روزے کا فدیہ توفیق کے واسطے ہے
صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طا قت کبھی بھی نہیں رکھتے۔ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پا کر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔صرف فدیہ کا خیال کرنا اباحت کا دروازہ کھول دینا ہے۔ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں۔اس طرح سے خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ تیری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جاوے گی۔
(ملفوظات جلد ۹صفحہ۴۳۲-۴۳۳، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
…سوال کیا کہ میں نے آج تک روزہ نہیں رکھا اس کا کیا فدیہ دوں؟ فرمایا: خدا ہر ایک شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا۔وسعت کے موافق گذشتہ کا فدیہ دے دو اور آئندہ عہد کرو کہ سب روزے ضرور رکھوں گا۔
(ملفوظات جلد ۴صفحہ۳۵۰، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے۔خدا تعالیٰ تو قادرِمطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ۔ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
(ملفوظات جلد۴ صفحہ۲۵۸-۲۵۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)