بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۷۳)
٭…سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۵۷ میں ’’یُصَلُّوۡنَ‘‘ کی وضاحت
٭… جنت میں داخلہ کے لیے چندہ دینا اور دوسروں کو بتانا، جماعت سے تعلق رکھنا ضروری ہے؟
٭…عورت کو مارنے کا کیا حکم ہے؟
سوال: جرمنی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۷ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا کا اکثر لوگ یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس کی وضاحت وہ یُصَلُّوۡنَ سے کرتے ہیں کہ یہ لفظ صلوٰۃ سے نکلا ہے جس کے معنی نماز پڑھنے کے ہیں۔ لیکن یہ تشریح تو درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نماز نہیں پڑھتا۔ حضور انور کی خدمت میں اس آیت کی وضاحت فرمانے کی درخواست ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۵؍دسمبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: دراصل آپ کا یہ سوال عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر ہے۔ عربی زبانی بہت وسیع زبان ہے جس میں ایک لفظ کے کئی کئی معانی ہیں اور ہر معنی اس لفظ کے سیاق و سباق کے ساتھ متعین ہوتاہے۔ لفظ صلوٰۃ کا بھی صرف نماز پڑھنا معنی نہیں ہے بلکہ لغت اور تفاسیر کی کتب میں لفظ صلوٰۃ کے بہت سے معانی بیان ہوئے ہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ لغت اور تفاسیر کی مختلف کتب کے حوالہ سے اس لفظ کے معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اَلصَّلٰوۃُ: صَلَّی سے مشتق ہے اور اس کا وزن فَعْلَۃٌ ہے۔ الف واؤ سے منقلب ہے۔ صَلَّی (یُصَلِّیْ) کے معنے دعا کرنے کے ہیں اور اَلصَّلٰوۃُ کے اصطلاحی معنے عِبَادَۃٌ فِیْہَا رکُوْعٌ وَسجُوْدٌ کے ہیں یعنی اس مخصوص طریق سے دعا کرنا جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں جس کو ہماری زبان میں نماز کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں جو بے تعلق نہیں بلکہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کے دوسرے معنے مندرجہ ذیل ہیں:
اَلرَّحْمَۃُ۔ رحمت۔ الدِّیْنُ۔شریعت۔ اَلاِسْتِغْفَار۔ بخشش مانگنا۔ الدُّعَاء۔ دعا(اقرب) التَّعْظِیْمُ۔ بڑائی کا اظہار۔اَلْبَرَکَۃُ۔برکت۔ (تاج) وَالصَّلٰوۃُ مِنَ اللّٰہِ الرَّحْمَۃُ وَمِنَ الْمَلَآئِکَۃِ الْاِسْتِغْفَارُوَمِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ الدُّعَاءُ وَمِنَ الطَّیْرِ وَالْھَوَامِّ التَّسْبِیْحُ۔ اور صلوٰۃ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے رحم کرنے کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کے لئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے معنے استغفار کے ہوتے ہیں اور جب مومنوں کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے دعا یا نماز کے ہوتے ہیں اور جب پرند اور حشرات کے لئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے تسبیح کرنے کے ہوتے ہیں۔ وَھِیَ لَاتَکُوْنُ اِلَّافِی الْخَیْرِ بِخَلَافِ الدُّعَاءِ فَاِنَّہٗ یَکُوْنُ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔ اور لفظ صلوٰۃ صرف نیک دُعا کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن لفظ دُعَا، بد دعا اور نیک دعا دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لفظ صلوٰۃ کے ایک معنے حُسْنُ الثَّنَاءِ مِنَ اللّٰہِ عَلَی الرَّسُوْلِ کے بھی ہیں یعنی جب صَلَّی فعل کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور مفعول آنحضرتﷺ کی ذات بابرکات ہو تو اس وقت اس کے معنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم کی بہترین تعریف کے ہوتے ہیں۔ (اقرب) وَیُسَمَّی مَوْضِع الْعِبَادِۃِ الصَّلٰوۃَ اور عبادت گاہ کو بھی الصَّلٰوۃَ کہہ دیتے ہیں۔ (مفردات) (تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ ۹۸، ۹۹، مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ کے معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ صلوٰۃ کے معنےحمد و ثنا۔۲۔دعا۔ ۳۔اعلی ٰمرتبہ کی وہ دعا مانگنا جس سے گناہ کا تصرف انسان پر باقی نہ رہے۔۴۔ رحمت خاصہ۔(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ۴۱۹)
پس اس آیت کے یہ معانی کرنا کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے نماز پڑھتے ہیں، درست نہیں ہے بلکہ اس کے معانی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آنحضورﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ یعنی آپ کی حمدو ثناء بیان کرتے ہیں، آپ کے لیے خاص رحمت کی دعا کرتے ہیں، آپ کے لیے ایسے اعلیٰ مراتب کی دعا کرتے ہیں جس سے گناہوں کا تصرف آپ پر باقی نہ رہے۔ اسی لیے حضورﷺ نے حضرت عائشہ ؓکے دریافت کرنے پر ایک موقع پر فرمایا کہ ہر انسان کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے، اور میرے ساتھ بھی ہے۔ مگر خدا نے مجھے شیطان پر غلبہ عطا فرمایا ہے یہاں تک کہ میرا شیطان بھی مسلمان ہو چکا ہے۔(صحیح مسلم كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِبَاب تَحْرِيشِ الشَّيْطَانِ)
اسی طرح اس آیت کے یہ بھی معانی ہیں کہ اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ پرمسلسل رحمت نازل فرما رہا ہے اور آپ کی بہترین تعریف بیان کر رہا ہے، اس کے فرشتے حضورﷺ کے لیے استغفار کر رہے ہیں اور مسلمان حضورﷺ کے بلندیٔ درجات کی دعا کر رہے ہیں۔
لفظ درود ان تمام معانی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف جگہوں پر اس آیت کے یہی معانی کیے ہیں کہ خدا اور اس کے سارے فرشتے اس نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایماندارو تم بھی اس پر درود بھیجو۔ اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کرو۔ (براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۶۵ حاشیہ نمبر ۱۱)
اسی طرح ایک اور جگہ حضور علیہ السلام اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو !تم درود و سلام بھیجو نبی ؐپر۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لیے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے یعنی آپؐ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔ اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپؐ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔ (ملفوظات جلداوّل صفحہ ۳۲،ایڈیشن ۲۰۱۶ء)
پھر صلوٰۃ کے ایک معنی دعا کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ اس بارے میں مَیں نے گذشتہ سال ایک خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے درود شریف کے معانی سمجھاتے ہوئے بتایا تھا کہ صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں اوراَللّٰہُمَّ صَلِّ کے معنی ہوئے کہ اے اللہ!تو رسول کریمﷺ کے لیے دعا کر۔ اب دعا کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ دوسرے سے مانگتا ہے۔ دوسرے اس کی دعا ہے جس کا اپنا اختیار ہے اور وہ خود عطا کرتا ہے۔ جب ہم خدا تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ دعا کرتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ وہ اپنی مخلوق اور پیدا کی ہوئی چیزوں ہوا، پانی، زمین، پہاڑ باقی جو سب چیزیں ہیں ان سب کو کہتا ہے کہ میرے بندے کی تائید کرو۔ پس اَللّٰہُمَّ صَلِّکے یہ معنی ہوئے کہ اے اللہ !تو ہر نیکی اور بھلائی اور دنیا وزمین و آسمان کی ہر چیز کی بھلائی اپنے رسول کے لیے چاہ اور ان کو عزت و عظمت عطا فرما، عزت و عظمت کو بڑھا۔اور پھر دیکھیں کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس سے بڑھ کر کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم تو اس بات کا احاطہ بھی نہیں کرسکتے کہ اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے۔ پس یہ دعا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دی کہ وہ یہ چاہے کہ جو زیادہ سے زیادہ مقام ہو سکتا ہے اور جو اس کی نظر میں ہوتا ہے یا وہ کیا چاہتا ہے وہ عطا فرما۔ (خطبہ جمعہ ۳۰ ؍اپریل ۲۰۲۱ء)
پس خلاصہ کلام یہ کہ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِّیِّ کے معانی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ بلکہ اس کے معانی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ یعنی آپ کی حمدو ثنا بیان کرتے ہیں، آپ کے لیے خاص رحمت کی دعا کرتے ہیں، آپ کے لیے ایسے اعلیٰ مراتب کی دعا کرتے ہیں جس سے گناہوں کا تصرف آپ پر باقی نہ رہے۔نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ آنحضورﷺ پرمسلسل رحمت نازل فرما رہا ہے اور آپ کی بہترین تعریف بیان کر رہا ہے، اس کے فرشتے حضورﷺ کے لیے استغفار کر رہے ہیں اور مسلمان حضورﷺ کے بلندیٔ درجات کی دعا کر رہے ہیں۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دعا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق، اپنی پیدا کی ہوئی تمام چیزوں ہوا، پانی، زمین، پہاڑ اور اپنے تمام کارخانۂ عالم کو حکم دیتا ہے کہ تم سب کے سب میرے اس بندہ کی تائید و نصرت میں لگ جاؤ۔
ہم انسان بھی چونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اس لیے ہمیں بھی یہی حکم ہے کہ ہم بھی آپ پر درود بھیجیں۔ اور ہمارے درود کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کی ہدایات اور آپ کے احکامات پر دل و جان اور اپنے ہر قسم کے جوارح سے عمل کریں اور اپنا کردار ایسا بنائیں جو آپ کے حقیقی متبعین کا کردار ہے۔
سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں ایک مخلص احمدی تھا۔ لیکن پھر کچھ ایسی چیزیں ہوئیں جن کی وجہ سے میں جماعت سے دور ہو گیا ہوں۔احمدی کہتے ہیں کہ جنت میں داخلہ کے لیے چندہ دینا اور دوسروں کو بتانا، جماعت سے تعلق رکھنا ضروری ہے۔ جو جماعت کو نہیں مانے گا وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ مربیان کا کہنا ہے کہ جنت میں زیادہ احمدی ہوں گے، جبکہ کافی سارے غیر احمدی احباب کو میں جانتا ہوں جو کئی احمدیوں سے زیادہ اچھے ہیں؟ alislam.org کے مطابق بیوی کو مارنا مناسب نہیں ہے، لیکن ایک مربی صاحب نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بتایا کہ آرام آرام سے مار لیا کرو مگر منہ پر نہیں مارنا، اب کس کی بات درست ہے؟ قرآن کریم میں عورتوں کے لیے کیریئر کی کوئی پابندی نہیں، لیکن جماعت والے کہتے ہیں کہ عورت کیا کام کر سکتی ہے اور کیا نہیں کر سکتی، تو جماعت والے پابندیاں کیوں لگاتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍دسمبر ۲۰۲۲ء میں ان امور کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بنے اور یہی انسانی زندگی کااصل مقصد ہے۔ اسی مقصد کی یاد دہانی کروانے کے لیے خدا تعالیٰ وقتاً فوقتاً اپنے انبیاء کو دنیا میں بھیجتا ہے۔ جو انسانوں کو دنیا کی مادہ پرستیوں سے نکال کر خدا تعالیٰ کے قریب لانے کی کوشش کرتے ہیں اور انسان اور اس کے پیدا کرنے والے کے درمیان جو دوری واقع ہو گئی ہوتی ہے، اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے ان انبیاء پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، جو ایمان بالغیب کے زمرہ میں آتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے بارے میں فرمایا کہ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ(البقرہ:۴)یعنی حقیقی متقی وہ ہیں جو غیب پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
پھریہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ کوئی نظام خواہ وہ دنیوی ہو یا دینی، مالی مدد کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ابتدا میں ہی متقیوں کی ایک علامت یہ بیان فرمائی کہ وَمِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ (البقرہ:۴)یعنی جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے وہ اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کی جانے والی کوئی بھی چیز رائیگاں نہیں جاتی اسی لیے قرآن کریم میں مختلف مقامات پریہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اگرچہ ایک انسان جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہےوہ اسے اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہوتا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے کے مال میں برکت عطا فرماتے ہوئے اسے اس دنیا میں بھی بڑھا چڑھا کر دیتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے ثواب اور انعام کا وعدہ فرماتا ہے۔ (البقرہ:۲۴۶، الحدید:۱۲)
علاوہ ازیں احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں حضورﷺ کی نصائح اور آپ کی سنت کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح صحابہ رسولﷺ کی راہ خدا میں بے دریغ جانی اور مالی قربانیوں کا کثرت کے ساتھ ذکر موجود ہے۔
اس الٰہی حکم، آنحضورﷺ کی سنت اور صحابہ رسولﷺ کے نمونہ کی اتباع میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں بھی مالی قربانی کا طریق جاری ہے، جس کے تحت احباب جماعت دلی خوشی کے ساتھ لازمی اور طوعی چندہ جات میں حصہ لے کراسی طرح خدا تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کے مورد بنتے ہیں، جس طرح قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے اس راہ سے خدا تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ پایا۔ اور ان کے واقعات میں بیان کرتا رہتا ہوں۔
چندہ جات کے طورپر جمع ہونے والےان اموال کو جس طرح آنحضورﷺ اور خلافت راشدہ کے ادوار میں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جاتا تھا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ بھی انہیں خدا تعالیٰ ہی کے راستہ میں خرچ کرتی ہے، جس کی تفصیل بھی میں اپنے بعض خطابات اور خطبات میں بھی بیان کرتا رہتا ہوں۔
پس اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء پر ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں حسب توفیق قربانی کرنا انسان کا بنیادی فرض ہے، جس کا اسے اس دنیا میں بھی اجر ملتا ہے اور آخرت میں بھی انسان اپنے ان کرموں کے ثمرات پائے گا۔ لیکن اگر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کرے، اس کے احکامات کی پیروی نہ کرے، اس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کی کوشش نہ کرے اور اس کے حضور دعا اور تضرّعات نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو بھی ایسے انسان کی کوئی پروا نہیں ہوتی جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡلَا دُعَآؤُکُمۡ (الفرقان :۷۸) یعنی (اے رسول)تو ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پروا ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا (اور استغفار) نہ ہو۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی سو فیصد صداقت پر مبنی ہے کہ مذہب کے معاملات میں کسی پر جبر اور زبردستی نہیں کی جا سکتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ(البقرہ:۲۵۷)یعنی دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر (جائز)نہیں۔ اسی طرح فرمایا وَقُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ(الکہف:۳۰)یعنی (لوگوں کو) کہہ دے (کہ) یہ سچائی تمہارے رب کی طرف سے ہی (نازل ہوئی) پس جو چاہے (اس پر) ایمان لائے اور جو چاہے (اس کا) انکار کر دے۔
اس لیے کسی دین کو ماننا یا نہ ماننا انسان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے اور یہ اللہ اور اس بندہ کا معاملہ ہے۔ ماننے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وعدہ ہے اور نہ ماننے کی صورت میں مختلف سزاؤں اور انذار کی وعید کی گئی ہے۔
اس کے باوجود جنت ملنے یا جہنم میں ڈالے جانے کا اختیار کسی انسان کے ہاتھ میں ہر گز نہیں بلکہ یہ کلیۃً اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ جنت میں صرف احمدی ہوں گے۔ ہم تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہمدری کا جذبہ رکھتے ہیں اور اسی جذبہ کے تحت ہم لوگوں کو راہ حق کی طرف بلانے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اور چونکہ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ ایک حقیقی مومن کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ جو کچھ اپنے لیے پسند کرے وہی کچھ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔ پس حضورﷺ کے اسی ارشاد کے تحت جماعت احمدیہ دوسروں کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پہنچا کر ان کی دین و نیا سنوارنے کی کوشش کرتی ہے۔
تبلیغ کےاس جوش کا اظہار کرتے ہوئے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں: ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچالیں۔ اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کر کے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۹۰، مطبوعہ ۲۰۱۶ء)
عورتوں کو مارنے کے بارے میں آپ کے سوال کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے عورت اور مرد دونوں کے حقوق و فرائض بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں اور دونوں کو ان حقوق و فرائض کے اعتبار سے اپنے اپنے دائرہ میں محدود رکھا ہے۔ اور تعلیم دی ہےکہ ہر کوئی اپنے دائرہ میں نگران بھی ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس بھی کی جائے گی کہ اس نے اپنی رعایا کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔ اس ذمہ داری میں اسلام نے جہاں مرد کو گھر کا نگران اور اسے اپنے اہل خانہ کے حقوق ادا کرنے کا پابند بنایا ہے وہاں عورت کو بھی اپنے خاوند کے گھر کا نگران قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص نگران ہے پس اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی۔ چنانچہ وہ شخص جو لوگوں کا امیر ہے اس سے ان لوگوں کے متعلق سوال ہوگا (کہ اس نے ان کی نگرانی اور ان کے حقوق ادا کرنے میں اپنی ذمہ داریاں کو پورے طور پر ادا کیا)۔اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے اس سے ان کے متعلق باز پرس ہوگی۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے اوراس سے اس بارے میں باز پرس ہوگی۔ (صحیح بخاری کتاب العتق بَاب كَرَاهِيَةِ التَّطَاوُلِ عَلَى الرَّقِيقِ)
پس اگر مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے فرائض کی احسن رنگ میں ادائیگی کریں تو کسی کو بھی ایک دوسرے کو مارنے تو کیا ڈانٹنے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں‘‘۔’’ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سےلطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔‘‘ (سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صفحہ ۱۸)
اسی طرح فرمایاکہ’’جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۱۹)
عورتوں کے حقوق کے بارے میں اسلامی تعلیم کی خوبصورتی بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرمادیا ہے۔ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْھِنَّ (البقرۃ:۲۲۹)کہ جیسے مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سُنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں۔ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کردیتے ہیں۔ چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ او ر خداسے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھرکس طرح ممکن ہے کہ خدا سے صلح ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہےکہ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے۔(اخبار بدر نمبر ۱۸، جلد۲، مورخہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳۷۔ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۲۱، مطبوعہ ۲۰۱۶ء)
اس نہایت اعلیٰ اور حسین تعلیم کے بعد اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی جائز حد تک اطاعت سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے ساتھ باغیانہ رویہ اختیار کرتی ہے تو پھر ایسی عورت کو راہ راست پر قائم رکھنے کے لیے اسلام نے بعض اصلاحی تدابیر کے اختیار کرنے کا مرد کو حکم دیا ہے، جس میں پہلی تدبیر یہ ہے کہ اسے نصیحت کر کے سمجھایا جائے۔ اگر نصیحت کا بھی اس پر اثر نہ ہو تو فرمایا کہ خاوند ایسی بیوی کی اصلاح کے لیے اس کے ساتھ کچھ وقت کے لیے اپنے تعلقات زوجیت ختم کر دے لیکن اس صورت میں بھی مرد کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنا بستر بیوی سے الگ کرے، یہ نہیں فرمایا کہ اسے بستر سے نکال دے۔اور اگر بیوی پر اس اصلاحی تدبیر کا بھی اثر نہ ہو اور وہ اپنی نافرمانیوں اور باغیانہ روش سے باز نہ آئے تو فرمایا کہ پھر تم اسے ایک حد تک بدنی سزا دے سکتے ہو۔ (سورۃ النساء:۳۵)لیکن اس بدنی سزا کے بارے میں حضورﷺ نے یہ شرط بھی لگا دی کہ نہ اس کے چہرہ پر مارو(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَاب حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ)اور نہ اس کو جسم پر اس زور سے مارو کہ اس کے جسم پر کوئی زخم آئے یا جلد کے اندر اسے کوئی چوٹ پہنچے۔ (بخاری کتاب النکاح بَاب مَا يُكْرَهُ مِنْ ضَرْبِ النِّسَاءِ)
پس کسی کی اصلاح اور اسے راہ راست پر لانے کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت اور متوازن تعلیم نہ تو کسی مذہب نے دی ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی ملک اس کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسلام اپنے پیروکاروں کو اپنے ایسے ملکی قوانین جو ان کے بنیادی مذہبی عقائد میں روک نہ بنتے ہوں، کی اطاعت کا بھی حکم دیتا ہے۔ اس لیے افراد جماعت کو یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ ایسے ممالک جہاں بیوی کو مذکورہ بالا صورتوں اور مذکورہ بالا شرائط کے تحت بھی بدنی سزا دینا خلاف قانون ہو وہاں ضرورت کے باوجود بھی اس سے اجتناب کیا جائے۔
باقی جہاں تک آپ کا عورتوں کے لیےکیریئر کی پابندی کا اعتراض ہے وہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ جماعت احمدیہ میں اسلامی تعلیمات کے عین مطابق جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض اوقات خواتین اپنے تعلیمی ایوارڈز میں مردوں سے بھی سبقت لے جاتی ہیں۔ اسی طرح بہت ساری خواتین اپنی دنیوی تعلیم کی بنا پر بڑے بڑے دنیاوی عہدوں پر کام بھی کر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عورتوں کی جماعتی تنظیم لجنہ اماء اللہ کے تحت خواتین دینی طور پر بھی مردوں کے شانہ بشانہ خدمت دین کی توفیق پا رہی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ جماعت میں عورتوں کے کیریئر کے بارے میں پابندی لگائی جاتی ہے درست نہیں ہے۔ ہاں جب بچیاں مجھ سے کوئی پیشہ اختیار کرنے کے بارے میں مشورہ کرتی ہیں تو میں انہیں ہمیشہ ایسا مشورہ دیتا ہوں جو ان کی عزت و احترام اور ان کے وقار کے لحاظ سے بہتر ہو۔ لیکن جس پیشہ میں ان کی حق تلفی یا ان کے ساتھ زیادتی کا امکان ہو یا اس میں انہیں اسلامی تعلیمات کے خلاف کام کرنا پڑے تو میں انہیں اس قسم کا پیشہ اختیار کرنے سے منع کر دیتا ہوں۔ کیونکہ ایک مومنہ عورت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے دنیاوی کاموں میں بھی اسلامی تعلیمات کو مقدم رکھے۔ کیونکہ یہ دنیوی زندگی تو ایک عارضی زندگی ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جس کے لئے ہم نے اسی دنیا سے اپنے کرموں کے مطابق زاد راہ ساتھ لے کر جانا ہے۔