رمضان کے روزے (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۱؍جون ۱۹۲۰ء میں سے ایک انتخاب) (قسط دوم۔ آخری)
(گذشتہ سے پیوستہ)بعض نادان جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت جاہل ہوتے ہیں کہتے ہیں روزے اُس زمانہ کے لئے تھے جبکہ لوگ جاہل تھے اور وحشت ان پر غالب تھی اور وہ نفسانی جوشوں پر قابو پائے ہوئے نہ تھے مگر آجکل کے لوگ علمی طور پر بہت ترقی کر گئے ہیں اور ہم ایسی ترقی پاگئے ہیں کہ ہمیں ڈنڈے اور مشقتوں کے ذریعہ خدا کے جلال کا قائل نہیں کیا جاسکتا مگر ایسے لوگ نہیں جانتے کہ
اگر عملی جدوجہد کے بغیر روحانی مراتب حاصل ہو سکتے تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے یہ جدوجہد ضروری نہ ہوتی
کیونکہ ان سے زیادہ کون اپنے نفس پر قابو پانے والا ہو سکتا ہے اور علم میں کون آپ کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر باوجود اس کے آپؐ ریاضت کرتے تھے۔ پھر جن کو وحشی اور نا تعلیم یافتہ کہا جاتا ہے ان کی قُربانیوں کا یہ لوگ کیا مقابلہ کر سکتے ہیں جو ان کو وحشی کہتے ہیں۔ یہ لوگ جو بڑے سے بڑا آئیڈیل پیش کر سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ قوم اور مُلک کی خاطر اپنی ذات کو قُربان کر سکتے ہوں۔ اگر ہم اسی کو مدِّنظر رکھیں اور صحابہؓ کے جوش اور قُربانیوں کو مذہبی نہ سمجھیں تو کیا اس کا بھی انکار کر دیا جائے گا کہ ان لوگوں نے اپنی قوم اور مُلک کے لئے جو جو قُربانیاں کیں ان کا عُشرعشیر بھی یہ لوگ نہیں کر سکتے۔ پس یہ تفریط کا پہلو ہے اور یہ نادانی کے خیالات ہیں۔
خدا کے احکام کو حیلے بہانوں سے ٹلانے کی کوشش نہ کرو۔ شریعتِ اسلام لعنت نہیں ہے بلکہ رحمت ہے۔ یہ فضل کی بارش ہے۔ فضلوں کی بارش سے نادان کے سوا کوئی نہیں بھاگتا۔
کیا وہ زمیندار دانا ہے جو وقت پر ہونے والی بارش سے اپنے کھیت کو بچانے کی کوشش کرے بلکہ وہ تو کوشش کرے گا کہ تمام پانی کو جمع کرے اور اگر اس میں دینداری اور تقویٰ نہ ہو تو وہ یہاں تک منصوبہ کرتا ہے کہ لوگوں کے کھیتوں کا پانی بھی اپنے کھیت ہی میں ڈال لے۔ وہ پانی کی حفاظت کے لئے منڈیریں بناتا اور سَوسَو جتن کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام خدا کا فضل ہے۔
جو شخص اس کے احکام کی تعمیل سے بچنا چاہتا ہے وہ خدا کے ان فضلوں والی شریعت کو لعنت قرار دیتا ہے
ورنہ کیا وجہ ہے کہ اگر وہ شریعت کو لعنت نہیں سمجھتا تو اس سے بچنے کے لئے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔
ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ خوب سمجھ لے کہ شریعت خدا کی رحمت ہے۔ اس کے احکام کو ٹلانے کے لئے بہانے تلاش کرنا جائز نہیں۔
وہ شخص جو شریعت کے احکام کو ٹلانا چاہتا ہے ہلاکت کو بُلاتا ہے اور گنہگار ہوتا ہے۔ گرمی کی شدّت کے باعث جو روزہ چھوڑتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اس سے بہت زیادہ تیز ہے۔ جب لوگوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں جہاد سے بچنے کے لئے گرمی کا بہانہ تلاش کیا تو خدا نے فرمایا کہ قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا(التوبۃ ۸۱)
یہ گرمیاں اتنی گرم نہیں جتنی نارِ جہنم تیز گرم ہے۔ یہ دُنیا کی گرمیاں اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔
پس مَیں اپنی جماعت کو خاص نصیحت کرتا ہوں اور عورتوں کو خصوصاً اور مردوں میں سے ان کو جو حضرت صاحب کے ان احکام کو دیکھتے ہیں جو آپ نے افراط کو توڑنے کے لئے دیئے۔ لوگوں نے روزوں کی غرض کو ضائع کر دیا تھا۔ جب اُنہوں نے اس طرح روزے رکھنے شروع کر دیئے کہ جان نِکل جائے مگر روزہ نہ جائے تو
روزہ چونکہ انسان کی ہلاکت کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ لوگوں کی نجات کا موجب اور زندگی کا باعث ہو
اس لئے اس افراط کے خلاف حضرت اقدس نے فرمایا ہے جو کچھ فرمایا اگر حضرت صاحب کا یہ منشاء ہوتا کہ یونہی عذر پر روزہ ترک کر دینا چاہئے تو آپ اس پر عمل بھی کرتے۔ آپ نے ٧۴ سال کی عمر پائی۔ اخیر عمر کے دنوں میں بوجہ بیماریوں کی کثرت کے آپ کے روزوں میں کمی آئی ورنہ آپ کے روزے نہیں جاتے تھے اور آپ کی غذا اس قدر کم ہوتی تھی کہ دوسرا آدمی دن بھر اس پر گزارہ نہیں کرسکتا۔ حالانکہ آپ کی تعلیم کا یہ منشاء ہوتا تو جتنا کام آپ کو اکیلے کرنا پڑتا تھا اور اکیلے آپ کو ساری دُنیا کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ آپ روزے نہ رکھتے لیکن باوجود اس شدّتِ کار اور اس کمزور صحت کے آپ روزے رکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ آپ کے روزے نہ جائیں۔
یہ حکم معمولی نہیں مگر افسوس ہے کہ افراط سے نِکل کر کچھ لوگ تفریط کی طرف چلے گئے ہیں۔
معمولی عُذر پر روزہ ترک کر دیتے ہیں خصوصاً عورتیں معمولی معمولی عُذرات پر روزے چھوڑ دیتی ہیں۔
پھر جو شخص روزہ نہیں رکھتا اور لوگوں کے سامنے کھاتا پیتا ہے تو یہ زیادہ گنہگار ہے کیونکہ اس کے اس عمل سے لوگوں کو ترکِ روزہ کی تحریک ہوتی ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو وہ چھپاتا ہے کہ پکڑا نہ جائے لیکن
جو روزہ ترک کرتا ہے اور دوسروں کے سامنے کھاتا پیتا ہے وہ دوسروں کوتحریک کرتا ہے کہ روزہ چھوڑ دیں۔
ایسا آدمی شعائراﷲ کی ہتک کرتا ہے۔ پس ایسے گناہ جودوسروں کو نظر آتے اور دوسروں کے لئے تحریک کا موجب ہوتے ہیں زیادہ سزا کے مستوجب ہوتے ہیں جو لوگ شریعت کے احکام کو اس طرح ٹلاتے ہیں وہ گویا ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام ساری دُنیا اور سب زمانوں کے لئے نہیں اور یہ اسلام پر ایسا حملہ ہے جس کا گناہ بہت بڑاگناہ ہے۔
یہ زمانہ رُوحانی ترقیات کا ہے اور روحانی ترقیات میں روزے ضروری ہیں۔ اس لئے ان کو مت چھوڑو۔
دُعاؤں کے ذریعہ قُرب تلاش کرو۔ ہاں جو بیمار ہیں، جن کو عُرف میں بیمار کہتے ہیں اور جو سفر میں ہو ان کے لئے بھی روزے معاف نہیں، وہ دوسرے ایام میں رکھیں۔ اگر تندرست سے تندرست شخص بھی طبیب کے پاس جائے تو وہ کوئی نہ کوئی تلاش کر کے مرض بتائے گا۔ ایسا مرض مرض نہیں بلکہ عُرف میں جس کو مرض کہتے ہیں وہ مرض ہوتا ہے اور اسی طرح سفر بھی وہ جواتفاقی طور پر پیش آئے لیکن جو شخص تاجر ہے یا جو ملازم ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ دورہ کرے یہ سفر نہیں۔
سفر اتفاقی سفر کو کہتے ہیں جس کو مستقل سفر پیش رہے وہ مسافر نہیں۔
جیسے پھیری والا۔ زمیندار کہتے ہیں کہ ہمیں کام سخت کرنا پڑتا ہے، ہم نہیں روزہ رکھ سکتے۔ سو ان کو معلوم ہو کہ ان کا جو کام ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لئے جسمانی تکلیف کم ہو گئی ہے۔ اس سخت کام کے باعث ان کے پٹھوں کی حس کم ہو گئی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ ایک دماغی کام کرنے والا اگر آپریشن کرائے تو اس کے لئے کلورافارم کی ضرورت ہوتی ہے اور زمیندار کہہ دیتا ہے کہ کلورافارم کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ کہ دماغی کام کرنے والے کی حس تیز ہے اور اس کی کمزور۔ پس دماغی کام کرنے والے جو ہیں وہ اس محنت کو برداشت نہیں کر سکتے اس لئے دھوپ سے بچ کر کام کرتے ہیں اور زمینداروں کو جسمانی کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے اگر وہ روزہ رکھیں تو ان کی سختی پسند حالت کے باعث ان کے لئے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔ پڑھنے والا پڑھ پڑھ کر کمزور ہو گیا ہے اور زمیندار مضبوط بنایا گیا ہے۔اس لئے اس قدرت کے سامان کے ماتحت زمینداروں کے لئے بھی روزہ کچھ مُشکل نہیں۔
مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توجہ کریں کہ نماز تو ایک ایسا حُکم ہے جو کسی حالت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکتا لیکن روزہ ایسا ہے کہ بیماری اور سفر میں ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا رکھنا ایمان کے حصول اور تقویٰ کے لئے ضروری ہے۔ جو لوگ ٹلاتے ہیں وہ اسلام کو دوسروں کی نظروں میں حقیر کرتے ہیں اور عملی طور پر وہ خود بھی گویا حقارت سے دیکھتے ہیں۔ پس اس سے بچو۔
یاد رکھو جو اسلام کے احکام کی حقارت کرتا ہے وہ اسلام کو چھوڑتا ہے اور اس نعمت کو ردّ کرتا ہے جوخدا کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔
(الفضل ۱۷؍جون ۱۹۲۰ء)