قرآن کریم کا ادب بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے
قرآن کریم کو جیسا کہ ہم جانتے ہیں رمضان سے ایک خاص نسبت ہے۔ اس کا نزول اس مہینے میں شروع ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے حضور مناجات کو خداتعالیٰ نے سنا اور اپنی رحمت کے دروازے کھولے اور دنیا کو گند اور شرک میں پڑا ہوا دیکھ کر بے چین اور بیزار ہونے والے وجود کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے آخری شرعی کتاب دے کر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ اور پھر 23سال کے لمبے عرصہ تک یہ شریعت اترتی رہی اور جبریل آپؐ کے پاس ہر رمضان میں اس وقت تک کے نازل شدہ قرآن کا ایک دَور مکمل کرواتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے سال(جس سال آپؐ کا وصال ہوا) اس سال کا جو رمضان تھا، اس سال میں جبکہ شریعت مکمل اور کامل ہو چکی تھی جبریل نے دو دفعہ قرآن کریم ختم کروایا۔ پس یہ سنّت ہے جس کو مومن جاری رکھتے ہیں۔ اور کم از کم ایک یا دو دفعہ رمضان میں قرآن کریم کا دور مکمل کرتے ہیں، ختم کرتے ہیں، پڑھتے ہیں۔ اور جن کو توفیق ہو وہ دو دفعہ سے زیادہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن اتنی جلدی بھی نہیں پڑھنا چاہئے کہ سمجھ ہی نہ آئے کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ جو اہل زبان تھے، عرب تھے ان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جس نے تین دن سے کم عرصے میں قرآن کریم کو ختم کیا اس نے قرآن کریم کا کچھ بھی نہیں سمجھا۔ ‘‘(ترمذی۔ ابواب القراءات۔ باب ما جاء انزل القرآن علی سبعۃ أحرفٍ)…
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍اکتوبر ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍نومبر ۲۰۰۵ء)