حضرت مصلح موعود ؓ

رمضان کے روزے (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۱؍جون ۱۹۲۰ء میں سے ایک انتخاب) (قسط اوّل)

حضورؓ نے اس خطبہ جمعہ میں روزہ کی فلاسفی بیان کی ہے اور روزہ میں افراط اور تفریط سے منع فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

حضور انورؓ نے تشہدوتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد آیت شریفہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرۃ:۱۸۴) تلاوت کرکے فرمایا: روزوں کی فلاسفی اور ان کی غرض اور ان کے فرض کئے جانے کے اسباب و فوائد کے متعلق بہت دفعہ ہماری جماعت کو بتایا جاتارہا ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ علمی طور پر اس مسئلہ کے متعلق بھی کچھ اَور زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ علمی طور پر روزے کی اہمیت اور اس کی فلاسفی اور اس کے فوائد پر جماعت میں ہمیشہ سے روشنی ڈالی جاتی رہی ہے مگر کسی مسئلہ کا علمی طور پر کامل ہونا کسی جماعت کے لیے کافی نہیں ہوتا جب تک عملی طور پر بھی اس میں کمال حاصل نہ کرلے کیونکہ

اگر علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو علم فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔

بلکہ بسا اوقات ایسا علم حسرت و اندوہ کا موجب ہوتا ہے۔ ایسا آدمی جس کو کوئی بیماری لاحق ہو جائے اور اس کے متعلق عام یہ خیال ہو کہ اس کا کوئی علاج نہیں مثلاً کوڑھ کا مرض ہے۔ اب تک اس بیماری کا یقینی علاج دریافت نہیں ہوا اور جس شخص کو حقیقی طور پر یہ مرض ہو جائے وہ اچھا نہیں ہوا۔ اس شخص کو صدمہ ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ صبر کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جس مرض میں مبتلا ہے وہ لاعلاج ہے لیکن برخلاف ازیں ایک دوسرا شخص جو ایک ایسے مرض میں مبتلا ہو جس کا علاج ہے مگر کسی نہ کسی وجہ سے وہ اس علاج سے محروم رہتا ہے اس کو اس محرومی کا جو صدمہ اور اندوہ ہو گا وہ پہلے شخص سے کہیں زیادہ ہو گا مثلاً کسی ماں باپ کا کوئی بچہ مر جائے ان کو صدمہ ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ اب ہمیں نہیں ملے گا۔ وہ ہمیشہ کے لئے اس کو اپنے سے جُدا سمجھتے ہیں۔ سوائے مومنین کے جو آئندہ ملنے کی توقع رکھتے ہیں، لیکن عام طور پر لوگوں کی فطرت یہی ہوتی ہے کہ وہ بچے کے متعلق یہی سمجھتے ہیں کہ یہ اب ہمیں نہیں ملے گا۔ یہ ایک سخت صدمہ ہے مگر اس کااثر چند روز میں کم ہو جائے گا

مگر ایک دوسرے ماں باپ ہیں کہ ان کا بچہ مَرا نہیں بلکہ کھویا گیا ہے تو ان کا صدمہ پہلوں سے زیادہ ہو گا کیونکہ ان کا بچہ مَرا نہیں اس کا ان کو علم ہے۔ اس لیے وہ اس کے ملنے کے بھی آرزو مند ہیں،مگر یہ علم ان کے لیے دُکھ اور صدمہ کا موجب ہوتاہے۔ ایسے لوگ جن کی اولاد گم ہو جاتی ہے اور ان کو اس کا علم نہیں ہوتا کہ مر گیا ہے وہ آرزو کیاکرتے ہیں کہ کاش اس سے تو وہ مر جاتا تو اتنا دُکھ نہ ہوتا۔

پس ایک چیز کا علم کبھی دُکھ کا بھی موجب ہوتا ہے۔

اس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر ایک شخص کو کسی کام کے متعلق علم نہ ہو اور وہ اس میں غلطی کرے تو وہ اس قدر قابلِ ملامت نہیں ہوتا جس قدر وہ شخص قابلِ ملامت ہے جس کواس کے متعلق علم ہو مگر باوجود علم کے وہ اسی غلطی کا مرتکب ہو۔ پس روزوں کے متعلق ہماری جماعت کو بہت حد تک بتا دیا گیا ہے گویا اس مسئلہ میں علمی پہلو مکمل ہے لیکن جب علم کے ساتھ عملی پہلو بھی مل جائے تو بہت مکمل ہو جائے گا۔ اگر لوگوں کو روزے کی خوبی معلوم نہ ہو اور وہ نہ رکھیں تو ان کے لیے اتنا صدمہ نہیں ہو سکتا مگر جن کو معلوم ہو اور وہ باوجود علم کے نہ رکھیں ان کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے اور وہ دوسروں کے نزدیک بھی زیادہ قابلِ ملامت ہیں۔

روزوں کا حکم بھوکا رکھنے کے لیے نہیں۔ روزے میں جس قدر خوبیاں ہیں ان کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں

مگر مختصراً جو قرآن نے دو لفظوں میں بتایا ہے یہ ہے کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ روزوں کا حکم دینے سے خدا کی یہ غرض نہیں کہ تم بھُوکے مرو اور خدا تمہاری بھوک کی حالت کا تماشہ دیکھے۔ اگر یہ غرض ہوتی تو وہ تمہارے لیے کھانے پینے کے اس قدر افراط کے ساتھ سامان کیوں پیدا کرتا؟

اس نے تمہارے کھانے اور پینے کی ہزار ہا چیزیں پیدا کی ہیں۔ پھر روزہ کا حکم دینے سے کیا مدِّنظر ہے۔ فرمایا کہ روزے کا حکم اس لیے ہے تا تم ہلاکت سے بچ جاؤ۔

پس خدا تعالیٰ نے روزے اس لیے مقرر فرمائے ہیں تاکہ تم محفوظ ہو جاؤ لیکن باوجود اس کے لوگ سُستی کرتے ہیں۔

بعض لوگ تو روزوں کے معاملہ میں افراط کی طرف گئے ہیں اور بعض تفریط کی طرف۔

جو لوگ افراط کی طرف گئے ہیں اُنہوں نے تو یہاں تک ترقی کی ہے کہ دودھ پیتے بچوں کو بھی روزے رکھوا دیئے اور ان کو دودھ نہیں پینے دیا۔ حتّٰی کہ وہ اسی حالت میں مرگئے۔

ایک دفعہ اخبار میں پڑھا تھا کہ گرمی کے دنوں میں ایک لڑکی کو اس کے والدین نے روزہ رکھوا دیا۔ جب گرمی کی شدت ہوئی تو وہ لڑکی تڑپنے لگی۔ ماں باپ نے اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ لیے کہ کہیں جاکر پانی نہ پی لے اور وہ ساتھ ساتھ روتے بھی جاتے۔آخر لڑکی زور کر کے گھڑوں کی طرف گئی اور ان پر گر کر مر گئی۔

تو جنہوں نے افراط کی اُنہوں نے تو یہاں تک کی اور جو تفریط کی طرف گئے ہیں وہ اچھے خاصے موٹے ہٹے کٹے ہوتے ہیں مگر روزہ نہیں رکھتے۔

جب پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ تکلیف ہوتی ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کب کہتے ہیں روزے اس لیے آتے ہیں کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔روزے تو آتے ہی اس لیے ہیں کہ تکلیف دی جائے اور وہ تکلیف بھی جو دی جاتی ہے اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ دیکھو ایک شخص کو بخار ہوتو اس کو کونین دی جاتی ہے اور جب کونین کھائی جائے گی تو منہ ضرور کڑوا ہو گا لیکن کونین اس لیے نہیں کھائی جاتی کہ کھانے والے کا منہ کڑوا ہو ہاں مُنہ ضرور کڑوا ہو گا مگر بخار بھی اُترجائے گا۔ اسی طرح ڈاکٹر اس لیے نشتر نہیں لگاتا کہ مریض کو دُکھ دے بلکہ اس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ آرام ہولیکن نشترسے دُکھ پہنچنا ضروری ہے۔

اسی طرح روزوں کی غرض یہ نہیں کہ تمہیں دُکھ دیا جائے لیکن اس میں شک نہیں کہ روزوں سے تکلیف ضرور ہوتی ہے۔

تو کیا وہ شخص دانا ہے جو کونین اس لیے نہ کھائے کہ وہ کڑوی ہوتی ہے اور اس پھوڑے میں جس نے اس کی زندگی تلخ کر رکھی ہو نشتر نہ لگانے دے کہ اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ کونین سے منہ کڑوا ہو گا اور نشتر سے درد ہو گا مگر نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ تکلیف دُور ہو جاوے گی۔ اس طرح روزہ بےشک تکلیف دیتا ہے لیکن یہ نشتر ہے ان ہزاروں پھوڑوں کے دُور کرنے کا جو انسان کی روح میں ہوتے ہیں۔ وہ شخص جاہل ہے جو بخار سے بھنا جاتا ہے مگر کونین اس لیے کھانے سے انکار کرتا ہے کہ منہ کڑوا ہوتا ہے یا وہ جو نشتر اس لیے نہیں لگواتا کہ اس سے تکلیف ہوتی ہے حالانکہ ایک ایسا پھوڑا اس کو نِکلا ہوا ہے جو اس کے لیے ایک عذاب ہے۔ کونین کڑوی ہے، نشتر تکلیف دہ ہے مگر کیا اتنا جتنا بخار اوروہ خطرناک پھوڑا۔ پھوڑا تو وہ ہے جو اس کو موت کی طرف لے جارہا ہے اور نشتر وہ ہے جو اس کو زندگی دیتاہے۔

پس

جو روزہ اس لیے نہیں رکھتا کہ تکلیف ہوتی ہے وہ گویا علاج سے بچنا چاہتاہے۔

یا وہ

جو روزہ اس طرح رکھتا ہے کہ اپنی زندگی کو ختم کردے۔ یہ دونوں تفریط اور افراط کی راہ کو اختیار کرتے ہیں اور نادانی کرتے ہیں۔

جو اپنی جان کو ہلاک کرتا ہے وہ شریعت کا روزہ نہیں رکھتا اور جو بھُوک یا پیاس کے ڈر سے روزہ ترک کرتا ہے وہ بھی شریعت کے منشاء کو پورا نہیں کرتا۔

اگر بھُوک اور پیاس کی تکلیف سے بری ہوتے تو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہوتے اور پھر اگر روٹی کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ صحابہؓ ہوتے مگر سب کو بھوک لگتی تھی۔ سب سے اعلیٰ نبیوں کی جماعت ہے جس کو بھوک سے بچانا چاہئے تھا مگر ہم دیکھتے ہیں نبیوں میں سے سب سے بڑا نبی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے مگر وہ بھی پیٹ پر دو دو پتھر باندھے نظر آتا ہے (بخاری کتاب المغازی باب غزْوَۃ الْخَنْدَقِ) پس اس سے معلوم ہوا کہ بھوک کی تکلیف سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر بھُوک کی تکلیف کے خیال سے روزہ ترک کرنا درست ہوتا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے روزے معاف ہوتے۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button