہ کامیاب ہوگیا جس نے اُس (تقویٰ) کو پروان چڑھایا۔ پس رمضان ایک ایسا بابرکت مہینہ ہے جو مومنوں کو روحانی و جسمانی بیماریوں سے ہی نجات نہیں دلاتابلکہ اُن کے دلوں میں نیکی اور حصول تقویٰ کی نئی جوت جگادیتا ہے اور وہ رمضان کے بعد بھی اُن لذت آمیز کیفیات سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں جو رمضان کی برکت سے میسر آئی تھیں۔
ہمارے نبی کریمﷺکی پاکیزہ فطرت کا خمیر نیکی اور تقویٰ کی پاکیزہ مٹی سے اُٹھایاگیا تھا یہی وجہ ہے کہ نیکیاں ہی آپ کے تمام اعمال وافعال کانمایاں حصہ اور اللہ تعالیٰ کی یاد آپ کا اوڑھنا بچھوناتھی۔ رسول کریم ﷺ کی بابرکت زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہر صاحبِ فراست جان لے گاکہ آپؐ نے اپنی زندگی میں دکھ درد،بھوک اورپیاس کی شدت، تبلیغ دین اورجہاد فی سبیل اللہ میں جس قدر تکلیفیں اُٹھائیں اور جس طرح آپؐ نے اپنےدن رات اللہ تعالیٰ کی یاد، اُس کی عبادات، خشیت سے بھر پور راتوں کے قیام اوررکوع وسجود میں گزارے۔نیز حقوق العبادکے قیام میں اپنے آپ کو وقف رکھا۔آپ کے یہ تمام اعمال و افعال رمضان کی تمام ترکیفیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھے گویا عملی طورپر آپ ﷺ کی ساری زندگی رمضان میں ہی گزری لیکن اس کے باجود رمضان کے آتے ہی آپﷺ کمر ہمت کَس لیتے اور پہلے سے بہت بڑھ کر نیکیوں اور تقویٰ کے حصول کے لیے کوشاں ہوجاتے۔پس رمضان اس لیے آتاہے کہ ہر مومن اطاعت الٰہی میں اپنی گردن جھکا دے،وہ اپنی نفسانی خواہشات اور مرضیات سے الگ ہوجائے،اپنے نفس پر ضبط کرنا سیکھے اور اُس کی اصلاح کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار ہوجائے۔نمازوں کے قیام، تہجد کی ادائیگی، دعاؤں،تسبیح و تحمید اوردرود شریف کی طرف خاص توجہ کرے۔ تلاوت قرآن کریم کی عادت کو پختہ بنالے۔ صدقات و خیرات میں دوام اختیارکرے۔ خورونوش میں اسراف سے بچے اور جسمانی و اخلاقی اور روحانی صحت کی خاطر اپنے اندر اعتدال کی عادت پیدا کرے۔اللہ تعالیٰ سے اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگتارہے اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لیے کثرت سے دعا ئیں کرے۔
پس رمضان اس لیے آتا ہے تاکہ ہم نیکی اور تقویٰ کے حصار میں آجائیں اورہمارے اندر پاک روحانی تبدیلیاں پیدا ہوں۔ جب ایک مومن ان تمام امور کی طرف توجہ دے گا تو اس مجاہدے کے نتیجہ میں اُس کے اندر مَلکی صفات پیدا ہوں گی جو قربِ الٰہی کا موجب بنیں گی۔ ان شاء اللہ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے :اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ابن آدم کا ہر عمل اُس کے لیے ہوتا ہے سوائے روزہ کے۔ کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا بدلہ ہوتا ہوں۔ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، بَابَ:ھَلْ یَقُوْلُ اِنِّی صَائِمٌ اِذَا شُتِمَ)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ہم احمدیوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد اپنے روزوں کے اس طرح حق ادا کرنے کی کوشش کریں جس طرح ان کا حق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ تقویٰ کیا ہے اور ہم نے اسے کس طرح اختیار کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف مواقع پر تقویٰ کے بارے میں ہمیں بتایا کہ متقی کون ہے ؟حقیقی راحت اور لذت اصل میں تقویٰ ہی سے پیدا ہوتی ہے نہ کہ دنیا کی لذتوں میں راحت ہے۔ کس طرح ہمیں نیکیاں بجالانی چاہئیں۔ انسان کو حقیقی مومن بننے کے لئے اپنا ہر کام خدا تعالیٰ کی مرضی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنا چاہئے اور یہی ایک بات ہے جو مومن اور کافر میں فرق ڈالتی ہے۔ اور یہ بھی آپ نے ہمیں بتایا اللہ تعالیٰ کی معرفت میں انسان ترقی کرے۔ ہر روز جو آئے، ہر آنے والا دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت میں آگے لے جانے والا ہو، نہ کہ وہیں کھڑے رہیں یا ان لوگوں کی طرح ہوں جو صرف معاشرتی دباؤ کی وجہ سے دکھانے کے لیے روزے رکھتے ہیں نہ کہ تقویٰ میں بڑھنے کے لیے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ ۱۸؍مئی ۲۰۱۸ء۔ الفضل انٹرنیشنل ۸؍جون ۲۰۱۸ء صفحہ ۶)
اللہ کرے کہ ہم اُسی طرح رمضان میں داخل ہوں جس طرح ہمارے آقا وہادیﷺ داخل ہوا کرتے تھے اور جب رمضان مہمان کے طورپرہم سےجدا ہونے لگے تواس وقت تک ہمارے دلوں میں نیکی اور تقویٰ کی کھیتیاں لہلہانے لگ جائیں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین یاربّ العالمین۔