متفرق مضامین

حضرت مسیح موعودؑ اور فری میسن: ظاہر داری اور جلد بازی کی ایک مثال کا احوال

(آصف محمود باسط)

جماعت احمدیہ کے بعض مخالف سوال اٹھاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب کے انگریزی ترجمے کے سرورق پر فری میسن تنظیم کے مخصوص نشان سے مشابہ نشان کیوں کندہ ہے؟ ذیل میں اس استفسار کا تجزیہ پیش ہے۔

حصہ اول: کتاب کے اندر کیا ہے؟

۱۸۹۷ء کا سال جدید تاریخ اسلام میں خاص تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہی وہ سال تھا، جب خلافت عثمانیہ کے زوال کا آغاز ہوا۔ علامتی ہی سہی، مسلمانوں کی سیاسی عظمت اور گزرے ہوئے جاہ و جلال کی واحد یادگار ترک نوجوانوں کی انقلابی تنظیم اور نام نہاد خلیفہ کے ہاتھوں یوں اپنے انجام کو پہنچی کہ صدیوں سے قائم سلسلہ خلافت کاسربراہ محض ایک علامتی حیثیت اختیار کر کے رہ گیا۔

زمانی اعتبار سے دیکھیں تو سلطنت عثمانیہ کےاس انحطاط سے قبل برصغیرپر حکمران مغلیہ سلطنت کا زوال ہوچکا تھا۔ یہ بھی ایک مسلم طاقت تھی۔ اس کے بعدبرصغیر پاک و ہند کے مسلمان ترکی کے عثمانی بادشاہ کو مسلمانوں کی شان وشوکت کے آخری چشم و چراغ کے طور پر دیکھاکرتے تھے۔ وہ عظمت رفتہ جس کاذکر انہوں نے صرف اپنے بڑوں سے قصوں کہانیوں میں سن رکھا تھا۔

ہم یہاں مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب اور تفصیلات کی طرف نہیں جائیں گے، اورنہ ہی مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت کے اختتام کو نقطۂ زوال قرار دینے والے مورخین سے کوئی اتفاق یا اختلاف کریں گے اور نہ ہی اس وسیع و عریض مسلم سلطنت پر درانیوں اور مرہٹوں کے حملوں کے اثرات پر بات کریں گے۔ بلکہ ہم براہ راست ۱۸۵۷ء کا ذکر کریں گے جب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے لال قلعہ تک سمٹ چکے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔

یوں اب ہمارے زیر نظر قریباً چالیس سال کا عرصہ بنتا ہے جب روئے زمین پر پھیلی ہوئی دو مسلم سلطنتیں یکے بعد دیگرے شکست و ریخت کا شکار ہوکراختتام کو پہنچیں۔ مغلیہ اور عثمانیہ سلطنتوں کے ٹوٹنے کا براہ راست اثر ہندوستان اور ترکی میں رہنے والی مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد پر پڑا۔

ایک مسلم سلطنت اور خلافت اسلامیہ کے صدر مقام کے طور پر اپنی علامتی مگربے پناہ قدر وقیمت کے حامل اس خطہ کی داخلی تصویر یوں تھی کہ سلطنت عثمانیہ خانہ جنگیوں اور لڑائیوں کا گڑھ بنی ہوئی تھی۔نہ صرف آرمینیا سے تعلق رکھنے والے غیر مذہب والوں کی نسل کشی اس سلطنت کے دامن پر ایک بدصورت دھبہ تھی بلکہ اسلام کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ پر عسکری غلبہ کے لیے اپنے ہی ہم مذہبوں کے خلاف لڑی جانے والی خونریز لڑائیاں اورمسلح کارروائیاں مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات پر گہرے اور بدنما گھاؤ سے کم نہ تھیں اور جنگ و جدال، عسکری مہمات اور ظلم و ستم کے ایسے ہی واقعات نے یہ تاثر پختہ کر دیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کی سرزمین مذہبی آزادی کے لیے چنداں سازگار نہیں۔

جبکہ دوسری طرف ہندوستان پر برطانوی راج مکمل طور پر قائم اور مستحکم ہوچکا تھا، جہاں مذہبی آزادی کوتاج برطانیہ کی امتیازی شان اور پہچان کے طور پر رکھاگیا تھا۔مثلا ۱۸۵۸ًء میں جاری ہونے والے ملکہ برطانیہ کے شاہی فرمان کے ذریعہ مفتوح خطوں کے تمام مقامی باشندوں کو اپنی مرضی کے عقیدے سے وابستگی کا اعلان کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی مکمل آزادی تھی اور جس طریقہ عبادت اور مسلک کو وہ اپنے لیے پسند کریں، اس پر عمل کرنے کے لیے مکمل آزاد تھے۔گو برصغیر کے ہندو مسلم تنازعات اور فسادات نے ہندوستان کے سماجی اور مذہبی ماحول کو متاثر کیے رکھا، لیکن یہ ایک فرقہ وارانہ معاملہ تھا اور کسی فریق کو بھی ریاستی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ برطانوی راج کو ایسی فرقہ وارانہ کشیدگی سے کوئی براہِ راست مفاد حاصل ہوتاتھا یا نہیں اور کیا حکام وقت صدیوں سے اکٹھے رہنے والی ان اقوام کے باہمی ناہموار تعلقات سے سیاسی مقاصد میں مستفید ہوا کرتے تھے یا نہیں۔ مکرر عرض ہے کہ اس مختصر تجزیے میں ان پہلوؤں کا احاطہ کرنا ممکن ہے نہ مقصود۔ لیکن ہم ایک تاریخی حقیقت کے طور پر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ برطانوی راج نے ہندوستان میں بسنے والی اپنی رعایا کو مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔

اسی طرح اس تاریخی حقیقت کا انکاربھی ممکن نہیں کہ تاج برطانیہ کے تحت مسلمانوں کی تعداد ۹۸ ملین تھی جو سلطنت کی عیسائی آبادی ۵۴ ملین سے تقریباً دوگنی تھی۔اوریہی وہ مذہبی آزادی تھی جس نے برطانوی ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں طبقوں میں ہی متعدد اصلاحی تحریکوں کو ابھرنے اور پنپنے کی اجازت دی تھی۔ جہاں ہندوؤں نے برہمو سماج، سناتن دھرم اور آریہ سماج کی اصلاحی تحریکوں کو جنم لیتے اور ترقی کرتے دیکھا، وہیں ہندوستانی مسلمانوں نے علی گڑھ، بریلوی، دیوبندی، حاجی شریعت اللہ کی فرائضی تحریک، احرار اور جماعت احمدیہ کی مسلمانوں میں اصلاح وتجدید کی تحریکوں کو ابھرتے ہوئے مشاہدہ کیا۔اوران تمام تحریکوں اور فرقوں نے برطانوی راج کی طرف سے ان کو کام کرنے اور بقائے باہمی کے لیے فراہم کردہ سازگار ماحول کو تسلیم کیا،اور اکثر نے حکومت وقت کا تہ دل سے اپنے شکریہ کا برملا اظہار بھی کیا۔

علی گڑھ میں قائم ہونے والا مسلم کالج اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند کاتو وجود ہی انگریزوں کی سرپرستی اور مالی اعانت کا مرہون منت تھا۔ مولوی احمد رضا خان بریلوی نے تو برطانوی راج کے حق میں متعدد فتاویٰ بھی جاری کیے جن میں اس سلطنت کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت پرسختی سے ممانعت تھی۔

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ نے ہمیشہ حکام وقت کے وفادار رہنے کے اسلامی اصولوں کی پاسداری بھی کی اور اپنی جماعت کو بھی تلقین کی کہ وہ ملکی قوانین کا مکمل احترام اور اطاعت کرنے والے ہوں۔ اور اسی روح سے آپؑ نے اپنے قول و فعل سے مذہبی آزادی دینے پر حکومت وقت کے لیے شکرگزاری کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ آپؑ کااعتقاد تھا کہ زمین و آسمان کی بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ ہی کوزیبا ہے، اور دنیاوی حکمران محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے سونپی گئی امانت کو نبھانے والے ہیں۔ اور انہی مذہبی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے حضرت مرزا صاحبؑ اپنے زمانے کے ہندوستان کے زمینی حاکم یعنی برطانوی راج سے وفادار رہے۔

تاج برطانیہ سے وفاداری کا تعلق کیا واقعی مذہبی فریضہ تھا یا نہیں، اس اہم سوال کا جواب کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم اس ایک سوال کا جواب دیں گے جو حال ہی میں جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے اٹھایاگیا ہے۔

ملکہ برطانیہ، قیصرہ ہند کی ڈائمنڈ جوبلی

۱۸۹۷ء کے موسم گرما میں جب برطانوی سلطنت میں ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی، تب نہ تو اہل ہندوستان اس معاملہ میں پیچھے رہے اور نہ ہی ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کا جوش و خروش کچھ کم تھا۔ اخبار’’سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور‘‘ نے اس موقع پر’’محمڈنز‘‘یعنی مسلمانوں کے والہانہ جوش کے بارہ میں لکھا: ’’محمڈنز کا ایک وفدملکہ معظمہ کو ان کے دورِ حکومت کے ۶۰ویں سال کے مکمل ہونے پر مبارکباد دینے اور ایک ایڈریس پیش کرنے کے لیے آج (جمعہ کے دن) لاہور سے شملہ کے لئے روانہ ہوا تایہ وفد وائسرائے ہند کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا ایڈریس پیش کرسکے۔ لاہور شہرمیں انارکلی بازار اور میاں میر میں ڈھول پیٹا گیا، نیز بادشاہی مسجد اور مختلف علاقوں کی تمام مقامی مساجد میں بھی سب مسلمانوں نے حکومت وقت اورتمام شاہی خاندان کے لیے دعائیں کیں۔ مزیدبرآں اتوار کے دن حکومت وقت کے لئے دوبارہ دعا کے اجتماعات ہونگے اور اس دن بادشاہی مسجد میں غریبوں کے لئے پلاؤ اور زردہ بھی تقسیم کیا جائے گا۔ ‘‘(سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور۔ ۱۹؍جون ۱۸۹۷ء)

اسی اخبار نے اپنی ۱۵جون کی اشاعت میں بتایا کہ وائسرائےکی خدمت میں پیش کیے جانے والے اس ایڈریس کو نہایت خوبصورتی سے مرصع کیا گیا ہے، اور اسے ایک چھوٹے سے نقرئی بکس میں سجاکر رکھا گیا ہے۔

مورخہ ۲۷؍فروری ۱۸۹۷ء کو’’پنجاب کے محمڈنز‘‘ نواب فتح علی خان قزلباش کے گھر جمع ہوئے، وہاں ملکہ معظمہ کی جوبلی کی تقریبات کو شایان شاں طریق پر منانے کے لئے مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا۔اس اہم اور تاریخی موقع پر پیش کرنے کے لئے تیارکئے گئے ایڈریس کے مسودے میں اس ’’خوشی کے موقع پر ملکہ معظمہ کی خدمت عالیہ میں مبارکباد پیش کرنے اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘(سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور ۲ مارچ ۱۸۹۷ء)

اس وفد کا حصہ بننے کے لیے پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے بااثر افراد میں سر محمد حیات خان، ملک عمر حیات خان آف شاہ پور اور نواب ذوالفقار علی خان آف ملیرکوٹلہ کو شامل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس وفدنے شملہ جاکر وائسرائے ہند کی خدمت میں ایڈریس پیش کرنے کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کے مرکزی وفد کا حصہ بننا تھا۔

اسی اخبار نے مزید لکھا کہ مسلمان راہنماؤں اور عوام کے اس اہم اجلاس میں ملکہ معظمہ کی جوبلی کے جشن کو مستقل بنیادوں پر یادگار بنانے کے لیے متعدد تجاویز پر بھی غور کیاگیا، اور یہ طے پایا کہ طالب علموں کے لیے تعلیمی وظائف کا اجراء اس سلسلہ میں مفید رہے گا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے یہ مسلمان اپنے ایڈریس میں پیش کرنے کے لیے اس امر پر دل و جان سے متفق تھے کہ ایڈریس میں ’’ملکہ معظمہ کی صحت وسلامتی کے لئے خداتعالیٰ سے دعائیں ‘‘ کرنے کا ضرور ذکر ہونا چاہیے۔

الغرض اُس وقت کے ملکی اخبارات میں کثرت سے ایسی خبریں شائع ہوئیں،جن سے اُس وقت تمام برصغیر پاک و ہند میں ملکہ معظمہ کی جوبلی کے لئے منعقد کی گئی تقریبات میں مقامی عوام کے لیے غیر معمولی خوشی، وابستگی اور وفاداری کا اظہار ہوتا تھا،دراصل برصغیر جو بلاشبہ تاج برطانیہ کا خاص الخاص خطہ تھا، کی تمام مقامی آباد بشمول مسلمان رعایااپنی محسن ملکہ اور قیصرہ ہند کی جوبلی منانے کے لئے خوشی سے نہال ہورہی تھی۔

۲۱ سے ۲۳ جون تک ہندوستان کے طول و عرض میں منعقد ہونے والی تقریبات کو پوری سلطنت برطانیہ میں اس سے بھی زیادہ کوریج ملی۔ اخبارات ورسائل نے اس بارہ میں تفصیل سے لکھا کہ کس طرح مسلمانوں کے جلوس شہروں اور قصبوں میں مارچ کرتے ہوئے یہ اعلان عام کررہے تھے کہ یہ واقعی ’’مسلمانوں کے لئے ایک جشن کا دن تھا‘‘(سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور ۲۳ جون ۱۸۹۷ء)

اسی اخبار نے مزید لکھا کہ صرف امرتسرشہر میں ہی’’۲۰,۰۰۰ مسلمان‘‘ملکہ معظمہ کا’’ ڈائمنڈ جوبلی کے مبارک موقع پر شکریہ ادا کرنے کے لیے‘‘ جمع ہوئے۔

برصغیر کے تمام چھوٹے بڑے قصبوں اور شہروں میں مسلم عوام اور ان کے قائدین نے قراردادیں پاس کیں جن میں بتایاگیا کہ ’’صبح کی نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور ملکہ معظمہ اور اس کے تمام شاہی خاندان کے لیے دعائیں کی گئیں۔‘‘(سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور، ۷ مئی ۱۸۹۷ء)

اس موقع پر منعقد ہونے والی تقریباً تمام تقریبات اور اجلاسوں میں مسلمانوں کے راہنماؤں کو تاج برطانیہ کی تعریفیں کرتے اوریہی گن گاتے ہوئے سنا گیا کہ ’’ملکہ معظمہ کے رحم اور کرم گسترانہ کے طفیل محمدی لوگ یہاں نوع نوع کی نعمتوں سے فیض یا ب ہو رہے ہیں۔ (سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور، ۹ اپریل ۱۸۹۷ء)

قادیان دارالامان میں ڈائمنڈ جوبلی کی تقریب

جب ہندوستان کی مسلمان آبادی نے تقریباً متفقّہ طور پرملکہ معظمہ کی ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اہتمام کیا تو اظہار شکر کے اسلامی طریقے کے مطابق جماعت احمدیہ نے بھی ۲۰ سے ۲۲ جون ۱۸۹۷ءکو قادیان میں ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ مگر اس خوشی کے موقع پر دوسرے شہروں کے مسلمانوں کی طرح بینڈ باجے، گانے اور رقص کے’’جشن‘‘ جیسا کچھ بھی نہ تھا۔ اورقادیان میں جوبلی منانے کے لیے منعقدہ تقریبات کی رپورٹ کسی اور نے نہیں بلکہ خود حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ’’جلسہ احباب‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ کی شکل میں مرتب فرمائی جو روحانی خزائن کی جلد ۱۲ میں محفوظ ہے۔ اوراس جلسہ احباب کی تقریبات بھی اپنی اس روئیداد کی طرح سادگی سے پُر اوردنیاوی تکلّفات سے کوسوں دُور تھیں۔ اس روئیداد میں ’’دعائیں کرنے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے‘‘اور ضرورت مند اور مستحق افراد کو ’’کھاناکھلانے‘‘کابطور خاص ذکر ہے۔(دیکھیں صفحہ ۲۹۵)اورتاج برطانیہ کی طرف سے اپنی رعایا کو دی گئی مذہبی آزادی ہی حضرت مسیح موعودؑ کے اس شکریہ اداکرنے کا مرکزی محرک تھا۔

ایک غیرمعمولی فرق

ہندوستان کے مسلمانوں کے مختلف فرقوں، تنظیموں اور گروہوں کی طرف سے ملکہ معظمہ کی جوبلی کے موقع پر سجائے گئے جشن کے متعلق شائع شدہ اخباری رپورٹوں اور میسر معلومات کے انبار سے ایک امر ایسا ہے جو اہل قادیان کو سب سے ممتاز کرتا ہے۔ کیونکہ اس خصوصی موقع پرہر کسی نے ملکہ معظمہ کے جشن میں دنیا داروں کی طرح روایتی دھوم دھام کے ساتھ حصہ لیا، اورقریباً سب نے ہی اس موقع پر اپنی شان و شوکت، ظاہری طاقت اور دنیاوی خوشی کے اظہار کے لیے بہت کیا اور بہت کچھ اخباروں کی زینت بنا۔مگرقادیان دارالامان میں منعقدہ تقریبات ہی صرف ایک ایسا موقع تھا جہاں قیصرہ ہند، ملکہ برطانیہ کو عیسائی مذہب ترک کرکے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی: ’’اسی تقریب پر ایک کتاب شکرگزاری جناب قیصرہ ہند کے لئے تالیف کرکے اور چھاپ کراس کا نام تحفہ قیصریہ رکھا گیا اور چند جلدیں اس کی نہایت خوبصورت مجلد کرا کے ان میں سے ایک حضرت قیصرہ ہند کے حضور میں بھیجنے کے لئے بخدمت صاحب ڈپٹی کمشنر بھیجی گئی اور ایک کتاب بحضور وائسرائے گورنر جنرل کشور ہند روانہ ہوئی…‘‘(جلسۂ احباب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۸۷)

ملکہ وکٹوریہ کو بھیجی گئی اس مذکورہ بالا کتاب کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:’’اے قادر توانا!جیسا کہ ہم اس کے زیرسایہ رہ کر کئی صدموں سے بچائے گئے اس کو بھی صدمات سے بچا کہ سچی بادشاہی اور قدرت اور حکومت تیری ہی ہے۔ اے قادر توانا ہم تیری بے انتہا قدرت پر نظر کرکے ایک اور دعا کے لئے تیری جناب میں جرأت کرتے ہیں کہ ہماری محسنہ قیصرہ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پر اس کا خاتمہ کر۔ اے عجیب قدرتوں والے! اے عمیق تصرفوں والے! ایسا ہی کر۔ یا الٰہی یہ تمام دعائیں قبول فرما۔ ‘‘(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۸۹-۲۹۰)

مذاہب عالم کی ایک کانفرنس کی تجویز

اس کے علاوہ، حضرت مسیح موعودؑ نے ملکہ وکٹوریہ کو سلطنت برطانیہ کے دارالحکومت لندن شہر میں ایک بین المذاہب کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی، جہاں تمام مذاہب والے ایک دوسرے کے سامنےنیز برطانوی عوام کے سامنے اپنے عقائد پیش کر سکیں۔

آپؑ نے اپنی اس تجویز کی محرک بننے والی اپنی نیت کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی: ’’… طبعاًدلوں میں یہ جوش پیدا ہوگیا ہے کہ ہماری ملکہ معظمہ بھی خاص لندن میں ایسا جلسہ منعقد فرمائیں …یہ ضروری ہوگا کہ اس جلسہ مذاہب میں ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے دوسروں سے کچھ تعلق نہ رکھے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ جلسہ بھی ہماری ملکہ معظمہ کی طرف سے ہمیشہ کے لئے ایک روحانی یادگار ہوگا۔ اور انگلستان جس کے کانوں تک بڑی خیانتوں کے ساتھ اسلامی واقعات پہنچائے گئے ہیں ایک سچے نقشہ پر اطلاع پا جائیگا…‘‘(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۷۹-۲۸۰)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کایہ پاکیزہ کلام پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ کے لیے اسلام کا دفاع ہی اس جوبلی کے جشن کا اصل مطمح تھا، نہ دیگر لوگوں کی طرف محض اظہار تشکر یا وفاداری کا عہد۔مگر آپ کی بھیجی گئی دعوت اسلام اور بین المذاہب کانفرنس کی تجویز پرملکہ وکٹوریہ اور اس کی انتظامیہ کی طرف سے موصول ہونے کا کوئی اعتراف نہ ملنے پرحضورؑ نے ایک اور کتابچہ لکھااوراس کا نام ’’ستارہ قیصرہ‘‘ رکھا۔

آپؑ نے اپنی اس کتاب کو لکھنے کی ضرورت کی وضاحت یوں کی کہ آپؑ کی پہلی کتاب کا جواب نہیں ملا جس میں ملکہ کو دعوت ِاسلام اور سلطنت برطانیہ کے دارالحکومت میں بین المذاہب کانفرنس کی تجویز تھی۔ اس لیے اس نئی کتاب میں انہی امور کا اعادہ کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ ستارہ قیصرہ اصل میں اردو زبان میں لکھی گئی تھی، اور اس کا انگریزی میں ترجمہ’’The Star of the Empress‘‘کے عنوان سے کیا گیا تھا جو ملکہ معظمہ کے لیے بھیجی جانی تھی۔ اس انگریزی کتاب کے سرورق کی پیشانی پر متن کی پہلی سطر ہی یہ ہے:’’اردو سے ترجمہ شدہ‘‘ اور اس سے اگلی سطر یوں ہے : ’’خدا تعالیٰ کی تعریف اور تمجید ہو…‘‘ اس کتاب کے سرورق پر حضورؑ کے نام کے بعد ’’موعود مسیح‘‘ اور’’رئیس قادیان، پنجاب، ہندوستان‘‘ بھی درج ہے۔

حصہ دوم: کتاب ’’پر‘‘ کیا ہے؟

فری میسن تنظیم کے مخصوص نشان کا معمّہ

جماعت احمدیہ کے مخالفین جو ہمیشہ سے ہی مخالفت پر کمربستہ ہیں، انہوں نے حال میں جس امر پر اعتراض کرکے ایک دلچسپ صورت حال پید اکردی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس کتاب کے انگریزی ترجمہ کے سرورق پر شائع شدہ حاشیہ کے ڈیزائن کے بالکل اوپر فری میسن تنظیم کا مخصوص (یا اس سے قدرے مشابہت رکھنے والا) نشان موجود ہے۔اوراس پر یہ مخالفین سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا حضرت مسیح موعودؑ کا فری میسن تنظیم سے کوئی تعلق تھا؟

اس دلچسپ سوال کا تجزیہ کرنے اوراس معمّہ کو حل کرنے کے لیے ہم دو طریق اختیار کرتے ہیں:

اول: فری میسن کے بارے میں حضورؑ کے کیا خیالات تھے؟

دوم: انیسویں صدی میں برصغیر میں طباعت اور پرنٹنگ پریس کا کیا انتظام تھا؟

فری میسن کے بارے میں حضورؑ کے خیالات

یادرہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیر نظر کتاب ۱۸۹۹ء میں سامنے آئی، اور حضورؑ کی طرف سے فری میسن کے متعلق سب سے پہلا ذکر ۱۹۰۱ء میں یوں ملتا ہے کہ’’ہم کو کبھی کبھی خیال پیدا ہوتا تھا کہ فری میسن کی حقیقت معلوم ہو جاوے مگر کبھی توجہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ان حالات کو جو یہ(الیگزنڈر ڈوئی ) اپنے لیکچر میں بیان کرتا ہے سن کر اس الہام کی جو مجھے ہو اتھا ایک عظمت معلوم ہوتی ہے۔ اس الہام کا مضمون یہ ہے کہ ‘‘فری میسن اس کے قتل پر مسلّط نہیں کئے جائیں گے‘‘۔

اس الہام میں بھی گویا فری میسن کی حقیقت کی طرف شاید کوئی اشارہ ہو کہ وہ بعض ایسے امور میں جہاں کسی قانون سے کام نہ چلتا ہو اپنی سوسائٹی کے اثر سے کام لیتے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فری میسن کی مجلس میں ضرور بعض بڑے بڑے اہلکار اور عمائد سلطنت یہاں تک کہ بعض بڑے شاہزادے بھی داخل ہوں گے اور ان کا رعب داب ہی مانع ہوتا ہوگا کہ کوئی اس کے اسرار کھول سکے ورنہ یہ کوئی معجزہ یا کرامت تو ہے نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصالح سلطنت کے لئے کوئی ایسا مجمع ہوتا ہوگا۔‘‘(الحکم قادیان، ۱۷؍نومبر۱۹۰۱ء)

اور یہاں اس حوالہ سے تو صاف عیاں ہے کہ اس موضوع پر حضورؑکی معلومات قدرے محدود تھیں کہ فری میسن تنظیم دراصل کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟

مزید ماخذوں سے پتا چلتا ہے کہ اس واقعہ کے چھ سال بعد، آپؑ نہ صرف فری میسن تنظیم کے بارے میں بخوبی آگاہ تھے بلکہ ان کے کاموں سے سخت متنفر بھی تھے۔ کیونکہ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۷ء تک کے وقت میں فری میسن تنظیم والے خبروں میں رہنے لگے تھے یہاں تک کہ ہندوستان کے مقامی اخبارات و رسائل میں بھی ان کا تذکرہ رہنے لگا تھا اور شاید اس کی وجہ سے امیر کابل حبیب اللہ خان نے اپنے دورہ ہندوستان کے دوران فری میسن تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور اس کے نتیجے میں افغانستان میں اس کی رعایا میں بہت شور و غوغا پیدا ہوا تھا اور انہوں نے اپنے امیر کے اس فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا،کیونکہ وہ اسے واضح طور پر غیر اسلامی سمجھتے تھے۔

اخبار بدر ۳؍مارچ ۱۹۰۷ءکی ڈائری میں لکھتا ہے: امیر کابل کا ذکر تھا کہ اُس کے فری میسن ہونے کے سبب اس کی قوم اس پر ناراض ہے۔

فرمایا:’’ اِس ناراضگی میں وہ حق پر ہیں کیونکہ کوئی موحد اور سچا مسلمان فری میسن میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس کا اصل شعبہ عیسائیت ہے اور بعض مدارج کے حصول کے واسطے کھلے طور پر بپتسمہ لینا ضروری ہوتا ہے اس لئے اس میں داخل ہونا ایک ارتداد کا حکم رکھتا ہے۔‘‘

جماعت احمدیہ کے مخالفین شاید اس وجہ سے بھی اتنی جلدی یہ بات قبول کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ کا بھی فری میسن والوں سے تعلق تھا، کیونکہ اُس زمانے کے بہت سے بااثر مسلمان فری میسن بن چکے تھے۔

ہم اوپرامیر کابل حبیب اللہ خان کا ذکر کر چکے ہیں۔تفصیل کے لئے دیکھیں:(Henry McMahon, An Account of the Entry of H. M. Habibullah Khan Amir of Afghanistan into Freemasonry,London, Favil Press, 1936)

اس کے علاوہ ایک شخصیت عبد القادر الجزائری تھے،جو شمالی افریقہ میں الجزائر کے امیر اور قادری صوفی سلسلہ سے تعلق رکھنے والے ایک معروف مسلمان تھے، انہوں نے ۱۸۶۴ء میں مصر میں اسکندریہ کے لاج (Les Pyramides)میں فری میسن تنظیم کو اختیار کرلیا تھا۔تفصیل ملاحظہ ہو:Karim Wissa, Freemasonry in Egypt 1798-1921: A study in cultural and political encounters, in Bulletin British Society for Middle Eastern Studies, Vol. 16 No. 2

اسی طرح جنوبی ایشیا اور عرب دنیا کے مسلمانوں کے محبوب لیڈر جمال الدین افغانی نے فری میسن تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔اور وہ اپنے ایک خط میں اس کی تصدیق یوں کرتے ہیں کہ ’’میں ۷ اپریل ۱۸۷۶ء کو لاج میں داخل ہوا تھا…‘‘ جمال الدین افغانی نے نہ صرف لاج (Star of the East)میں اس تنظیم کا حصہ بنے بلکہ وہ مسلسل ترقیات اور مدارج کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسی لاج کے گرینڈ ماسٹر بن گئے۔

(A Albert Kudsi-Zadeh, Afghani and Freemasonry in Egypt, in Journal of the American Oriental Society, V. 92 No. 1)

شاید یوں ہو کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین جب دیکھتے ہیں ایک مسلمان خطے کا امیر، ایک مسلمان عوامی راہنما اور غیر ملکیوں کی حکمرانی کے خلاف مزاحمتی تحریک کاسرخیل، ایک قد آور مسلمان راہنمابھی بآسانی فری میسن بن سکتا ہے تووہ گمان کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے بانی بھی شاید اس دام کا شکار ہوئے ہوں۔ تعجب ہے کہ دوسرے مسلمانوں کا تذکرہ نہ ہو جن کی شمولیت فری میسن میں ثابت شدہ ہے اور اعتراض صرف اس پر کیا جائے جس پر کچھ ایسا ثابت نہیں۔

برٹش انڈیا میں پرنٹنگ پریس کا ارتقاء

جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ کتاب ستارہ قیصرہ ۱۸۹۹ء میں طبع ہوئی تھی۔اصل کتاب کے سرورق کے نیچے پرنٹ لائن یوں ہے:’’یہ رسالہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں باہتمام حکیم فضل دین صاحب مالک مطبع کے چھپ کر ۲۴ اگست ۱۸۹۹ءکو شائع ہوا۔‘‘(ستارہ قیصرہ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۰۹)

مزید برآں اس کتاب کے متن نیز کتاب کے سرورق کی تحریرکے ارد گرد پھولوں کی خوبصورت بیل ظاہر کررہی ہے کہ یہ کتاب ایک لیتھوگرافک پرنٹنگ مشین پر چھپی تھی۔جبکہ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، جو آج ہمارے زیر بحث بھی ہے ایک ٹائپوگرافک پرنٹنگ پریس پر چھپا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ اُس دور میں ٹائپوگرافک پرنٹنگ مشینوں میں کتاب شائع کرنے کے لیے مسودہ کے تمام حروف، اوقاف، نشانات حتی کہ خالی جگہوں کو بھی الگ الگ ٹکڑوں سے کندہ کیا جاتا تھا۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک نہایت محنت طلب عمل ہوتا تھا جہاں ہر ایک صفحے پر سینکڑوں الفاظ اور متعدد اوقاف کے نشانات شامل ہوں، کجا یہ کہ الفاظ کے درمیانی وقفےبھی حروف ہی کی طرح پرونے پڑتے۔

یوں کتاب کے صرف ایک صفحہ کی ٹرے پر جمنے والے الفاظ کو پرنٹنگ مشین میں مخصوص جگہ پر بچھایا جاتاتھا، اس پر سیاہی لگائی جاتی تھی اور پھر کاغذ کو ایک مضبوط رولر سے اس جگہ پر لپیٹ دیا جاتاتھا۔اور ہر ایک صفحے کے لیے جتنی نقول یا نسخے مطلوب ہونگے، اتنی بار ہی اس عمل کو دہرایا جاتا تھا۔

۱۹ویں صدی میں ہندوستان میں طباعت بطور خاص ایک ایسا شعبہ تھا جس کے لیے بڑی تعداد میں عملے کی ضرورت ہوتی تھی، جن میں حروف تراشنے والے، ان کو چھانٹنے والے، دھونے والے، سنگ تراش، سیاہی کی مقدار اور معیار طے کرنے والے اور آہنی حروف کوطباعت کے لیے مخصوص trays میں پرونے والے شامل تھے۔

اب چونکہ ان کاتب(compositor) حضرات کی ایک بھاری ذمہ داری ہوا کرتی تھی اس لیے ان کو محض مزدور نہیں بلکہ ہنرمند عملےکے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ کیونکہ انہیں زبان میں اچھی مہارت کے ساتھ ساتھ طباعت میں کسی بھی قسم کی غلطی سے بچنے کے لیے نفسِ مضمون سے متعلق بنیادی معلومات وغیرہ سے آگاہی کی بھی ضرورت ہوتی تھی، تاکہ پریس کے مالک کو کتاب شائع کروانے والے کی طرف سے ایک معقول معاوضہ مل سکے۔مبادا غیر معیاری طباعت کے باعث گاہک معاوضہ بھی نہ دے اور آئندہ کسی اور پریس کا رخ کرے۔

اس طرح کتابت جاننے والوں کو پریس کے عملےکی درجہ بندی میں سب سے اونچامقام حاصل تھا۔ اوران میں سے بھی سب سے زیادہ ہنر مندمزدوروں کو مکمل جانچ پڑتال اور اچھی طرح پرکھنے کے بعد،حکومت وقت کے سرکاری مواد کو شائع کرنے والے پریس میں ملازمت دی جاتی تھی کیونکہ سرکاری مطبوعات اورمواد سب سے زیادہ باریک بینی اور مہارت کے متقاضی تھے۔

ہندوستان میں انگریز سرکارکے بعد وہ پرنٹنگ پریس جو طباعت کے معیار کو باریکی سے ملحوظ رکھتے تھے وہ عیسائی مشنری سوسائٹیوں کی ملکیت تھے اوریہی پریس بہت بڑی تعداد میں تبلیغی مواد کوطبع کرتے۔

آخری درجہ پر مقامی پریس تھے، جو لتھوگرافک پرنٹنگ عام ہونے سے قبل ہندوستان کی مقامی زبانوں میں لیکن ٹائپوگرافیکل پرنٹنگ مشینوں کے ذریعے مواد طبع کیا کرتے۔ اس طرح وہ کاتب حضرات جو انگریز حکومت یا عیسائی مشن کے کاموں کے لیے موزوں نہیں سمجھے جاتے تھے، ان کی ملازمت کے مواقع مقامی ٹائپوگرافک پریس تک محدود ہوجاتے۔

یاد رہے کہ ایسے کڑے دور میں بھی منشی نول کشور کے پرنٹنگ پریس کا برصغیر کی مقامی زبانوں میں طباعت کا غیر معمولی معیار قائم رکھنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ اسی طرح لیتھوگرافی پریس کابھی اپنا ہی الگ ماحول تھا جہاں مقامی حروف تہجی اور حروف کی پیچیدگی کی وجہ سے زیادہ تر مقامی زبانوں کی کتب کی ہی اشاعت ہوا کرتی تھی۔

یہاں زیر بحث برصغیر کے وہ پرنٹنگ پریس ہیں، جہاں مشینی چھپائی typography کی تکنیک سےہوا کرتی۔ لیکن چونکہ یہ صنعت ابھی اپنی بالکل ابتدائی حالت میں تھی اور اس میں مالکان مناسب منافع کمانے کے لیے مزدوری سمیت تمام قسم کے اخراجات پر گہری نظر رکھتے تھے۔

اور ایسے حالات میں کاتب حضرات بعض مخصوص سانچے (templates) پہلے سے ہی تیار کرکے رکھتے تھے،جن میں خاص طور پر کتاب کےٹائٹل/ سرورق کے لیے پھولوں کے ڈیزائنوں والے نمونے پہلے سے ہی تیار رکھے جاتے تھے، اور گاہک کی کتاب کے مسودہ کے عنوان اور الفاظ کو کاتبوں کے ذریعہ خالی جگہوں پر ترتیب دے دیا جاتاتھا۔ یوں مالکان پریس کو طباعت کے وقت، مزدوری اور اجرت میں بہت سی بچت ہوجاتی۔

ہندوستان میں پریس کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کاتبوں یا compositors کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وہ جو مقررہ اجرت پر رکھے جاتے۔ دوسرے وہ جو وقت کے حساب سے اجرت وصول کرتے۔ مقررہ اجرت ۳۶ روپے ماہوار تھی تو وقت کے حساب سے اجرت لینے والا اوسطاً ۴۴؍روپے تک کمالیتا تھا۔ مالکان وقت کے حساب سے اجرت دینا پسند کرتے تا کہ جب کام نہ ہو تو بے وجہ اجرتیں ادا نہ کرنا پڑیں۔ اور یوں وقت بچانا مالکان کی اولین ترجیح ٹھہرتا۔

پیش کردہ حقائق اور اُس زمانہ کی طباعت کے انداز، معیار اور حالات کا نقشہ ظاہر کررہا ہے کہ زیر بحث کتاب کے ٹائٹل پیج پر فری میسن کا نشان کسی پہلے سانچے کے حصے کے طور پر ہی آیا اور اس کتاب میں شامل ہوگیا۔ جو یقیناً پریس کے عملہ کی اپنی کوشش، محنت اور اجرت کو بچانے کے لیےبغیر دیکھےاور غور کیے دوبارہ استعمال کرلیا گیا۔

اختتامیہ

ہمارے اس مضمون کے مندرجہ بالا نتیجے پر پہنچنے کے لیے درج ذیل حقائق کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے:

اول:اس کتاب کی اشاعت کے دو سال بعد یعنی ۱۹۰۱ء تک حضورؑ کی فری میسن کے موضوع پر معلومات قدرے محدود تھیں۔

دوم:آپؑ نے ۱۹۰۷ءمیں یعنی اس کتاب اوراس کے ٹائٹل کی اشاعت کے آٹھ سال بعد فری میسن تنظیم کی شدید مذمت فرمائی اوراپنے بیان میں واضح طور پرفری میسن تنظیم کے ساتھ شامل ہونے والوں کے فعل کو ارتداد قرار دیا۔

سوم:اگر بفرض محال آپؑ فری میسن ہوتے توآپ کو یا آپ کی جماعت کو مسلمان ممالک میں جارحانہ مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا جو ہنوز جاری ہے۔

مزید برآں آخر پرایسے معترضین سے بھی چند سوالات ہیں:

اول: کیا فری میسن اپنی وابستگی کو اپنے سینہ پر سجائے پھرتے ہیں تا سب کو معلوم ہو سکے کہ وہ کون ہیں؟

دوم: اگر کوئی فری میسن اپنے فرماں روا کو کچھ بتانا چاہتا ہے، تو یہ کام وہ ڈھکے چھپے اشاروں میں کرے گا یا اس کا لاج یہ کام سرانجام دے گا؟

سوم: اگر کسی فری میسن کی اپنی تنظیم اور اس کے مقاصد سے اتنی گہری وابستگی ہے اور وہ عوام کے سامنے اس کے اظہار کی اتنی شدید خواہش رکھتا ہے، تو وہ اپنی تنظیم کا مخصوص نشان اپنی تمام خط و کتابت پر یا اپنی تمام تصنیفات کے ٹائٹل /سرورق پر کیوں نہیں لگارہا ؟

(Al Hakam 18 March 2024)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button