ممانعتِ قتال پر مخالفینِ احمدیت کا اعتراض
جماعت احمدیہ کے مخالفین حضرت مسیح موعودؑ پر کئی قسم کےبے بنیاد الزامات لگاتے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپؑ نے قتال فی سبیل اللہ کو منسوخ فرمایا ہے۔ جبکہ یہ امت کے لیے ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور آپؑ کے اس موقف کی وجوہات یہ پیش کرتے ہیں کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ کے بعد انگریز حکومت مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے خوف زدہ تھی اور کسی طرح اس جذبہ کو دبانا چاہتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے ایک سکیم تیار کی اور حضرت مسیح موعودؑ کو ۱۸۵۷ءکے تینتیس سال کے بعد اس دعویٰ کے ساتھ کھڑا کیا کہ آپ ہی وہ موعود مسیح ہیں جن کی آمد کی خبر آنحضور ﷺ نے دی تھی اور اس طرح مسلمانوں میں آپ کا پیغام پھیلایا گیا جس میں منسوخی قتال کا حکم بھی شامل ہے۔
مخالفین احمدیت کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ ایک الزام مفروضے کی بنیاد پر عائد کرتے ہیں اور پھر اس کی دلیل کے طور پرمزید ایک مفروضہ گھڑتے ہیں۔ چنانچہ ساری عمارت ہی جھوٹ اور مفروضوں پر کھڑی کی جارہی ہے۔
اس الزام کو ثابت کرنے کےلیے ان کی دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑنے خود اپنی تحریر ات میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ وہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہیں۔ چنانچہ جب اقرار کر لیا تو پھر اس میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
اب ان بوالعجب مخالفین سے کوئی پوچھے کہ اگر ایک ایسی خفیہ تحریک چلائی گئی جس میں ایک شخص کو مسیحیت کے مقام پر فائز کیا گیا تاکہ اس ترکیب سے مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم کیا جائے تو پھر ایسے خفیہ ایجنٹ کو بقلم خود اس اعلان کی کیا ضرورت تھی کہ وہ خود کو انگریز کا خود کاشتہ پودا قرار دے کر خود اس سکیم کو بیچ چوراہے کے پھوڑ دے اور اگر ایسی بات کی گئی تھی تو انگریز کو تو فوراً اس شخص سے مسیحیت کے مقام سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنا ضروری ہوجاتا۔
دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ دعویٰ تو ہوگیا مگر اس بات کو کس طرح یقینی بنایا جاسکتا تھا کہ عامۃ الناس اس کی پیروی بھی کریں۔ ماننا یا نہ ماننا تو عوام کی مرضی تھی اور آئندہ ہونے والے واقعات نے بھی یہی ثابت کیا کہ کثیر تعداد لوگوں نے اس دعویٰ کا نہ صرف انکار کردیا بلکہ پر زور مخالفت شروع کردی۔
تاریخی حقائق اس حوالہ سے ایک دوسرا منظر پیش کرتے ہیں۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے جو قادیان جیسے گمنام قصبہ میں رہتے تھے جس کو برصغیر میں کوئی نہیں جانتا تھا۔۱۸۸۰ءمیں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ایک کتاب براہین احمدیہ تصنیف فرمائی اور اس میں تمام دیگر مذاہب اور خصوصیت سے عیسائی پادریوں کو چیلنج دیا کہ اگر وہ اس کا جواب لکھیں تو انہیں دس ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔ عیسائی پادری ان دنوں برطانوی حکومت کے زیر سایہ تمام برصغیر میں تبلیغ میں بہت سرگرم تھے اور امید کرتے تھے کہ جلد ہی برصغیر کی اکثر آبادی عیسائیت کی گود میں آگرے گی۔
حضور ؑکی اس کتاب کی اشاعت سے ایک طرف تو دیگر مذاہب میں کھلبلی مچ گئی تو دوسری طرف تعلیم یافتہ مسلمان طبقہ میں اس کا خیر مقدم کیا گیا اور مسلمانوں کو ایک نیا اعتماد حاصل ہوا۔
اس کتاب میں درحقیقت حضرت عیسیٰؑ کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔ جبکہ عیسائی برصغیر میں عیسائیت کی تبلیغ ہی اس بنیاد پر کررہے تھے کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰؑ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں نازل ہوں گے دراصل حضرت عیسیٰؑ کی فوقیت ظاہر کرتا ہے اور اس حربہ سے وہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کر کے عیسائیت کے دام میں پھنسا رہے تھے۔۱۸۹۱ء میں جب حضرت مسیح موعود ؑنے یہ کھلا دعویٰ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ ؑوفات پاچکے ہیں اور آپؑ ان کے رنگ میں رنگین ہو کر آئے ہیں تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت عیسائی پادریوں کے ساتھ ساتھ برصغیر کے مسلمان علماء نے کی اور آپؑ پر کفر کا فتویٰ عائد کردیا گیا۔
ایک غلط فہمی جو مخالفین آج تک پھیلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ احمدیوں نے پہلے کفر کافتویٰ عامۃ المسلمین پر لگایا تھا۔ اور چونکہ ایک حدیث میں ہے کہ جو کسی مسلمان پر کفر کافتویٰ لگاتا ہے اگر وہ وجہ اس میں نہ پائی جائے تو یہ فتویٰ لوٹ کر فتویٰ لگانے والے پر پڑتا ہے۔ اس کے مطابق احمدی عامۃ المسلمین پر لگائے جانے والے کفر کے فتویٰ کے باعث خود کافر ہوچکے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم احمدیوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔
۱۸۹۱ء میں جب حضرت مسیح موعود ؑکے اس دعویٰ کے نتیجے میں شدید مخالفت شروع ہوگئی اور سوال یہ اٹھایا گیا کہ آپؑ نے حضرت عیسیؑ کو وفات یافتہ قرار دے کر کفر کا ارتکاب کیا ہے اور اس حوالہ سے مناظروں کا سلسلہ شروع ہواتو چونکہ حضور ؑکی مدلل بحث کے سامنے کوئی مخالف ٹھہر نہیں سکا۔ اس لیے عامیانہ مخالفت شروع کردی گئی جس میں جھوٹ، الزام تراشی، گالیاں اور واجب القتل ہونے کے فتوے دیے جانے لگے۔
۱۸۹۱ءمیں اہالیانِ لاہور نے علماء کو ایک خط لکھا جس میں درخواست کی گئی کہ “حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے جو دعاوی حضرت مسیح علی نبینا و علیہ الصلوٰة والسلام کی موت اور خود مسیح موعودؑہونے کی نسبت کئے ہیں آپ سے مخفی نہیں۔ ان کے دعاوی کی اشاعت اور ہمارے ائمہ دین کی خاموشی نے مسلمانوں کو جس تردد اور اضطراب میں ڈال دیا ہے وہ بھی محتاج بیان نہیں اگرچہ جمہور علماء موجود کی بے سود مخالفت اور خود مسلمانوں کے پرانے عقیدے نے مرزا صاحب کے دعاوی کا اثر عام طور پر پھیلنے نہیں دیا مگر تاہم اس امر کے بیان کرنے کی بلا خوف تردید جراٴت کی جاتی ہے کہ اہل اسلام کے قدیمی اعتقاد نسبت حیات و نزول عیسیٰ ؑ ابن مریم میں بڑا بھاری تزلزل واقع ہوگیا ہے۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۱۲۶)
اس وقت تک انگریز حکومت کو مسلمان علماء کی حمایت حاصل تھی اور جذبہ جہاد کے کار فرما ہونے کا دور دور تک خطرہ نہیں تھا۔ بلکہ بعض مسلمان اکابرین نے اس کتاب کی اس بنا پر مذمت کی کہ اس سے انگریز حکومت کے ناراض ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خان والیٔ بھوپال جو اہل حدیث کے بڑے عالم تھے ان کو جب یہ کتاب بھجوائی گئی تو انہوں نے اس تبصرے کے ساتھ کہ “دینی مباحثات کی کتابوں کا خرید نا یا انہیں کچھ مدد دینا خلافِ منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے۔ اس لیے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں”۔کتاب چاک کر کے واپس کردی۔
چنانچہ ان حالات میں یہ کتاب شائع ہوئی جس سے عیسائیت کے تاروپود بکھر گئے۔ اب یہ ایک محیر العقول الزام ہے کہ انگریز نے حضرت مسیح موعود ؑکو اپنے مقاصد کے لیے مسیحیت کے مقام پر فائز کیا۔ جبکہ آپ کی کتاب ان کے مذہب کے ہی پرزے اڑا رہی تھی۔
جہاں تک ۱۸۵۷ءکی جنگ کا تعلق ہے تو اس زمانہ کے بہت سے اکابرین نے جن میں سرسید احمد خان بھی شامل ہیں اسے بغاوت قرار دیا تھا نہ کہ جہاد۔
اس وقت ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کنٹرول تھا۔ حتیٰ کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بھی ان کے وظیفہ خوارتھے۔ ان کی فوج میں بنگال اور اودھ سے تعلق رکھنے والے سپاہی تھے۔ جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ کمپنی کی بعض پالیسیوں کے باعث ان سپاہیوں میں بے چینی پیدا ہونا شروع ہوئی اور بعض دیگر معاملات نے اس بے چینی کو ہوادی۔ نتیجہً اس فوج نے اپنے انگریز افسران کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ ان میں ایک نمایاں کردار رانی آف جھانسی کا بھی تھا۔ یاد رہے کہ وہ ہندو تھیں اور ۱۸۵۸ءتک انہوں نے انگریز فوجوں کی ناک میں دم کیے رکھا تھا۔
آجکل ہمارے علماء اس جنگ کو جہاد قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلامی جہاد میں مشرکین کو شامل نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک مثال جنگِ بدر کے دوران جب ایک مشرک نے اپنا بدلہ لینے کے لیے آنحضور ﷺ سے درخواست کی کہ اسے بھی اسلامی لشکر میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے تو آنحضور ﷺ نے انکار کردیا۔ جب تک وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان نہ ہوگیا۔
اس جنگ میں انگریزوں کی تائید میں لڑنے والوں میں بہت سے مسلمان شامل تھے۔ خصوصاً پنجابی مسلمان جو چند سال قبل سکھوں کے دورِ استبداد سے آزاد ہوئے تھے اور انگریزوں کی عملداری میں مطمئن تھے۔ آجکل بعض محققین طنزیہ طور پر انہیں انگریزوں کا غلام کہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے لیے انگریزی حکومت سکھوں کی حکومت کے بالمقابل امن، اطمینان اور خوشحالی کا پیغام لائی تھی۔
اس جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کا رویہ بھی جہاد جیسے مقدس فریضے میں شامل ہونے والے مومنین سے بالکل مختلف تھا بلکہ خاص دہلی میں بھی ان کا رویہ کسی طرح بھی قابلِ تعریف نہیں تھا۔ خود دہلی کی جامع مسجد میں کئی روز تک نماز نہیں ہوسکی اورشر فائے دہلی شدید افراتفری کا شکار تھے۔ تو یہ تو۱۸۵۷ء کی جنگ کے حالات تھے جنہیں سر سید احمد خان نے اسباب بغاوت ہند کے نام سے قلم بند کیا ہے۔ اور جسے آجکل کے علماء جہاد قرار دیتے ہیں۔
دوسری طرف جماعت احمدیہ کی ترقی اور وسعت دنیا میں نہ صرف پھیلتی رہی بلکہ اب تو دو صد ممالک میں اس کی جڑیں مضبوط ہوچکی ہیں۔ اگر یہ تحریک انگریز کے ایماء پر کھڑی کی گئی تھی تو اب بیسویں صدی میں جب مغربی طاقتیں روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے جہاد کی فضیلت پر زور دے رہی تھیں جس کے نتیجے میں بہت سی اسلامی سیاسی جماعتوں نے امریکی امداد سے دونوں ہاتھ رنگے۔جماعت احمدیہ اس وقت بھی حضرت مسیح موعود ؑکی اس تعلیم پر کار بند تھی کہ “دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال” حضور ؑنے بار بار اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اب مذہب کے دفاع کے لیے جنگوں کا زمانہ ختم ہوگیا۔ کیونکہ اب اسلام پرحملہ تلوارسے نہیں بلکہ قلم سےہے اور جہاد کی صورت اب قلمی اور مالی جہاد اختیار کرچکی ہے۔ جہاد بند نہیں ہوا بلکہ اس کی حیثیت تبدیل ہوگئی ہے۔
فاعتبر وا!