احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
براہین احمدیہ کی اہمیت اور اس کے ۲۹ عظیم الشان فوائد
(گذشتہ سے پیوستہ)(۲۵)اسلام کی کمزورحالت اور اس زمانے کی زہرناک ہواسے بچانے کے لیے یہ کتاب ایک تریاق کی حیثیت رکھتی ہے۔جیساکہ حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں: ’’اے بزرگان و چراغانِ اسلام! آپ سب صاحب خوب جانتے ہوں گے کہ آج کل اشاعت دلائل حقیت اسلام کی نہایت ضرورت ہے اور تعلیم دینا اور سکھلانا براہین ثبوت اس دین متین کا اپنی اولاد اور عزیزوں کو ایسا فرض اور واجب ہوگیا ہے اور ایسا واضح الوجوب ہے کہ جس میں کسی قدر ایما کی بھی حاجت نہیں جس قدر ان دنوں میں لوگوں کے عقائد میں برہمی درہمی ہورہی ہے اور خیالات اکثر طبائع کے حالت خرابی اور ابتری میں پڑے ہوئے ہیں کسی پر پوشیدہ نہ ہوگا کیا کیا رائیں ہیں جو نکل رہی ہیں کیا کیا ہوائیں ہیں جو چل رہی ہیں۔ کیا کیا بخارات ہیں جو اٹھ رہے ہیں پس جن جن صاحبوں کو ان اندھیریوں سے جو بڑے بڑے درختوں کو جڑھ سے اُکھیڑتی جاتی ہیں کچھ خبر ہے وہ خوب سمجھتے ہوں گے جو تالیف اس کتاب کی بلا خاص ضرورت کے نہیں۔ ہر زمانہ کے باطل اعتقادات اور فاسد خیالات الگ رنگوں اور وضعوں میں ظہور پکڑتے ہیں اور خدا نے ان کے ابطال اور ازالہ کے لئے یہی علاج رکھا ہوا ہے جو اسی زمانہ میں ایسی تالیفات مہیا کردیتا ہے جو اُس کی پاک کلام سے روشنی پکڑ کر پوری پوری قوت سے ان خیالات کی مدافعت کے لئے کھڑی ہوجاتی ہیں اور معاندین کو اپنی لاجواب براہین سے ساکت اور ملزم کرتی ہیں پس ایسے انتظام سے پودہ اسلام کا ہمیشہ سرسبز اور تروتازہ اور شاداب رہتا ہے۔
اے معزز بزرگان اسلام! مجھے اس بات پر یقین کُلی ہے کہ آپ سب صاحبان پہلے سے اپنے ذاتی تجربہ اور عام واقفیت سے ان خرابیوں موجودہ زمانہ پر کہ جن کا بیان کرنا ایک درد انگیز قصہ ہے بخوبی اطلاع رکھتے ہوں گے اور جو جو فساد طبائع میں واقعہ ہو رہے ہیں اور جس طرح پر لوگ بباعث اغوا اور اضلال وسوسہ اندازوں کے بگڑتے جاتے ہیں آپ پر پوشیدہ نہ ہوگا پس یہ سارے نتیجے اسی بات کے ہیں کہ اکثر لوگ دلائل حقیت اسلام سے بے خبر ہیں اور اگر کچھ پڑھے لکھے بھی ہیں تو ایسے مکاتب اور مدارس میں کہ جہاں علوم دینیہ بالکل سکھائے نہیں جاتے اور سارا عمدہ زمانہ ان کے فہم اور ادراک اور تفکر اور تدبر کا اور اور علوم اور فنون میں کھویا جاتا ہے اور کوچہٴ دین سے محض ناآشنا رہتے ہیں پس اگران کو دلائل حقیت اسلام سے جلد تر باخبر نہ کیا جائے تو آخرکار ایسے لوگ یا تو محض دنیا کے کیڑے ہوجاتے ہیں کہ جن کو دین کی کچھ بھی پروا نہیں رہتی اور یا الحاد اور ارتداد کا لباس پہن لیتے ہیں یہ قول میرا محض قیاسی بات نہیں بڑے بڑے شرفا کے بیٹے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں جو بباعث بے خبری دینی کے اصطباغ پائے ہوئے گرجا گھروں میں بیٹھے ہیں اگر فضل عظیم پروردگار کا ناصر اور حامی اسلام کا نہ ہوتا اور وہ بذریعہ پرزور تقریرات اور تحریرات علماء اور فضلاء کے اپنے اس سچے دین کی نگہداشت نہ کرتا تو تھوڑا زمانہ نہ گزرنا پاتا جو دنیا پرست لوگوں کو اتنی خبر بھی نہ رہتی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس ملک میں پیدا ہوئے تھے بالخصوص اس پُرآشوب زمانہ میں کہ چاروں طرف خیالات فاسدہ کی کثرت پائی جاتی ہے اگر محققان دین اسلام جو بڑی مردی اور مضبوطی سے ہریک منکر اور ملحد کے ساتھ مناظرہ اور مباحثہ کررہے ہیں اپنی اس خدمت اور چاکری سے خاموش رہیں تو تھوڑی ہی مدت میں اس قدر شعار اسلام کا ناپدید ہوجائے کہ بجائے سلام مسنون کے گڈبائی اور گڈ مارننگ کی آواز سنی جائے پس ایسے وقت میں دلائل حقیت اسلام کی اشاعت میں بَدِل مشغول رہنا حقیقت میں اپنی ہی اولاد اور اپنی ہی نسل پر رحم کرنا ہے کیونکہ جب وبا کے ایام میں زہرناک ہوا چلتی ہے تو اس کی تاثیر سے ہریک کو خطرہ ہوتا ہے۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلداول صفحہ۶تا۸)
(۲۶)اس کتاب کی اہمیت اورعظمت اوراس کے قیمتی مضامین کو جواہرات کا خزانہ قراردیتے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں :’’واضح ہو کہ یہ کتاب اس عاجز نے اس عظیم الشان غرض سے تالیف کرنی شروع کی تھی کہ وہ تمام اعتراضات جو اس زمانہ میں مخالفین اپنی اپنی طرز پر اسلام اور قرآن کریم اور رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر کر رہے ہیں۔ ان سب کا ایسی عمد گی اور خوبی سے جواب دیا جائے کہ صرف اعتراضات کا ہی قلع قمع نہ ہو۔ بلکہ ہر ایک امر کو جو عیب کی صورت میں مخالف بد اندیش نے دیکھا ہے۔ ایسے محققانہ طور سے کھول کر دکھلایا جائے کہ اس کی خوبیاں اور اس کا حسن و جمال دکھائی دے۔
(۲۷) اور دوسری غرض یہ تھی کہ وہ تمام دلائل اور براہین اور حقایق اور معارف لکھے جائیں جن سے حقانیت اسلام اور صداقتِ رُسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اورحقیت قرآن کریم روزِ روشن کی طرح ثابت ہو جائے۔ اور ابتداء میں یہی خیال تھا کہ اس کتاب کی تالیفات کے لئے جس قدر معلومات اب ہمیں حاصل ہیں وہی اس کی تکمیل کے لئے کافی ہیں۔لیکن جب چار حصّے اس کتاب کے شائع ہو چکے اور اس بات پر اطلاع ہوئی کہ کس قدر بد اندیش مخالف حقیقت سے دُور ومہجور ہیں اور کیسے صد ہا رنگا رنگ کے شکوک و شبہات نے اندر ہی اندر ان کو کھا لیا ہے۔ وہ پہلا ارادہ بہت ہی نا کافی معلوم ہوا۔اور یہ بات کھل گئی کہ اس کتاب کا تالیف کرنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک ایسے زمانہ کے زیر و زبرکرنے کے لئے یہ ہماری طرف سے ایک حملہ ہے۔ جس زمانہ کے مفاسدان تمام فسادوں کے مجموعہ ہیں۔ جو پہلے اس سے متفرق طور پر وقتاً فوقتاً دنیا میں گذر چکے ہیں۔ بلکہ یقین ہو گیا کہ اگران تمام فسادوں کو جمع بھی کیا جائے تو پھر بھی موجودہ زمانہ کے مفاسدان سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اور عقلی اور نقلی ضلالتوں کا ایک ایسا طوفان چل رہا ہے جس کی نظیر صفحہٴ دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ اور جو ایسا دلوں کو ہلا رہا ہے کہ قریب ہے کہ بڑے بڑے عقل مند اس سے ٹھوکر کھاویں۔ تب ان آفات کو دیکھ کر یہ قرین مصلحت سمجھا گیا کہ اس کتاب کی تالیف میں جلدی نہ کی جائے۔ اور ان تمام مفاسد کی بیخ کنی کے لئے فکر اور عقل اور دُعا اور تضرّع سے پورا پورا کام لیا جائے اور نیز صبر سے اس بات کا انتظار کیا جائے کہ براہین کے چاروں حصّوں کے شائع ہونے کے بعد کیا کچھ مخالف لوگ لکھتے ہیں۔اور اگرچہ معلوم تھا کہ بعض جلدباز لوگ جو خریدار کتاب ہیں، وہ طرح طرح کے ظنّوں میں مبتلا ہوں گے اور اپنے چند درم کو یاد کر کے موٴلف کو بد دیانتی کی طرف منسوب کریں گے۔ چونکہ دل پر یہی غالب تھا کہ یہ کتاب رطب و یابس کا مجموعہ نہ ہو۔ بلکہ واقعی طور پر حق کی ایسی نُصرت ہو کہ اسلام کی روشنی دُنیا میں ظاہر ہوجائے۔اس لئےایسے جلد بازوں کی کچھ بھی پروا نہیں کی گئی۔اور اس بات کو خدا تعالیٰ بخوبی جا نتا ہے اور شاہد ہونے کے لئے وہی کافی ہے کہ اگر پوری تحقیق اور تدقیق کا ارادہ نہ ہوتا تو اس قدر عرصہ میں جو براہین کی تکمیل میں گذر گیا۔ ایسی بیس تیس کتابیں شائع ہو سکتی تھیں۔ مگر میری طبیعت اور میرے نُورِ فطرت نے اس بات کو قبول نہ کیا کہ صرف ظاہری طور پر کتاب کو کامل کر کے دکھلا دیا جائے۔ گو حقیقی اور واقعی کمال اس کو حاصل نہ ہو۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ اگر میں ایسا کرتا اور واقعی حقیقت کو مدنظر نہ رکھتا تو لوگ بلا شُبہ خوش ہو جاتے لیکن حقیقی راست بازی کا ہمیشہ یہ تقاضا ہوتا ہے کہ مستعجل لوگوں کی لعنت ملامت کا اندیشہ نہ کر کے واقعی خیر خواہی اور غم خواری کو مدنظر رکھا جائے……کیا یہ سچ نہیں کہ براہین کا حصہ جس قدر طبع ہوچکا وہ بھی ایک ایسا جواہرات کا ذخیرہ ہے کہ جو شخص الله جلّشانہ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو بلاشبہ اس کو اپنے پانچ یا دس روپیہ سے زیادہ قیمتی اور قابلِ قدر سمجھے گا۔ میں یقیناً یہ بات کہتا ہوں اور میرا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہے کہ جس طرح میں نے محض الله جلّشانہ کی توفیق اور فضل اور تائید سے براہین کے حصص موجودہ کی نثر اور نظم کو جو دونوں حقایق اور معارف سے بھری ہوئی ہیں، تالیف کیا ہے۔ اگر حال کے بدظن خریدار اُن ملاؤں کو جنہوں نے تکفیر کا شور مچا رکھا ہے۔ اس بات کے لئے فرمایش کریں کہ وہ اسی قدر نظم اور نثر جس میں زندگی کی رُوح ہو اور حقایق معارف بھرے ہوئے ہوں دس برس تک تیار کر کے ان کو دیں اور اسی قدر کی پچاس پچاس روپیہ قیمت لیں تو ہرگز اُن کے لئے ممکن نہ ہو گا اور مجھے الله جلّشانہ کی قسم ہے کہ جو نُور اور برکت اس کتاب کی نثر اور نظم میں مجھے معلوم ہوتی ہے۔ اگر اس کا موٴلف کوئی اور ہوتا اور میں اس کے اسی قدر کو ہزار روپیہ کی قیمت پر بھی خریدتا تو بھی مَیں اپنی قیمت کو اس کے ان معارف کے مقابل پر جو دلوں کی تاریکی کو دُور کرتی ہیں، ناچیز اور حقیر سمجھتا۔ اس بیان سے اس وقت صرف مطلب یہ ہے کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بقیہ کتاب کے دینے میں معمول سے بہت زیادہ توقف ہوا۔ لیکن بعض خریداروں کی طرف سے بھی یہ ظلم صریح ہے کہ انہوں نے اس عجیب کتاب کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور ذرا خیال نہیں کیا کہ ایسی اعلیٰ درجہ کی تالیفات میں کیا کچھ مؤ لفین کو خون جگر کھانا پڑتا ہےاور کس طرح موت کے بعد وہ زندگی حاصل کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ ایک لطیف اور آبدار شعر کے بنانے میں جو معرفت کے نُور سے بھرا ہوا ہو اور گرتے ہوئے دلوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اُوپر کو اُٹھا لیتا ہو کس قدر فضل الٰہی درکار ہے اور کس قدر وقت خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر اگر ایسے آبدار اور پُرمعارف اشعار کا ایک مجموعہ ہو تو ان کے لئے کس قدر زمانہ درکار ہو گا۔ ایسا ہی نثر کا بھی حال ہے۔ جاندار کتابیں بغیر جانفشانی کے تیار نہیں ہوتیں۔ اور متقدمین ایک ایک کتاب کی تالیف میں عمریں بسر کرتے رہے ہیں۔امام بخاری نے سولہ برس میں اپنی صحیح کو جمع کیا۔ حالانکہ صرف کام اتنا تھا کہ احادیث صحیحہ جمع کی جائیں۔ پھر جس شخص کا یہ کام ہو کہ زمانہ موجودہ کے علم طبعی علم فلسفہ کے ان امور کو نیست و نابود کرےجو ثابت شدہ صداقتیں سمجھی جاتی ہیں اور ایک معبود کی طرح پوجی جارہی ہیں اور بجائے اُن کے قرآن کا سچا اور پاک فلسفہ دُنیا میں پھیلاوے اور مخالفوں کے تمام اعتراضات کا استیصال کر کے اسلام کا زندہ مذہب ہونااور قرآن کریم کا منجانب الله ہونا اور تمام مذاہب سے بہتر اور افضل ہونا ثابت کر دیوے۔ کیا یہ تھوڑا سا کام ہے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس عاجز کی نسبت اعتراض کئے ہیں کہ ہمارا روپیہ لے کر کھا لیا۔ اور ہم کو کتاب کا بقیہ اب تک نہیں دیا۔ انہوں نے کبھی توجہ اور انصاف سے کتاب براہین احمدیہ کو پڑھانہیں ہو گا۔ اگر وہ کتاب کو پڑھتے تو اقرار کرتے کہ ہم نے براہین کا زیادہ اس سے پھل کھایا ہے۔ اور اس مال سے زیادہ مال لیا ہے جو ہم نے اپنے ہاتھ سے دیا۔ اور نیز یہ بھی سوچتے کہ اگر ایسی اعلیٰ درجہ کی تالیفوں کی تکمیل میں چند سال توقف ہو جائے تو بلاشبہ ایسا توقف ملامتوں کے لایق نہیں ہو گا۔ اور اگر ان میں انصاف ہوتا تووہ دغا باز اور بددیانت کہنے کے وقت کبھی یہ بھی سوچتے کہ اس عظیم الشان کام کا انجام دینا اور اس خوبی کے ساتھ اتمام حجت کرنا اور تمام موجودہ اعتراضات کو اُٹھانا اور تمام مذاہب پر فتحیاب ہو کر اسلام کی صداقتوں کو آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے دکھلا دینا کوئی ایسا امر نہیں ہے کہ بغیر ایک معقول مدت اور تائید الٰہی کے ہو سکے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ۴۲۸-۴۳۰،اشتہار یکم مئی ۱۸۹۳ء)
اوریہ کتاب منکرانِ دین اسلام پرایک ایسی حجتِ الٰہی ہے کہ قیامت تک اس کاجواب دیانہیں جاسکتا۔آپؑ فرماتے ہیں: ’’حقیقت میں یہ کتاب طالبانِ حق کو ایک بشارت اور منکران دین اسلام پر ایک حجت الٰہی ہے کہ جس کا جواب قیامت تک ان سے میسر نہیں آسکتا اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ ایک اشتہار بھی انعامی دس ہزار روپیہ کا شامل کیا گیا کہ تاہریک منکر اور معاند پر جو اسلام کی حقیت سے انکاری ہے اتمام حجت ہو اور اپنے باطل خیال اور جھوٹے اعتقاد پر مغرور اور فریفتہ نہ رہے۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۸۳)
اوراس کا جواب نہ لکھنے کا آپؑ کا ایسایقین تھا کہ آپؑ نے ہر مخالف کو مقابل پرآنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:’’اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں افلاطون بن جاویں بیکن کا اوتار دھاریں ارسطو کی نظر اور فکر لاویں اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آلہہ باطلہ۔‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلداول صفحہ ۵۶-۵۷)
(۲۸) براہین احمدیہ قرآن کریم کادیباچہ ہے۔اس کتاب کی ایک عظمت اور شان یہ ہے کہ قرآنی مضامین کاایساخزانہ اپنے اندرلیے ہوئے ہے کہ گویا قرآن کریم کادیباچہ ہو۔ جیساکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں: ’’براہین احمدیہ میرے نزدیک تفسیر القرآن کا دیباچہ ہے۔ تفسیر القرآن لکھتے وقت پہلے جن مضامین پر سیرکن بحث کرنی چاہئے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں شروع کیا تھا۔‘‘(فضائل القرآن نمبر ۴،انوار العلوم جلد۱۲صفحہ ۴۱۶)
ایک اَورجگہ فرماتے ہیں :’’مجھے بھی خداتعالیٰ نے خاص طور پر قرآن کریم کا علم بخشا ہے مگر جب میں حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں پڑھتا ہوں تو ان سے نئے نئے معارف اور نکات ہی حاصل ہوتے ہیں اور اگر ایک ہی عبارت کو دس دفعہ پڑھوں تو دس ہی نئے معارف حاصل ہوتے ہیں۔ براہین احمدیہ کو میں کئی مہینوں میں ختم کر سکا تھا۔ میں بڑا پڑھنے والا ہوں کئی کئی سو صفحے لگاتار پڑھ جاتا ہوں مگر براہین کو پڑھتے ہوئے اس وجہ سے اتنی دیر لگی کہ کچھ سطریں پڑھتا تو اس قدر مطالب اور نکتے ذہن میں آنے شروع ہو جاتے کہ آگے نہ پڑھ سکتا اور وہیں کتاب رکھ کر لطف اُٹھانے لگ جاتا۔‘‘ (علم حاصل کرو،انوارالعلوم جلد ۴ صفحہ ۱۴۰)
(۲۹) فرشتوں کے فیضان حاصل کرنے کاایک ذریعہ: سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ملائکۃ اللہ سے تعلق فیضان حاصل کرنے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحبؑ کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے۔ براہین احمدیہ خاص فیضانِ الٰہی کے ماتحت لکھی گئی ہے۔ اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی میں اس کو لے کر پڑھنے کے لئے بیٹھا ہوں دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکا کیونکہ اس قدر نئی نئی باتیں اور معرفت کے نکتے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہو جاتا ہے۔
تو حضرت صاحبؑ کی کتابیں بھی خاص فیضان رکھتی ہیں۔ ان کا پڑھنا بھی ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور ان کے ذریعہ نئے نئے علوم کھلتے ہیں۔ دوسری اگر کوئی کتاب پڑھو تو اتنا ہی مضمون سمجھ میں آئے گا جتنا الفاظ میں بیان کیا گیا ہو گا مگر حضرت صاحب کی کتابیں پڑھنے سے بہت زیادہ مضمون کھلتا ہے بشرطیکہ خاص شرائط کے ماتحت پڑھی جائیں۔ اس سے بھی بڑھ کر قرآ ن کریم کے پڑھنے سے معارف کھلتے ہیں اگرچہ ان شرائط کا بتانا جن کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنی چاہئیں۔ اس مضمون سے بے تعلق ہے جو میں بیان کر رہا ہوں مگر پھر بھی ایک شرط کا ذکر کر دیتا ہوں۔
اسی وقت دوسری چیز داخل ہو سکتی ہے جبکہ پہلی نکال دی جائے۔ مثلاً ایک جگہ لوگ بیٹھے ہوں تو جب تک وہ نہ نکلیں تب تک اَور آدمی نہیں آ سکتے اس کے سوا نہیں۔ پس حضرت صاحبؑ کی کوئی کتاب پڑھنے سے پہلے چاہئے کہ اپنے اندر سے سب خیالات نکال دیئے جائیں اور اپنے دماغ کو بالکل خالی کرکے پھر ان کو پڑھا جائے۔ اگر کوئی اِس طرح ان کو پڑھے گا تو بہت زیادہ اور صحیح علم حاصل ہو گا لیکن اگر اپنے کسی عقیدہ کے ماتحت رکھ کر ان کو پڑھے گا تو یہ نتیجہ نہ نکلے گا۔پس حضرت صاحبؑ کی کتابیں بالکل خالی الذہن ہو کر پڑھنی چاہئیں۔ اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اسے بہت سی برکات نمایاں طور نظر آئیں گے۔‘‘(ملائکۃ اللہ، انوار العلوم جلد۵ صفحہ۵۶۰)
مختصراً یہ کہ یہ کتاب عظیم الشان اہمیت کی حامل ہے اور ہوتی کیوں نہ صاحبِ لولاک،فخرِموجودات حضرت خاتم الانبیاءﷺ کے دربار سے جسے قبولیت کا شرف عطاہوچکاہو اس سے بڑھ کر اس کتاب اورصاحبِ کتاب کی عظمت کیاہوگی۔