خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۵؍ مئی۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:[ترجمہ سورۃ النحل:۹۱]اللہ یقیناً عدل کا اور احسان کا اور غیر رشتہ داروں کو بھی قرابت والے شخص کی طرح جاننے اور اسی طرح مدددینے کا حکم دیتا ہے اور ہرقسم کی بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے روکتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم سمجھ جاؤ۔
یہ آیت ہر جمعہ کے خطبہ ثانیہ اور عیدین کے خطبہ ثانیہ میں بھی پڑھی جاتی ہے…اس آیت میں جن نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی عدل، احسان اور اِیتَآءِ ذِی الْقُرْبٰى۔ان کے حوالے سے مَیں حضرت مسیح موعود ؑ کے ارشادات جو آپؑ نے اپنی مختلف کتب میں تحریر فرمائے اور جو مختلف مجالس میں بیان فرمائے پیش کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحقوق اللہ اورحقوق العبادکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اس سے اور اس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو۔ یعنی حق اللہ اور حق العباد بجا لاؤ اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی فرائض سے زیادہ اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو‘‘ پہلے تو حقوق العباد کے بارے میں بتایا۔ پھر فرمایا کہ خدا کی بندگی بھی ایسے انداز سے کرو کہ گویا تم اسے دیکھتے ہو’’اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروّت و سلوک کرو اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو ایسے بے علت و بےغرض‘‘ذاتی خواہشات سے بالا ہو کر، بے غرض ہو کر بغیر کسی مقصد کے خدا کی عبادت کرو ’’خدا کی عبادت اور خلق اللہ کی خدمت بجا لاؤ۔‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی بے غرض ہو کر کرو۔ کسی غرض کے لیے نہیں اللہ کے سامنے جانا۔ اور اللہ کی مخلوق کی خدمت ہے تو وہ بھی بے غرض ہو کے کرو ’’کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے۔‘‘…فرمایا:’’پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو ظالم نہ بنو۔پس جیساکہ درحقیقت بجز اس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں۔ کوئی بھی محبت کے لائق نہیں۔ کوئی بھی توکّل کے لائق نہیں کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت وربوبیت خاصہ کے ہر یک حق اسی کا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ سے عدل کیا ہے؟اطاعت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے رکھنا ہے اور اطاعت کا تعلق اس لیے رکھنا ہے کہ وہ ہمارا خالق ہے، وہ قائم ہے اور قائم رکھنے والا ہے۔ربوبیت اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ رب ہے۔ وہ پالنے والا ہے۔ ہماری ہر ایک ضرورت کو پورا کرنے والا ہے۔ اس لیے یہ حق اسی کا ہے کہ اس پر توکل کیا جائے، اس سے محبت کی جائے۔’’اِسی طرح تم بھی اس کے ساتھ کسی کو اس کی پرستش میں اوراس کی محبت میں اور اس کی ربوبیت میں شریک مت کرو۔ اگر تم نے اِس قدرکر لیاتو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی۔پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہوتو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہوجاؤ اور اس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متادّب بن جاؤ اور اس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اس کی عظمت اور جلال اوراس کے حسن لازوال کودیکھ لیا ہے۔‘‘اگلا قدم احسان کا ہے۔ احسان تو اللہ تعالیٰ پہ نہیں کر سکتے لیکن یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی پرستش میں، اس کے عزت اور احترام میں، اس کی محبت میں اتنے زیادہ کھو جاؤ کہ گویا تم نے اُس کی عظمت کو بھی دیکھ لیا، اُس کے جلال کو بھی دیکھ لیا، اُس کی صفات کا تم نے مطالعہ کر لیا۔ اُس کے حسنِ لازوال کو دیکھ لیا… پھر فرمایا کہ’’بعد اس کے اِیتَآِءِ ذِی الْقُرْبٰى کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلف اور تصنع دور ہو جائے۔‘‘پہلے تو ہو سکتا ہے احسان کے رنگ میں جو تم کر رہے ہو، کوشش کر رہے ہو تو تکلف ہو، تھوڑی سی بناوٹ کرنی پڑے، کوشش کرنی پڑے، لیکن پھر یہ ایسا مقام حاصل کر لو کہ بالکل تکلف اور بناوٹ دُور ہو جائے۔ ایک دلی جوش اور جذبے سے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کی عظمت اور جلال کو پہچاننے والے بن جاؤ ’’اور تم اس کو ایسے جگری تعلق سے یاد کرو کہ جیسے مثلاً تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہوجائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتا ہے‘‘
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاطاعت کرنےوالوں کی اقسام کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ’’خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے درحقیقت تین قسم پرمنقسم ہیں۔اوّل وہ لوگ جو بباعث محجوبیت اور رویت اسباب کے احسان الٰہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتےاور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے۔صحیح تصور ہی اللہ تعالیٰ کا جب پیدا نہیں ہوگا۔ اس کی شکل ہی سامنے نہیں آئے گی اس کے احسانوں کا خیال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ اس کے بارے میں، اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے بارے میں انسان حقیقت میں سوچے گا نہیں تو پھر وہ جوش پیدا نہیں ہو سکتا…سو ان کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے…اورآیت اِنَّ اللّٰهَ یاْمُرُ بِالْعَدْلِ میں عدل سے مراد یہی اطاعت برعایت عدل ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ کی رحمانیت پھر یہاں کام آتی ہے۔ جو ایسے لوگ ہیں جو پوری طرح اللہ تعالیٰ کا چہرہ نہیں بھی دیکھ سکتے ان سے بھی اللہ تعالیٰ رحم کا سلوک کرتا ہے اور ان کی اس حالت کو بھی قبول کر لیتا ہے۔ فرمایا: ’’مگر اس سے بڑھ کر ایک اور مرتبہ انسان کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیساکہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں انسان کی نظر رویت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہوکر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہے‘‘صرف ان دنیاوی اسباب پہ بھروسہ نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے احسان کو نظر پھر دیکھ لیتی ہے۔ جو انسان اگلے قدم پر جاتا ہے۔ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ پر انحصار ہوتا ہے، اس کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ ’’اور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آجاتا ہے۔‘‘دنیاوی چیزوں پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ مکمل بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے‘‘… فرماتے ہیں کہ ’’اور اس درجہ کے بعد ایک اَور درجہ ہے جس کا نام اِیتَآءِ ذِی الْقُرْبٰى ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احساناتِ الٰہی کو بلا شرکتِ اسباب دیکھتا رہے۔‘‘احسانات اللہ تعالیٰ کے جو ہیں وہ بغیر کسی دنیاوی اسباب کے دیکھتا رہے، بغیر کسی شریک کے دیکھتا رہے، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پہ کامل بھروسہ ہو’’اور اس کو حاضر اور بلاواسطہ محسن سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے تو اس تصور اور تخیل کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جناب الٰہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی۔ کیونکہ متواتر احسانات کا دائمی ملاحظہ بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے‘‘… آپؑ فرماتے ہیں کہ’’غرض آیت اِنَّ اللّٰهَ یاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیتَآءِ ذِی الْقُرْبٰى(النحل:91) کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیساکہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ(البقرة: 208) یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاءِ الٰہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے۔‘‘
سوال نمبر۴: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اہل اللہ کےکون سےتین مدارج بیان فرمائے؟
جواب: فرمایا: آپؑ نے فرمایا کہ’’ادنیٰ درجہ عدل کا ہوتا ہے جتنا لے اتنا دے۔‘‘عدل ہوتا ہے جتنا لے اتنا دے یعنی یہ انصاف کا کم از کم معیار ہے۔ ’’اس سے ترقی کرے تو احسان کا درجہ ہے جتنا لے وہ بھی دے اور اس سے بڑھ کر بھی دے۔‘‘یہ احسان ہے کہ جتنا لیا ہے وہ بھی واپس کرو اور بڑھ کے اس کو دو۔’’پھر اس سے بڑھ کر اِیتَآءِ ذِی الْقُرْبٰى کا درجہ ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس طرح نیکی کرے جس طرح ماں بچے کے ساتھ بغیر نیت کسی معاوضہ کے طبعی طور پر محبت کرتی ہے۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل اللہ ترقی کرکے ایسی محبت کو حاصل کر سکتے ہیں‘‘اگر چاہو تو ترقی کرکے اللہ تعالیٰ سے بھی ایسی محبت حاصل ہو جاتی ہے۔ ’’انسان کا ظرف چھوٹا نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ باتیں حاصل ہو جاتی ہیں بلکہ یہ وسعت اخلاق کے لوازمات میں سے ہے۔‘‘فرمایا’’میں تو قائل ہوں کہ اہل اللہ یہاں تک ترقی کرتے ہیں کہ مادری محبت کے اندازہ سے بھی بڑھ کر انسان کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔‘‘
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے احسان کرنےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں :’’اوّل یہ درجہ کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کی جائے یہ تو کم درجہ ہے اور ادنیٰ درجہ کا بھلامانس آدمی بھی یہ خلق حاصل کر سکتا ہے کہ اپنے نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرتا رہے۔ دوسرا درجہ اس سے مشکل ہے اور وہ یہ کہ ابتداءً آپ ہی نیکی کرنا اور بغیر کسی کے حق کے احسان کے طور پر اس کو فائدہ پہنچانا اور یہ خلق اوسط درجہ کا ہے۔اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں یہ ایک مخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا ہے اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے عوض میں شکریہ یا دعا چاہتا ہے اور اگر کوئی ممنون منت اس کا مخالف ہو جائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتا ہے۔بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے۔‘‘اس لیے کہ میں نے تم پہ احسان کیا اور اتنا عرصہ تمہارے کام آیا یا میرے سے تم فائدہ اٹھا رہے ہو تو احسان کرنے والا اس کی طاقت سے بڑھ کر اس آدمی پر بوجھ ڈال دیتا ہے’’اور اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے جیساکہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ متنبہ کرنے کے لئے فرماتا ہے۔ لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى(البقرة:265) یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے۔احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو۔‘‘اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو وارننگ (warning) دی ہے کہ ایسے احسان تمہارے لیے کوئی فائدہ مند نہیں ہوں گے۔ صدقات اگر تم کرتے ہو تو اس کی بنیاد صدق پر ہے، سچائی پر ہے۔ اگر احسان دلانا ہے تو پھر تمہاری سب نیکی برباد ہو گئی۔’’یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے۔ غرضاحسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلادیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا۔‘‘
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اخلاق کی اقسام کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں ’’اخلاق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو آج کل کے نو تعلیم یافتہ پیش کرتے ہیں کہ ملاقات وغیرہ میں زبان سے چاپلوسی اور مداہنہ سے پیش آتے ہیں۔اور دلوں میں نفاق اور کینہ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ اخلاق قرآن شریف کے خلاف ہیں۔ دوسری قسم اخلاق کی یہ ہے کہ سچی ہمدردی کرے۔ دل میں نفاق نہ ہو اور چاپلوسی اور مداہنہ وغیرہ سے کام نہ لے جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ یاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیتَآءِ ذِی الْقُرْبٰى (النحل:91) تو یہ کامل طریق ہے اور ہر ایک کامل طریق اور ہدایت خدا کے کلام میں موجود ہے۔جو اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ اور جگہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ اچھی تعلیم اپنی اثر اندازی کے لئے دل کی پاکیزگی چاہتی ہے۔ جو لوگ اس سے دور ہیں اگر عمیق نظر سے ان کو دیکھو گے تو ان میں ضرور گند نظر آئے گا۔ زندگی کا اعتبار نہیں ہے۔ نماز، صدق و صفا میں ترقی کرو۔‘‘