اطلاعات و اعلانات
نوٹ: اعلانات صدر؍ امیر صاحب حلقہ؍جماعت کی تصدیق کے ساتھ آنا ضروری ہیں
درخواست دعا
٭… عبدالرئوف صاحب سیکرٹری وصایا و سیکرٹری سمعی و بصری جماعت احمدیہ بریڈ فورڈ نارتھ یوکے تحریر کرتے ہیں کہ میرے بیٹے واثق احمد کی بیٹی ماہا احمد جس کی عمر ۲۵؍دن ہے چیسٹ انفیکشن کی وجہ سے شدید بیمار ہے اور چند دنوں سے ہسپتال میں داخل ہے۔ آکسیجن لگی ہوئی ہے۔
احباب جماعت سے عاجزانہ اور دردمندانہ دعا کی درخواست ہے کہ مولا کریم رحم فرمائے اور جلد کامل شفا عطا فرمائے۔ آمین
سانحہ ہائے ارتحال
٭… لقمان احمد کشورصاحب انچارج شعبہ وقف نو مرکزیہ تحریر کرتے ہیں کہ نہایت افسوس سے اطلاع دی جاتی ہے کہ خاکسار کی بڑی خالہ جان ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ عزیزاحمد باجوہ صاحب (مرحوم) آف کتھوالی۳۱۲ ج ب گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ حال مقیم جرمنی بعمر۷۴؍سال مورخہ یکم مارچ ۲۰۲۴ء کو علی الصبح بقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
گذشتہ سال ماہ اگست میں ان کے اکلوتے بیٹے بابر عزیزباجوہ صاحب (مرحوم )، اچانک حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پاگئے تھے۔ مرحومہ کو اپنے اس بیٹے کی وفات کا بہت گہرا صدمہ تھا۔
مرحومہ کو وفات سے ایک ماہ قبل ہارٹ اٹیک ہوا تھا مگر فوری طبی امداد کے باعث دل نے دوبارہ کام کرنا توشروع کردیا تھا لیکن یہ تمام عرصہ وینٹی لیٹر پر انتہائی نگہداشت میں زیر علاج رہیں۔ مگرپھر اللہ کی تقدیر غالب آئی اوراسی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔
آپ کی نماز جنازہ مورخہ ۳؍مارچ کو بعد از نماز ظہروعصر ناصر باغ مسجد، گروس گراؤ جرمنی میں پڑھائی گئی۔آپ موصیہ تھیں لہٰذا آپ کی میت ربوہ پاکستان لے جائی گئی جہاں مورخہ ۶؍مارچ کو نماز عصر کے بعد مسجد مبارک میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد بہشتی مقبرہ توسیع میں تدفین عمل میں آئی۔
آپ نے لواحقین میں دو بیٹیوں (اریبہ عزیز باجوہ، عتیقہ عزیز باجوہ صاحبہ )کے علاوہ کُل ۸؍پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں سوگوار چھوڑے ہیں۔
مرحومہ بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں۔ آپ نے اپنی زندگی ایک باہمت اور حوصلہ مند خاتون کے طور پر بسر کی۔ آپ کے شوہر فوج میں ملازم ہونے کی وجہ سے مختلف شہروں میں تعینات رہتے تھے۔اس دوران گھر پراکیلے بچوں کا دھیان رکھنا اور کبھی اکیلے بچوں کو ساتھ لے کر دوردراز کا سفر کرکے اپنے میاں کے پاس جانا، سب ذمہ داریاں بہت ہمت سے نبھائیں۔گوجرہ شہر کا گھر گویا سب گاؤں والوں کے لیے ایک مہمان خانہ تھا جب بھی کوئی کسی کام سے شہر آتا تو شام تک جب واپس گاؤں کے لیے کوئی سواری میسر نہ ہوجاتی اس کا قیام وطعام یہیں ہوتا اور جو کوئی رات کو شہر پہنچتا تو رات کے قیام کے لیے وہ اس منزل کا ہی رخ کرتا۔آپ اور آپ کے بچے مہمان نوازی میں ان کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔
اس وقت اس گاؤں کی ایک نسل جو جرمنی میں اپنا مستقبل سنوار چکی ہے ان کی مرہون منت ہے کہ جس میں سے بہت ساروں کے لیے سٹوڈنٹ لائف میں ان کا گھر ایک ہاسٹل کی سی حیثیت رکھتا تھا اور ان میں سے کسی کی پھوپھو یا کسی کی خالہ ہونے کے ناطے انہیں نہ صرف ان کے گھر میں بسہولت قیام کا موقع ملا تھابلکہ ان کی عملی ٹریننگ ایک بیٹی اور ایک بہو کی ذمہ داریوں کو بھی آئندہ سنبھالنے میں بہت ممد ثابت ہوئی۔جس کی گواہی ان کی نماز جنازہ میں شامل ہونے والے اکثر احباب و خواتین نے دی ۔
ذاتی مطالعہ کا شوق تھا۔ رسائل اور جماعتی کتب کا مطالعہ کرتیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے بعض اشعار زبانی یاد تھے جو بچوں کو اکثر سناتیں۔آیت الکرسی اور درود شریف کے ساتھ کئی ادعیہ کا ورد کرتی رہتیں۔
جرمنی منتقل ہونے کے بعد اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو بھی یورپ کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ نصیحت کرتی رہتیں اور ایک اچھے احمدی مسلمان بننے کی طرف توجہ دلاتی رہتیں۔ نہ صرف بچوں کو بلکہ ان کے والدین میں بھی کبھی کسی حوالہ سے کوئی کوتاہی دیکھتیں تو توجہ دلائے بنا نہ رہتی تھیں۔بچوں اور بڑوں سب سے نہایت محبت اور شفقت کا سلوک کرتیں۔ کیا اپنے کیا بیگانے، سب ان کی ان خوبیوں کے معترف ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور جنت میں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائےاور لواحقین کا ہمیشہ حامی و ناصر ہو۔آمین
آخر پر ان تمام احباب و خواتین کا شکریہ اداکرتے ہیں اور تہ دل سے ممنون ہیں جنہوں نے اس صدمہ کی حالت میں مرحومہ کے لواحقین کو حاضر ہو کر یا بذریعہ فون تسلی دی اور ڈھارس بندھائی۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء
٭… حافظ کرامت اللہ ظفر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار کے ماموں محمد احمد صاحب ابن حاجی محمد رمضان صاحب (باڈی گارڈ حضرت مصلح موعودؓ )بعمر ۹۰؍سال مورخہ ۲۶؍ فروری ۲۰۲۴ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کو حضرت مصلح موعود ؓکی کرسی اٹھانے کی توفیق بھی ملتی رہی۔
آپ کے خاندان میں جماعت احمدیہ کانفوذ آپ کی دادی عائشہ بیگم صاحبہ آف شادیوال گجرات، خادمہ حضرت ام المومنین کے ذریعہ ہوا۔
آپ کی اپنی اولاد نہیں تھی لیکن بن باپ کے تین بچوں کی پرورش کی تاحیات ان کا خیال رکھا اور اس قابل بنایا کہ آج الحمدللہ وہ معاشرہ کا مفید حصہ ہیں۔ بڑے خوش مزاج اور بےلوث خدمت کرنے والا وجود تھا۔ساری زندگی سخت محنت والے کام کرنے کی توفیق ملی۔احمد نگر میں خلفائےکرام کی زمینوں پر بھی کام کرتے رہے۔ نیز بطور کارکن مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان سوئمنگ پول اور گلشن احمد نرسری میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ الحمد للہ آپ موصی تھے، نماز جنازہ بہشتی مقبرہ توسیع نصیر آباد میں ادا کی گئی اور تدفین کے بعد دعا ہوئی۔
احباب جماعت سےدعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے۔ آمین۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بھائی شامل ہیں۔ محمد اسلم ایاز صاحب مقیم لندن اور محمد ارشد چودھری صاحب مقیم کینیڈا۔