حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍جون ۲۰۲۳ءمیں غزوہ بدر سے قبل وقوع پذیر ہونے والے بعض سرایا اور غزوات کا ذکر فرمایا۔ اس خطبہ کا متن الفضل انٹرنیشنل۳۰؍جون ۲۰۲۳ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ خطبہ میں مذکورہ تاریخی مقامات کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
رابغ
مدینہ کے مغربی جانب ساحل سمندر کے ساتھ ایک شہر ہے۔ مدینہ سے اس کا فاصلہ تقریباً ۲۷۵؍کلومیٹر ہے۔ یہ شہر مکہ سے شام جانے والے تجارتی راستے کے قریب واقع تھا۔
عیص
کتب مغازی کے مطابق ثنیة المرّۃ کےشمال میں ۳۰؍ کلومیٹر دُور ایک جگہ پانی کا چشمہ تھا جس کے اطراف میں کیکر کے درخت کثرت سے تھے۔ اس کو ’’ذنابة العیص‘‘کہا جاتا تھا۔یہ مقام ثنیة المرة کے شمال میں ۳۰ کلومیٹر دور ہے۔ ایک قول کے مطابق یہ جگہ ینبع اور مروہ کے درمیان ساحل سمندر کے قریب واقع ہے۔ایک ہجری میں رسو ل اللہﷺ نے حضرت حمزہ ؓکی سرکردگی میں ۳۰ صحابہؓ کو بھیجا جو عیص کے اطراف میں سمندر تک گئے۔ یہاں ان کا پہلی مرتبہ کفار کے تجارتی قافلے (جس میں ابو جہل شامل تھا)سے سامنا ہوا۔ اس کو سریہ سیف البحر کہتے ہیں جس کا مطلب ہے ساحل سمندرکی مہم۔
ثنیة المرّة
یہ مقام رابغ کے مشرق میں تقریباً ۳۵؍کلومیٹر دور واقع ہے۔ایک ہجری میں رسول اللہﷺ نے حضرت عبیدہ بن حارثؓ کی قیادت میں اس کی طرف ایک سریہ بھجوایا۔یہاں ان کا قریش کے ایک قافلے سے سامنا ہوا جس کی سربراہی ابوسفیان کر رہا تھا۔
خرّار
ایک ہجری میں رسو ل اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکی قیادت میں ۲۰؍ صحابہؓ کا ایک سریہ وادی خرّار کی طرف بھجوایا تاکہ وہ قریش کے ایک قافلے کا پتا لگائیں۔ یہ جگہ رابغ کے مشرق میں ثنیة المرة کے قریب واقع ہے۔ مدینہ سے اس کا فاصلہ ۲۴۰ کلومیٹر اور رابغ سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر ہے۔ یہاں ایک چشمہ تھا۔ خرار حجاز کی ایک وادی ہے جو جحفہ کے قریب ختم ہوتی ہے۔ خرار کا لفظی مطلب ہے آواز کے ساتھ بہنےوالا پانی۔
وَدان/ابواء
غزوہ وَدان /ابواء پہلا غزوہ تھا جس میں رسول اللہﷺ بنفس نفیس شامل ہوئے۔۲؍ ہجری میں سترصحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ کفار کے تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے آپ ﷺ نکلے اور ابواء مقام تک آئے۔ مدینہ سے ابواء کا فاصلہ تقریباً ۲۲۰؍کلومیٹر ہےجبکہ مکہ سے ۲۴۹؍ کلومیٹر دور ہے۔ودان بھی ابواء کے قریب ایک جگہ ہے۔ ان کے مابین آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ابواء مقام وادی الفرع کے نواح میں ہے۔یہاں رسو ل اللہﷺ کی والدہ ماجدہ بھی مدفون ہیں۔
بواط
۲؍ ہجری میں رسول اللہﷺ دو سو سواروں کے ساتھ قریش کے ایک قافلے کے روکنے کے لیے نکلے اور رضوی پہاڑ کے قریب بواط مقام تک پہنچے مگر قافلے سے سامنا نہ ہو سکا۔یہ مقام ینبع النخل کے شمالی طرف کچھ فاصلے پر ہے اور مدینہ سے اس کا فاصلہ ایک سو پچاس کلومیٹر ہے۔معجم بلدان کے مطابق رضوی پہاڑ تہامہ کے پہاڑوں میں سے ایک ہے جو مدینہ اور ینبع شہر کے درمیان میں واقع ہیں۔ یہ پہاڑ مدینہ سے تقریباً دو سو کلومیٹر دور ہے اور ینبع سے ایک دن کی مسافت پر ہے۔بواط نام کے دو مقامات ہیں۔ایک مدینہ کے قریب اور ایک جبل رضوی کے قریب۔
عشیرة
۲؍ ہجری میں رسول اللہﷺ کو خبر ملی کہ ایک بڑا تجارتی قافلہ مکہ سے شام کی طرف روانہ ہوا ہے جس کا منافع مسلمانوں کے خلاف جنگ میں استعمال ہو گا۔ اس قافلے کو روکنے کےلیے رسول اللہﷺ ڈیڑھ سو یا دو سو صحابہؓ کے ساتھ روانہ ہوئے اور عشیرہ مقام تک پہنچے۔ مگر قافلہ اس سے ایک دو روز قبل گزرچکا تھا۔ عشیرہ مقام ینبع النخل کے نواح میں تھا۔یہ بنو مدلج کا مسکن تھا۔ مدینہ سے یہ مقام مشرقی جانب تقریباً ۱۶۰ کلومیٹر دور جبکہ ینبع شہر سے ۴۸کلومیڑ کے فاصلے پر ہے۔اسی قافلے کو واپسی پر روکنے کی کوشش میں غزوہ بدر وقوع پذیر ہوا۔
سَفَوان
معجم البلدان کے مطابق وادی سَفَوان بدر کے نواح میں واقع ہے۔ رسول اللہﷺ صحابہ کے ساتھ کرز بن جابر(جس نے مدینہ پر شب خون مارا) کا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک تشریف لائے۔ موجودہ نقشے کے مطابق بدرکے نواح میں سفوان وادی نہیں ہے۔ البتہ پرانے نقشوں میں مدینہ سے بدر کی طرف جاتے ہوئے وادی الروحاء کے بائیں جانب وادی سفوان کی تعین ہے۔واللہ اعلم
ابطح؍بطحاء
مکہ اور منیٰ کے درمیان ایک وادی کو ابطح ؍بطحاء کہا جاتا ہے۔حجة الوداع میں رسول اللہﷺ نے اس جگہ قیام بھی فرمایا۔ اب یہ مقام مکہ کا ایک حصہ بن گیا ہے۔اس کو محصّب بھی کہتے ہیں۔ مکہ سے منیٰ جانے والی سڑک کو الابطح سڑک کہا جاتا ہے۔
جبل ابو قُبَیس
مسجد حرام کے قریب ہی مکہ کا ایک مشہور پہاڑ ہے۔