سورت بنی اسرائیل، الکہف اور مریم میں یہود و نصاریٰ کے متعلق پیشگوئیاں نیز مسلمانوں کی دو تباہیوں کا ذکر اور ان کے دوبارہ عروج کا قرآنی نسخہ (قسط اوّل)
قرآن کریم ایک کامل شریعت ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کی بھی کامل تجلی ہےجس کے مطالعہ سے خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل یقین حاصل ہوتا ہے۔ اسی لیے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآنی پیشگوئیوں کو پڑھنے کی تلقین فرمائی (خطبہ جمعہ۲۲؍ستمبر ۲۰۲۳ء ) اور پھر موجودہ حالات کے تناظر میں ۱۹؍نومبر ۲۰۲۳ءکو ایک آن لائن ملاقات میں سورت بنی اسرائیل کی کچھ پیشگوئیوں کی تفہیم کے لیے تفسیر کبیر کے مطالعہ کی تحریک فرمائی چنانچہ اس حوالے سے دو مضامین الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہو چکے ہیں۔ (الفضل انٹر نیشنل ۲۷ ؍نومبر اور ۲۸،۲۷؍دسمبر ۲۰۲۳ء )
زیر نظر مضمون میں ان پیشگوئیوں کا ذکر ہے جو قرآن کریم کی تین مسلسل سورتوں میں یہود ونصاریٰ کے متعلق بیان کی گئی ہیں اور ان کا اکثر حصہ اس زمانہ سے متعلق ہے اور ان کا اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھنا ہمارے ایمانوں کی مضبوطی کا باعث ہے۔یاد رکھنا چاہیےکہ قرآن کریم کی ترتیب بھی ایک معجزہ ہے جو کئی رنگوں میں اپنی بہار دکھاتا ہے جس طرح آیات میں ایک خاص ترتیب ہے اسی طرح سورتوں میں بھی خاص الہامی ترتیب ہے بعض دفعہ سورتوں کا ایک گروپ مضمون کو مکمل کرتا ہے یہ علم خاص طور پر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود ؑکے طفیل حضرت مصلح موعود ؓکو عطا کیا گیا ہے جس کی تفسیر کبیر شاہد ہے۔
سورتوں کی باہمی مناسبت
حضورؓ ان تین سورتوں کا باہمی تعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:سورت بنی اسرائیل۔کہف اور مریم ایک خاص باہمی مناسبت رکھتی ہیں اور گویا ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو ہیں اور ان کا تعلق مسلمانوں،یہود اور عیسائیوں سے ہے۔ سورت بنی اسرائیل میں بتایا گیا کہ موسوی سلسلہ کے لئے مقدر تھا کہ اس پر موسیٰ کے بعد دو تباہیاں اور دو ترقیوں کا زمانہ آئے گااور ویسا ہی سلوک مسلمانوں سے ہو گا۔چنانچہ بنی اسرائیل کی پہلی تباہی حضرت سلیمانؑ کے بعد ہوئی جو بڑی ترقی کا دور تھا اور یروشلم تباہ ہوا جو یہو دکا مرکز تھا چھٹی صدی قبل مسیح میں یعنی ۵۸۷ ق م میں بابل کے بادشاہ نبو کد نضر نے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور لاکھوں یہودی تہ تیغ کر دیئے تھے اور لاکھو ں کو قیدی بنا کر بابل لے گیا تھا۔اسی طرح بنو عباس کے زمانہ میں بڑی ترقی کے بعد بغداد کو تباہ کیا گیا جو مسلم حکومت کا مرکز تھا اور اس تباہی کا زمانہ بھی موسیٰ اور رسول کریم کے بعد کم وبیش ایک جیسا تھایروشلم کی تباہی کے بعد دشمن قوم نے یعنی مید اور فارس کے بادشاہ نے دوبارہ آبادکاری میں مدد کی اور یہودقریباً ۱۵۰ سال بعد حضرت عزیرؑ کے زمانہ میں یروشلم واپس آئے اورمعبد تعمیر کیا اسی طرح بغداد تباہ کرنے والے منگول خود مسلمان ہو گئے۔
یہود پر دوسری تباہی حضرت مسیح ؑ سے پہلے شروع ہو گئی تھی جو ٹائٹس رومی کے ذریعے مسیح کے بعد ۷۰ء میں کمال کو پہنچی اور انہیں فلسطین سے نکال دیاگیا اسی طرح مسلمانوں پر مغربی اقوام کے ذریعے جو رومن حکومت کے قائم مقام تھیں مسیح موعود کی آمد سے پہلے تباہی آنی شروع ہوئی اور تمام طاقت ور حکومتیں ختم ہو گئیں۔سورت کہف میں بتایا گیا ہے کہ موسوی سلسلہ کی ترقی کا دوسرا دور اصحاب کہف کی قربانیوں اور تبلیغ کا مرہون منت ہے جب وہ مسیح پر ایمان لاکر ترقی کر گئے۔ اسی طرح مسلم امہ کی ترقی کا دوسرا دور بھی مسیح موعود کے ظہور کے ساتھ شروع ہو گا اور نئے اصحاب کہف پیدا ہوں گے۔سورت کہف میں معراج موسوی کا ذکر کیا اور اسی میں اسلام کی ترقی کی خبر بھی دی گئی اسی مشابہت کے لیے ذوالقرنین کا واقعہ بھی بیان کیا جس کے ذریعہ تباہ شدہ یہودیوں کو حکومت ملی اسی طرح مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ ایک ذوالقرنین کے ذریعہ بچانے اور حفاظت کے سامان کرے گا۔
سورت مریم میں بتایا ہے کہ آخری زمانہ میں مسیح ناصری اور مسیح محمدی کی قوم میں مقابلہ ہو گا اس لیے اس میں عیسائیت کی تاریخ اور اس کے استیصال کے گر مسلمانوں کو سکھائے گئے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد۵صفحہ۱۱تا ۱۳)
سلسلہ موسویہ اور سلسلہ محمدیہؐ کی مماثلت
اس سارے مضمون کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سلسلہ محمدیہؐ اور سلسلہ موسویہ کی اس مشابہت کو سمجھا جائے جو تقدیر الٰہی میں ازل سے مقدر تھی اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ پر تفصیل سے کھولی گئی حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:قرآن شریف کے رُو سے کئی انسانوں کا بروزی طور پر آنا مقدّر تھا۔ (۱) اوّل مثیل موسیٰ کا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جیسا کہ آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا سے ثابت ہے (۲) دوم خلفاءِ موسیٰ کے مثیلوں کا جن میں مثیلِ مسیح بھی داخل ہے جیسا کہ آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ سے ثابت ہے (۳) عام صحابہ کے مثیلوں کا جیسا کہ آیت وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سے ثابت ہے (۴) چہارم اُن یہودیوں کے مثیلوں کا جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لکھا اور ان کو قتل کرنے کے لئے فتوے دیئے اور اُن کی ایذااور قتل کے لئے سعی کی جیسا کہ آیت غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ میں جو دُعا سکھائی گئی ہے اس سے صاف مترشح ہو رہا ہے (۵) پنجم یہودیوں کے بادشاہوں کے اُن مثیلوں کا جو اسلام میں پیدا ہوئےچنانچہ سورت اعراف آیت ۱۳۰ میں یہودیوں کے بادشاہوں کی نسبت فرمایا گیا ہے فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ اور سورت یونس آیت ۱۵ میں مسلم بادشاہوں کو کہا گیا ہے لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ یہ دو فقرے یعنی فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ جو یہودیوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے اور اُس کے مقابل پر دوسرا فقرہ یعنی لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ جو مسلمانوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے صاف بتلا رہے ہیں کہ ان دونوں قوموں کے بادشاہوں کے واقعات بھی باہم متشابہ ہوں گے۔ سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور جس طرح یہودی بادشاہوں سے قابل شرم خانہ جنگیا ں ظہور میں آئیں اور اکثر کے چال چلن بھی خراب ہو گئے یہاں تک کہ بعض اُن میں سے بدکاری شراب نوشی خونریزی اور سخت بے رحمی میں ضرب المثل ہو گئے۔ یہی طریق اکثر مسلمانوں کے بادشاہوں نے اختیار کئے۔ ہاں بعض یہودیوں کے نیک اور عادل بادشاہوں کی طرح نیک اور عادل بادشاہ بھی بنے جیسا کہ عمر بن عبد العزیز (۶) چھٹے اُن بادشاہوں کے مثیلوں کا قرآن شریف میں ذکر ہے جنہوں نے یہودیوں کے سلاطین کی بدچلنی کے وقت اُن کے ممالک پر قبضہ کیا جیسا کہ آیت غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ سے ظاہر ہوتا ہے۔
حدیثوں سے ثابت ہے کہ روم سے مراد نصاریٰ ہیں۔ اور وہ آخری زمانہ میں پھر اسلامی ممالک کے کچھ حصے دبالیں گے۔ اور اسلامی بادشاہوں کے ممالک اُن کی بدچلنیوں کے وقت میں اُسی طرح نصاریٰ کے قبضے میں آجائیں گے جیسا کہ اسرائیلی بادشاہوں کی بدچلنیوں کے وقت رومی سلطنت نے ان کا ملک دبا لیا تھا پس واضح ہو کہ یہ پیشگوئی ہمارے اس زمانہ میں پوری ہو گئی۔(ماخوذ از تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۰۶)
آئیے اب کچھ پیشگوئیوں کا مطالعہ کریں۔
سورت بنی اسرائیل کی پیشگوئیاں
سورت بنی اسرائیل کی آیت نمبر۲ میں اسرا کا کشفی واقعہ مذکور ہے سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا۔( پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے۔ تاکہ ہم اسے اپنے نشانات میں سے کچھ دکھائیں )
اس عظیم کشف میں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے دیکھا آپ کو ہجرت مدینہ کی خبر دی گئی تھی اور بیت المقدس سے مراد مسجد نبوی کی تعمیر تھی اور انبیاء کی امامت سے یہ مراد تھی کہ اب آپ کا سلسلہ عربوں سے نکل کر دوسری اقوام میں پھیلنے والا ہے اور سب انبیاء کی امتیں اسلام میں داخل ہوں گی۔اور بیت المقدس کے علاقے کی حکومت آپ کو دی جائے گی جو اس وقت عیسائیوں کے قبضے میں تھا۔چنانچہ خلافت راشدہ میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مسلمانوں نے یروشلم فتح کر لیا اور ۱۳۰۰ سال تک اس پر مسلمانوں کا قبضہ رہا۔
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی سفر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب اسلام پر تاریکی کا زمانہ آئے گا تو رسول اللہ ایک دور کی مسجد کا سفر اختیار کریں گے اور آپ کے متبع کی اطاعت سے امت محمدیہ ؐکو وہی برکات ملیں گی جو انبیاء بنی اسرائیل اور ان کے اتباع کو ملی تھیں۔(تفسیرکبیر جلد۴صفحہ۲۹۷)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:…آنحضرتﷺ کا معراج تین پہلو رکھتا ہے سیر مکانی اور سیر زمانی اور سیر لا مکانی و لا زمانی۔سیر مکانی میں یہ اشارہ ہے کہ اسلامی ملک مکہ سے بیت المقدس تک پھیلے گا اور سیر زمانی میں آپ کی تعلیمات اور تاثیرات کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ مسیح موعود کا زمانہ بھی آنحضرتﷺ کی تاثیرات سے تربیت یافتہ ہو گا جیسا کہ قرآ ن میں فرمایا ہے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور سیر لامکانی اور لا زمانی میں اعلیٰ درجہ کے قرب الی اللہ کی طرف اشارہ ہے۔(ماخوذ از خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۲۶) مسیح موعود کی مسجد بھی مسجد اقصیٰ ہے کیونکہ وہ اسلام کے ابتدائی زمانہ سے دور تر اور انتہائی زمانہ پر ہے۔ (ماخوذ از خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۱۹ )
سورت بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۵تا۹میں یہود پر آنے والے دو عذابوں کا ذکر ہے:وَقَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَلَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا۔ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰٮہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَکَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا۔ ثُمَّ رَدَدۡنَا لَکُمُ الۡکَرَّۃَ عَلَیۡہِمۡ وَاَمۡدَدۡنٰکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِیۡنَ وَجَعَلۡنٰکُمۡ اَکۡثَرَ نَفِیۡرًا۔ اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَاِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَہَا ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَلِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا۔ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَاِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَجَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا۔( اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو اس قضا سے کھول کر آگاہ کردیا تھا کہ تم ضرور زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور یقیناً ایک بڑی سرکشی کرتے ہوئے چھا جاؤگے پس جب ان دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آپہنچا، ہم نے تمہارے خلاف اپنے ایسے بندوں کو کھڑا کردیا جو سخت جنگجو تھے پس وہ بستیوں کے بیچوں بیچ تباہی مچاتے ہوئے داخل ہوگئے اور یہ پورا ہوکر رہنے والا وعدہ تھا۔ پھر ہم نے تمہیں دوبارہ ان پر غلبہ عطا کیا اور ہم نے اموال اور اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد کی اور تمہیں ہم نے ایک بہت بڑا جتھا بنا دیا۔ اگر تم اچھے اعمال بجالاؤ تو اپنی خاطر ہی اچھے اعمال بجالاؤگے۔ اور اگر تم بُرا کرو تو خود اپنے لئے ہی بُرا کرو گے۔ پس جب آخرت والا وعدہ آئے گا تب بھی یہی مقدر ہےکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور وہ مسجد میں اسی طرح داخل ہو جائیں جیسا کہ پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور تاکہ وہ جس پر غلبہ پائیں اُسے تہس نہس کردیں۔ہوسکتا ہے کہ تمہارا ربّ تم پر رحم کرے۔ اور اگر تم نے تکرار کی تو ہم بھی تکرار کریں گے۔ اور ہم نے جہنّم کافروں کو گھیر لینے والی بنائی ہے۔)
اس میں مسلمانوں کو بھی ہوشیار کیا گیا ہے کہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر بھی دو دفعہ عذاب آئے گا ایک تو منگولوں کا حملہ جس نے خلافت عباسیہ ختم کر دی اور ۱۸؍ لاکھ مسلمان صرف بغداد کے گرد ونواح میں قتل ہوئے دوسری تباہی آخری زمانہ میں مقدر ہے۔ (تفسیر کبیر جلد۴صفحہ۳۰۶)
سورت بنی اسرائیل کی آیت ۵۹میں ایک عالمگیر عذاب کا ذکر ہے وَإِنْ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا۔ ( اور کوئی بستی نہیں مگر اسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک کرنے والے ہیں یا اُسے بہت سخت عذاب دینے والے ہیں اور یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔)اور آیت ۶۱ میں بتایا گیا ہے کہ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ۔ (اور وہ خواب جو ہم نے تجھے دکھایا اُسے ہم نے نہیں بنایا مگر لوگوں کے لئے آزمائش اور اس درخت کو بھی جو قرآن میں ملعون قرار دیا گیا)
وہ عذاب اسراء والے کشف کا طبعی نتیجہ ہے کیونکہ اس عذاب سے اسلام کی ترقی وابستہ ہے۔(تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۲۷۹)اس میں شجرہ ملعونہ سے مراد یہود ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ روٴیا لوگوں کے امتحان کا موجب بنے گی اور اس رویا میں جس قوم کا خصوصی ذکر ہے یعنی یہود وہ بھی فتنہ ہیں اور ہمیشہ اسلام کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ اور آخری زمانہ میں ایک عالمگیر عذاب یہود کی وجہ سے ہو گا۔چنانچہ دونوں عالمی جنگوں میں سب سے زیادہ دخل یہود کا ہے۔(تفسیر کبیر جلد۴صفحہ۳۵۸)
سورت بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۱۰۵ہے۔وَقُلۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ لِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اسۡکُنُوا الۡاَرۡضَ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا۔ (اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موعودہ سرزمین میں سکونت اختیار کرو۔ پس جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو ہم تمہیں پھر اکٹھا کرکے لے آئیں گے۔)
اس میں وعدہ سے مراد مسلمانوں پر آنے والا دوسرا عذاب ہے جب وہ آئے گا تو ارض مقدس ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اور یہودی اس میں واپس آ جائیں گے ۔(تفسیر کبیر جلد۴صفحہ۳۹۷)تفسیر فتح البیان میں بھی ہے کہ وعدہ سے مراد مسیح موعود کا نزول ہے۔جب مسلمانوں پر دوسرے عذاب کا وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ پھر یہود کو ارض مقدس میں واپس لے آئے گا چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق اسرائیل قائم ہؤاور تمام دنیا سے یہودی اکٹھے کر کے اس ملک میں لائے گئے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ زبور میں بیان کردہ ایک پیشگوئی کے حوالہ سے سچے مسلمانوں سے ایک اور وعدہ کرتا ہےسورت انبیا ٫ کی آیت ۱۰۶ ہے وَلَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ ۔کہ ارض مقدس کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔زبور میں ہے صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ (باب ۳۷ آیت ۲۹)
حضرت مصلح موعود ؓاس سے استنباط فرماتے ہیں کہ ارض مقدس عارضی طور پر مسلمانوں کے قبضہ سے نکلا ہے پھر عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ یعنی سچے مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہوں گے۔اس کی پیشگوئی حدیث میں بھی ہےکہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئے گا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے تو وہ پتھر مسلمان سپاہی سے کہے گا میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے اس کو مار۔جب رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا تھا اس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام و نشان بھی نہیں تھا۔ (تفسیر کبیر جلد۵صفحہ ۵۷۴ تا ۵۷۶ )
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یہ لڑائی ظاہری نہیں۔تمثیلی کلام پر مشتمل ہے کیونکہ مسیح موعودؑ نے رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق مذہبی جنگوں کو ختم کرنا تھا۔فرمایا مراد یہ ہے کہ’’دجالی فتنہ جو یہود و نصاریٰ ہی کا ایک بگڑا ہوا گروہ ہے، مذہب اور خصوصاً اسلام کے خلاف چونکہ اس رنگ میں نبرد آزما ہو گا کہ دنیا کی تمام اقوام کو مذہب سے دور کرکےخدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے تعلق میں دوری پیدا کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کے لیے وہ تمام مذاہب اور خاص طور پر اسلام جو تمام مذاہب کا سردار مذہب ہے کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات اٹھائے گا اور لوگوں کے دلوں میں مذہب کے لیے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس دجالی فتنہ کے مقابلہ کے لیے اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ کے غلام صادق اور جری اللہ فی حلل الانبیاء کو بھیجے گا جو دلائل و براہین کے ساتھ مذہب کا دفاع کر ے گا اور لوگوں کے دلوں میں مذہب اور خدا تعالیٰ کے روحانی نظام کی محبت پیدا کرے گا۔ اور الٰہی تائید کے ساتھ اس دجالی فتنہ کی حقیقت لوگوں پر آشکار کرے گا۔ اور جو لوگ اس مسیح محمدی کی پیروی کریں گے اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ اسلام کے دفاع کے لیے خلافت کا ایک روحانی نظام قائم فرمائے گا جو قرآن کریم، حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ اور آپ کے روحانی فرزند کی تعلیمات کے ذریعہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کرے گا۔ اور اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں دلائل و براہین کے ساتھ اس دجالی فتنہ کا مقابلہ کرے گا۔ اس روحانی معرکہ میں جو اقوام خواہ وہ یورپ کی ہوں یا امریکہ و افریقہ کی ہوں اور بھلے ان کے آپس میں باہمی اختلافات ہوں لیکن وہ بحیثیت مجموعی اس دجالی فتنہ کا ساتھ دیں گی۔اور یہی اقوام اصل میں ’’غرقد‘‘کا درخت ہیں جو ہر جائز و ناجائز طریق سے اس دجالی فتنہ کو مدد فراہم کر کے اسے پناہ دینے کا باعث بن رہی ہیں‘‘۔(بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۶۸)، الفضل انٹر نیشنل ۱۳؍جنوری ۲۰۲۴ء)
(باقی آئندہ)