حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی قبولیت دعاکے حیرت انگیز واقعات
موجودہ دور سائنس اور جدیدعلوم میں غیرمعمولی ترقی کادور ہے اورجدیدعلوم کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پررکھی جاتی ہے۔ ظاہری علوم میں دسترس رکھنے والے اکثر چونکہ روحانی علم سے بے خبر ہوتے ہیں اس لیے وہ کسی بھی طرح قادرمطلق خداکے قائل نہیں اور خداسے دعامانگنے کے تصورکو بھی ایک وہم وگمان اورطفل تسلی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ایسے دورمیں حضرت مرزاغلام احمدقادیانی مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ اعلانیہ فرمایا کہ ’’مَیں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے۔ بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے‘‘۔(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۱۱)
آپ نے اس دعویٰ کے ثبوت میں اپنے مشاہدات اور تجربات بے شمارگواہوں کی گواہی کے ساتھ شائع کرنے شروع کیے جن میں آپ کی ذاتی زندگی کے مشاہدات کے ساتھ ساتھ آپ کے گاؤں قادیان پھر ہندوستان اور پھر ہندوستان سے باہر تمام دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا ذکر ہے جوقبولیت دعا اور دعاؤں کی تاثیرات کے ایسے ثبوت ہیں جن کوردّ کرنے سے مشاہدات اورتجربات کی دنیا کے اصول کوہی رد کرناپڑےگایا ہر صاحب بصیرت کو جومشاہدات اور تجربات کے معیار کو یقینی خیال کرتاہے یہ تسلیم کرناپڑے گا کہ اس دنیا کا ایک ایسا قادر و توانا خداہے جو انسان کی تضرعات اور عاجزانہ دعاؤں کو سنتاہے اور اس کے نتیجہ میں انسان کی انفرادی زندگی میں بھی عظیم الشان تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں۔مشکلات حل ہوتی ہیں اور دنیامیں بھی ان دعاؤں کے نتیجہ میں بڑے بڑے عظیم انقلابات برپاہوسکتے ہیں بلکہ ہورہے ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نےاپنی قبولیت دعاکے ان تجربات اورپھراس کے نتیجہ میں اپنے مشاہدات کو عظیم الشان نشانات کے رنگ میں پیش کرتے ہوئے ایک جگہ تحریرفرمایاکہ بعض نشان اِس قسم کے ہیں جن میں دوستوں کے حق میں میری دُعائیں منظور ہوئیں اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو شریر دشمنوں پر میری بد دعاکا اثر ہوا اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو میری دعاسے بعض خطرناک بیماروں نے شفاپائی۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۷۰)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا کے بےشمارواقعات میں سے چندایک کا ذیل میں ذکر کیاجاتاہے۔
شادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دعا
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کواپنی شادی کے لیے اخراجات کی ضرورت پڑی تو آپ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ ان اخراجات کی مجھ میں طاقت نہیں۔ تب یہ الہام ہوا کہ
ہرچہ باید نو عروسی راہمہ ساماں کنم
وآنچہ درکارِ شما باشد عطائے آں کنم
یعنی جو کچھ تمہیں شادی کے لئے درکار ہوگا تمام سامان اس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتاً فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ (حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۴۷)
اہلیہ کی شفایابی کے لیے دعا
۱۴؍جون ۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اہلیہ حضرت نصرت جہا ں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا شدید بیمارہوگئیں اور بہت درد ناک صورتحال پیدا ہوگئی۔ اور پھر آپؑ کی دعاسے اللہ تعالیٰ نے شفاعطافرمائی۔آپ اس بارے میں تحریر فرماتے ہیں:’’میرے گھر میں جو ایامِ اُمید تھے۔ ۱۴؍ جون کو اوّل دردِ زہ کے وقت ہولناک حالت پیدا ہوگئی یعنی بدن تمام سرد ہوگیا اور ضعف کمال کو پہنچا اور غشی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ اس وقت مَیں نے خیال کیا کہ شاید اب اس وقت یہ عاجزہ اس فانی دُنیا کو الوداع کہتی ہے۔ بچوں کی سخت دردناک حالت تھی اور دوسرے گھر میں رہنے والی عورتیں اور اُن کی والدہ تمام مُردہ کی طرح اور نیم جان تھے کیونکہ ردّی علامتیں یکدفعہ پیدا ہوگئی تھیں۔ اس حالت میں اُن کا آخری دم خیال کرکے اور پھر خدا کی قدرت کو مظہر العجائب یقین کرکے اُن کی صحت کے لئے مَیں نے دُعا کی یکدفعہ حالت بدل گئی اور الہام ہوا تَحْوِیْلُ الْمَوْت یعنی ہم نے موت کو ٹال دیا۔ اور دوسرے وقت پر ڈال دیا۔ اور بدن پھر گرم ہوگیا۔ اور حواس قائم ہوگئے۔ اور لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ ۲۶ مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراسی،و تشحیذ الاذہان جلد ۳ نمبر ۲،۳ صفحہ ۱۶؍بابت فروری و مارچ ۱۹۰۸ء)
حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی ایک اور بیماری اور دعا سے شفاکا ذکر کرتے ہوئے حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں: والدہ محمود کو سخت موذی بخار تھا۔ رات مَیں نے دعا کی صبح ایک شخص خواب (میں) آیا۔ گویا وہ کہتا ہے بخار ٹوٹ گیا۔ اسی دن بخار ٹوٹ گیا۔‘‘(تذکرہ الہامات وکشوف ورؤیاحضرت مسیح موعودمرزاغلاماحمدقادیانیؑ صفحہ ۴۶۷)
اپنی بیماری میں شفاکے لیے دعا
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنی جوانی کی عمرمیں ایک بیماری سے شفا پانےکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:“ایک مرتبہ مَیں سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرےوارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ یٰسین سنائی…جب بیماری کا سولھواں دن چڑھا تو اُس دن بکلّی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یٰسین سنائی گئی۔ اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا۔تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دُعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دُعا سکھلائی اور وہ یہ ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّد۔اور میرےدل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریاکے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اس سے تو شفا پائے گا۔ چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا اور مَیں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی۔ اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرےایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں دردناک جلن تھی اور بےاختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اس حالت سے نجات ہو۔مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہےجس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے مَیں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے۔یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ مَیں نے دیکھا کہ بیماری بکلّی مجھے چھوڑ گئی اور مَیں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد۱۵صفحہ۲۰۸۔۲۰۹)
پھر اپنی ایک بیماری کامحض دعاسے شفاپانے کاذکرکرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:’’مَیں نے بعض بیماریوں میں آزمایا ہے اور دیکھا ہے کہ محض دعا سے اس کا فضل ہوا اور مرض جاتا رہا ہے۔ ابھی دوچار دن ہوئے ہیں کثرتِ پیشاب اور اسہال کی و جہ سے مَیں مضمحل ہوگیا تھا۔ مَیں نے دعا کی تو الہام ہوا:دُعَآئُکَ مُسْتَجَابٌ۔ اس کے بعد ہی دیکھا کہ وہ شکایت جاتی رہی۔ خدا ایک ایسا نسخہ ہے جو سارے نسخوں سے بہتر ہے اور چُھپانے کے قابل ہے۔ مگر پھر دیکھتا ہوں کہ یہ بخل ہے اِس لئے ظاہر کرنا پڑتا ہے۔‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۱۱ مؤرخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶)
جب حضورعلیہ السلام تذکرۃ الشہادتین تحریرفرمارہے تھے۔ اس دوران شدید بیماری کاحملہ ہوا۔ اس دفعہ بھی خاص دعاسے اللہ تعالیٰ نے شفاعطافرمائی۔ آپ فرماتے ہیں:’’میرا ارادہ تھا کہ قبل اس کے جو ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء کو بمقام گورداسپور ایک مقدمہ پر جاؤں …یہ رسالہ تالیف کرلوں اور اس کو ساتھ لے جاؤں۔ تو ایسا اِتفاق ہوا کہ مجھے دردِ گُردہ سخت پیدا ہوا۔ مَیں نے خیال کیا کہ یہ کام ناتمام رہ گیا۔ صرف دو چار دن ہیں اگر مَیں اِسی طرح دردِ گردہ میں مُبتلا رہا جو ایک مُہلک بیماری ہے تو یہ تالیف نہیں ہوسکے گا۔ تب خدا تعالیٰ نے مجھے دعا کی طرف توجہ دلائی۔ مَیں نے رات کے وقت میں جبکہ تین گھنٹے کے قریب بارہ بجے کے بعد رات گزر چکی تھی اپنے گھر کے لوگوں سے کہا کہ اَب مَیں دُعا کرتا ہوں تم آمین کہو۔ سو مَیں نے اسی درد ناک حالت میں صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کے تصورسے دعا کی کہ یا الٰہی اس مرحوم کے لئے مَیں اس کو لکھنا چاہتا تھاتو ساتھ ہی مجھے غنودگی ہوئی اور الہام ہوا۔سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ یعنی سلامتی اور عافیت ہے یہ خدائے رحیم کا کلام ہے۔پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ مَیں بالکل تندرست ہوگیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا۔ فَا لْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذالِک۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۷۴۔۷۵)
گھرکے بچوں کی شفایابی کے لیے قبولیت دعا
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:جسمانی امراض کی نسبت مَیں نے بارہامشاہدہ کیا ہے کہ اکثر خطرناک امراض والے میری دعا اور توجہ سے شفایاب ہوئے ہیں میرا لڑکا مبارک احمد قریباً دو برس کی عمر میں ایسا بیمار ہوا کہ حالتِ یاس ظاہر ہو گئی اور ابھی میں دعاکر رہا تھا کہ کسی نے کہا کہ لڑکا فوت ہو گیا ہے یعنی اب بس کرو دعاکا وقت نہیں مگر مَیں نے دعا کرنا بس نہ کیا اور جب میں نے اسی حالت توجہ الی اللہ میں لڑکے کے بدن پر ہاتھ رکھا تو معاً مجھے اُس کا دم آنا محسوس ہوا اور ابھی میں نے ہاتھ اس سے علیحدہ نہیں کیا تھا کہ صریح طور پر لڑکے میں جان محسوس ہوئی اور چند منٹ کے بعد ہوش میں آکر بیٹھ گیا۔
اور پھر طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑکا بالکل بیہوش ہو گیا اور بیہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ اگرچہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا اِن دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اِس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اُس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اُس نے فرمایا ہے انّی احافظ کلّ من فی الدار یعنی مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچاؤنگا۔ اِس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ مَیں بیان نہیں کر سکتا۔ قریباً رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہو گئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اور ہی بلا ہے تب میں کیا بیان کروں کہ میرے دل کی کیا حالت تھی کہ خدا نخواستہ اگر لڑکا فوت ہو گیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کے لئے بہت کچھ سامان ہاتھ آجائے گا۔ اسی حالت میں مَیں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور معًا کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسّر آگئی جو استجابت دعاکے لئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور مَیں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی مَیں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور مَیں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور مَیں چار رکعت پوری کر چکا تھا۔ فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام ونشان نہیں اور ہذیان اور بیتابی اور بیہوشی بالکل دور ہو چکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی۔ مجھے اُس خدا کی قدرت کے نظارہ نے الٰہی طاقتوں اور دعاقبول ہونے پر ایک تازہ ایمان بخشا۔(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۸۶۔۸۸)
اسی طرح اپنے ایک اَوربیٹے کے حق میں قبولیت دعاکا یوں ذکرفرمایاکہ ایک دفعہ ہمارے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں بہت خراب ہوگئی تھیں۔ پلکیں گر گئی تھیں اور پانی بہتا رہتا تھا۔ آخر ہم نے دُعا کی تو الہام ہوا۔ بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْرٌ یعنی میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہوگئیں۔اِس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی۔ اور آنکھیں بالکل تندرست ہوگئیں۔ اس سے پہلے کئی سال انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا تھا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ حالت ابتر ہوتی جاتی تھی۔ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۰۸)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت میرمحمداسحٰق صاحب رضی اللہ عنہ کے بچپن میں ایک بیماری سے شفاکاذکریوں کرتے ہیں کہ میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے بچپن کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ وہ سخت بیمار ہوگئے اور حالت بہت تشویشناک ہوگئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق دعا کی تو عین دعا کرتے ہوئے خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’سَلٰمٌ ۟ قَوۡلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ‘‘یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم وکریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتاہے۔ چنانچہ اس کے جلد بعد حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ بالکل توقع کے خلاف صحت یاب ہوگئے اور خدا نے اپنے مسیح کے دم سے انہیں شفا عطا فرمائی۔ (سیرت طیبہ صفحہ ۲۶۷۔۲۶۸)
مالی ضرورت کے پوراہونے کے لیے دعا
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ اتفاقاً مجھے پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہلِ فقر اور توکل پر کبھی کبھی ایسی ضرورت کی حالتیں آجاتی ہیں ایسا ہی یہ حالت مجھے پیش آگئی کہ اس وقت کچھ موجود نہ تھا۔ سو میں صبح کو سیر کو گیا اور اس ضرورت کے خیال نے مجھے یہ جوش دیا کہ میں اِس جنگل میں دعا کروں۔ چنانچہ میں نے ایک پوشیدہ گوشہ میں جاکر اُس نہر کے کنارے پر دعا کی جو بٹالہ کی طرف قادیان سے قریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ جب میں دعا کرچکا تب فے الفور دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں۔ تب میں خوش ہوا اور اس جنگل سے قادیاں کی طرف واپس آیا اور سیدھا بازار کی طرف رُخ کیا تا قادیاں کے سب پو سٹ ماسٹر سے دریافت کروں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں۔ چنانچہ ڈاکخانہ سے بذریعہ ایک خط کے اِطلاع ہوئی کہ پچا س روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالباً گمان گذرتا ہے کہ اُسی دِن یا دُوسرے دِن وہ روپیہ مجھے مل گیا۔ اِس نشان کا گواہ شیخ حامد علی ہے جو دریافت کے وقت حلفاً بیان کرسکتا ہے۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۹۴-۲۹۵)
اسی نوعیت کے اورواقعہ کاذکرکرتے ہیں کہ کچھ عرصہ گزرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی۔ جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا… اِس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرتِ احدیت میں دعا کی جائے۔ تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے۔ اور دوسرے مخالفین کے لئے تائید الٰہی کا نشان پیدا ہو۔ ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں۔ سو اُسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے۔ تب یہ الہام ہوا دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ فِیْ شَآئِلٍ مِّقْیَاسٍ۔ دن وِل یُو گو ٹو امرت سر
یعنی دس دن کے بعد روپیہ آئے گا۔ خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اُٹھاتی ہے تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے ایسا ہی مدد الٰہی بھی قریب ہے اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرت سر بھی جاؤ گے۔[ Then will you go to Amirtsar]
تو جیسا اس پیش گوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورۂ بالا کے روبرو وقوع میں آیا۔ یعنی حسب منشاء پیش گوئی دس دن تک ایک خر مہرہ نہ آیا۔ اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے۔ اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے۔ اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوگیا۔ جس کی امید نہ تھی۔ اور اُسی روز کہ جب دس دن کے گزرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب وغیرہ کا روپیہ آیا امرتسر بھی جانا پڑا۔ کیونکہ عدالتِ خفیفہ امرتسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اُسی روز ایک سمن آگیا۔(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۵۵۹۔۵۶۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳)
مخلص دوستوں کےلیے دعا
حضر ت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’چند سال ہوئے ہیں کہ سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب تاجر مدراس جو اول درجہ کے مخلص جماعت میں سے ہیں قادیان میں آئے تھے اور ان کی تجارت کے امور میں کوئی تفرقہ اور پریشانی واقع ہو گئی تھی انہوں نے دعا کے لئے درخواست کی۔ تب یہ الہام ہوا جو ذیل میں درج ہے۔ قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے۔ بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھیدنہ پاوے۔ اس الہامی عبارت کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ ٹوٹاہوا کام بنا دے گا مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد بنا بنایا توڑ دے گا۔ چنانچہ یہ الہام قادیان میں ہی سیٹھ صاحب کو سنایا گیا اور تھوڑے دن ہی گذرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے تجارتی امور میں رونق پیدا کر دی اور ایسے اسباب غیب سے پیدا ہوئے کہ فتوحات مالی شروع ہو گئیں اور پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ بنا بنایا کام ٹوٹ گیا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۵۹-۲۶۰)
اسی مخلص دوست کے لیے ان کی ایک بیماری کے وقت دعا سے شفا کاذکرکرتے ہوئے حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:میرے ایک صادق دوست اور نہایت مخلص جن کا نام ہے سیٹھ عبد الرحمٰن تاجر مدراس اُن کی طرف سے ایک تار آیا کہ وہ کاربنکل یعنی سرطان کی بیماری سے جو ایک مہلک پھوڑا ہوتا ہے بیمار ہیں چونکہ سیٹھ صاحب موصوف اوّل درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اِس لئے انکی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تر دّد ہوا قریباً نو بجے دن کا وقت تھا کہ میں غم اور فکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ یک دفعہ غنودگی ہو کر میرا سر نیچے کی طرف جُھک گیا اور معاً خدائے عزّوجلّ کی طرف سے وحی ہوئی کہ آثارِ زندگی۔ بعد اس کے ایک اور تار مدراس سے آیا کہ حالت اچھی ہے کوئی گھبراہٹ نہیں۔ لیکن پھر ایک اور خط آیا کہ جو اُن کے بھائی صالح محمد مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھاجس کا یہ مضمون تھا کہ سیٹھ صاحب کو پہلے اِس سے ذیابیطس کی بھی شکایت تھی۔ چونکہ ذیابیطس کا کاربنکل اچھا ہونا قریباً محال ہے اِس لئے دوبارہ غم ا ور فکر نے استیلا کیا اور غم انتہا تک پہنچ گیا اور یہ غم اس لئے ہوا کہ میں نے سیٹھ عبد الرحمٰن کو بہت ہی مخلص پایا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اپنے اخلاص کا اول درجہ پر ثبوت دیا تھا اور محض دلی خلوص سے ہمارے لنگر خانہ کے لئے کئی ہزار روپیہ سے مدد کرتے رہے تھے جس میں بجز خوشنودیٔ خدا کے اور کوئی مطلب نہ تھا اور وہ ہمیشہ صدق اور اخلاص کے تقاضا سے ماہواری ایک رقم کثیر ہمارے لنگر خانہ کے لئے بھیجا کرتے تھے اور اس قدر محبت سے بھرا ہوا اعتقاد رکھتے تھے کہ گویا محبت اور اخلاص میں محو تھے اور اُن کا حق تھا کہ اُن کے لئے بہت دعا کی جائے آخر دل نے اُن کے لئے نہایت درجہ جوش مارا جو خارق عادت تھا اور کیارات اور کیا دن میں نہایت توجہ سے دعا میں لگا رہاتب خدا تعالیٰ نے بھی خارق عادت نتیجہ دکھلایا اور ایسی مہلک مرض سے سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب کو نجات بخشی گو یا اُن کو نئے سرے سے زندہ کیا چنانچہ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دُعا سے ایک بڑا معجزہ دکھلایا ورنہ زندگی کی کچھ بھی اُمید نہ تھی اپریشن کے بعد زخم کا مندمل ہونا شروع ہو گیا اور اس کے قریب ایک نیا پھوڑا نکل آیا تھا جس نے پھر خوف اورتہلکہ میں ڈال دیا تھا مگر بعد میں معلوم ہواکہ وہ کاربنکل نہیں آخر چند ماہ کے بعد بکلّی شفا ہو گئی۔ میں یقیناًجانتا ہوں کہ یہی مُردہ کا زندہ ہونا ہے۔ کاربنکل اور پھر اس کے ساتھ ذیابیطس اور عمر پیرانہ سالی اِس خوفناک صورت کو ڈاکٹر لوگ خوب جانتے ہیں کہ کس قدر اس کا اچھا ہونا غیر ممکن ہے ہمارا خدا بڑا کریم و رحیم ہے اور اس کی صفات میں سے ایک احیاء کی صفت بھی ہے۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۳۳۸-۳۳۹)
اسی طرح ایک دوست کے امورمعاش کے لیے دعاکی قبولیت کاذکرتے ہیں:ایک دفعہ نواب علی محمد خاں مرحوم رئیس لودھیانہ نے میری طرف خط لکھا۔ کہ میرے بعض امور معاش بند ہوگئے ہیں۔ آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں۔ جب مَیں نے دعا کی۔ تو مجھے الہام ہوا کہ کُھل جائیں گے میں نے بذریعہ خط ان کو اطلاع دے دی۔ پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کُھل گئے اور اُن کو بشدّت اعتقاد ہوگیا۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۵۷)
حضور علیہ السلام اپریل۱۹۰۵ء کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں: ’’جب ہم بہار کی موسم میں ۱۹۰۵ء میں باغ میں تھے تو مجھے اپنی جماعت کے لوگوں میں سے جو باغ میں تھے کسی ایک کی نسبت یہ الہام ہوا تھا کہ خدا کا ارادہ ہی نہ تھا کہ اُس کو اچھا کرے مگر فضل سے اپنے ارادہ کو بدل دیا۔
اِس الہام کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ سید مہدی حسین صاحب جو ہمارے باغ میں تھے اور ہماری جماعت میں داخل ہیں اُن کی بیوی سخت بیمار ہوگئی۔ وہ پہلے بھی تپ اور ورم سے جو منہ اور دونوں پَیروں اور تمام بدن پر تھی ،بیمار تھی اور بہت کمزور تھی اور حاملہ تھی۔ پھر بعد وضع حمل جو باغ میں ہوا،اُس کی حالت بہت نازک ہوگئی اور آثار نومیدی ظاہر ہوگئے اور مَیں اس کے لئے دعا کرتا رہا۔ آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کو دوبارہ زندگی حاصل ہوئی …دوسرے روز سید مہدی حسین کی اہلیہ کی زبان پر یہ الہام مِن جانب اللہ جاری ہوا۔ تُو اچھی تو نہ ہوتی مگر حضرت صاحب کی دعا کا سبب ہے کہ اَب تُو اچھی ہوجائے گی۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۷۸۔۳۷۹)
حضورعلیہ السلام اپنی ایک خاص دعاکے قبول ہونے کاذکریوں کرتے ہیں:عبدالکریم نام ولد عبدالرحمٰن ساکن حیدر آباد دکن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے۔ قضاء قدر سے اس کو سگِ دیوانہ کاٹ گیا۔ ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا۔ چند روز تک اُس کا کسولی میں علاج ہوتا رہا پھر وہ قادیان میں واپس آیا۔ تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کُتّے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیںاور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہوگئی۔ تب اُس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بے قرار ہوا اور دُعا کے لئے ایک خاص توجہ پَیدا ہوگئی۔ ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مَرجائے گا۔ ناچار اُس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اِس حالت میں اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ اُس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اَب اس کا کوئی علاج نہیں۔ مگر اُس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پَیدا ہوگئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابلِ رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مَر گیا تو ایک بُرے رنگ میں اُس کی موت شماتت ِاعداء کا موجب ہوگی۔ تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بے قراری میں مُبتلا ہوا۔ اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور اگر پیدا ہوجائے تو خدا تعالیٰ کے اِذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مُردہ زندہ ہوجائے۔ غرض اُس کے لئے اِقبال علی اللہ کی حالت میسّر آگئی اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلّط میرے دل پر کرلیا تب اِس بیمار پر جو درحقیقت مُردہ تھا اِس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یک دفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رُخ کیا اور اُس نے کہا کہ اَب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا۔ تب اُس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کرکے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہا اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی یہاں تک کہ چند روز تک بکُلّی صحت یاب ہوگیا۔ میرے دل میں فی الفور ڈالا گیا کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پَیدا ہوگئی تھی یہ اِس لئے نہیں تھی کہ یہ دیوانگی اُس کو ہلاک کرے بلکہ اِس لئے تھی کہ تا خدا کا نشان ظاہر ہو۔ اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی دُنیا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی کو دیوانہ کُتّے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہوگئے ہوں، پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہوسکے۔ اور اِس سے زیادہ اِس بات کا اَور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جو ماہر اِس فن کے کسولی میں گورنمنٹ کی طرف سے سگ گزیدہ کے علاج کے لئے ڈاکٹر مقرر ہیں اُنہوں نے ہمارے تار کے جواب میں صاف لکھ دیا ہے کہ اَب کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔
اِس جگہ اِس قدر لکھنا رہ گیا کہ جب مَیں نے اس لڑکے کے لئے دُعا کی تو خدا نے میرے دل میں القا کیا کہ فلاں دوا دینی چاہئے۔ چنانچہ مَیں نے چند دفعہ وہ دَوا بیمار کو دی آخر بیمار اچھا ہوگیا یا یُوں کہو کہ مُردہ زندہ ہوگیا۔‘‘(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۸۰۔۴۸۱)
میاں عبدالکریم صاحب کے بارے میں لکھاہے کہ وہ یاد گیر ضلع گلبرگہ ریاست حیدرآباد دکن کے رہنے والے تھے۔ آپ اِس واقعہ کے بعد ۳۸ سال تک زندہ رہے اور آخر دسمبر ۱۹۳۴ء میں وفات پائی۔
حضورعلیہ السلام اپنے ایک اوردوست سیّدناصر شاہ صاحب اور سیئر کی مشکل کے وقت میں دعاکاذکرکرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:میرے ایک دوست سیّدناصر شاہ اور سیئر اِس گردش اور تشویش میں مُبتلا ہوگئے تھے کہ وہ گلگت میں تبدیل کئے گئے تھے اور وہ سفر شدید اور تکالیفِ شاقہ کا تحمل نہیں کرسکتے تھے آخر وہ رخصت لے کر دُعا کرانے کے لئے میرے پاس آئے تا وہ جمّوں میں متعیّن ہوں اور گلگت میں نہ جائیں۔ اور یہ اَمر بظاہر محال تھا کیونکہ گلگت میں ان کی تبدیلی ہوچکی تھی اِس لئے وہ نہایت مُضطرب تھے۔ مَیں نے ایک رات ان کے لئے اور نیز کئی اَور دُعائیں کیں اور شوکت اسلام کے لئے بھی دُعا کی اور نمازِ تہجد میں دعائیں کرتا رہا تب تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ خدا نے مجھے خبر دی کہ تمام دعائیں قبول ہوگئیں جن میں قوّت اور شوکت ِاسلام بھی ہے۔ اِس پَیرایہ میں مجھے اطلاع دی گئی کہ سیّدناصر شاہ کی تبدیلی مُلتوی کی گئی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ خدا نے اُن کے بارے میں میری دعا قبول کی…فی الفور مَیں نے اُن کو اطلاع دے دی کہ تمہاری نسبت میری دعا قبول ہوگئی۔ پھر بعد اس کے شاید تیسرے دن یا چوتھے دن ریاست کے کسی اہلکار کا اُن کو خط آگیا کہ آپ کی تبدیلی ملتوی کی گئی۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۹۶)
شیخ زَین العابدین صاحب سکنہ تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور نے بیان کیا کہ’’میری بیوی کو اٹھرا کی بیماری تھی …میں حضرت صاحبؑ کی خدمت میں حاضر ہوا ( اور دُعا کے لئے درخواست کی)فرمایا۔ آپ بھی دُعا کریں اور مَیں بھی دُعا کرتا ہوں۔ ظہر کی نماز کے بعد سے لے کر عصر کی اذان تک حضور ؑنے دُعا کی …حضور ؑنے دُعا ختم کی اور فرمایا تمہاری دُعا قبول ہوگئی اور اٹھرا کی بیماری دُور ہوگئی ہے۔ اِس حمل میں لڑکا ہوگا۔ آپ کی بیوی کی شکل اور بچہ کی شکل بھی مجھے دکھائی گئی ہے …خدا تعالیٰ کے فضل سے دُعا کے بعد اَب تک میرا کوئی بچہ فوت نہیں ہوا۔ چار لڑکے اور تین لڑکیاں زندہ موجود ہیں۔ ‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ جلد ۱۱صفحہ ۶۱ تا ۶۳)
بھائی کے کہنے پر ان کے دوست کے لیے دعا
سردار حیات خان ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطل ہوگیا تھا۔ میرےبڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لیے دعا کرو۔ میں نے دعا کی۔ تو مجھے دکھا یا گیا کہ یہ کرسی پر بیٹھا ہوا عدالت کررہا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو معطل ہوگیا ہے۔ کسی نے کہا کہ اُس جہان میں معطل نہیں ہوا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بحال ہوجائے گا۔ چنانچہ اس کی اطلاع دی گئی۔ اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہوگیا۔ (الحکم جلد۶ نمبر۳۲ مؤرخہ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۲ ء صفحہ ۶ کالم نمبر ۳)
ایک جماعت کی اجتماعی مشکل کے دُور ہونے کے لیے دعا
حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان کرتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور زبردست نشان قبولیت دعا کا بیان کرتا ہوں۔کپورتھلہ کے بعض غیر احمدی مخالفوں نے کپورتھلہ کی احمدیہ مسجد پر قبضہ کرکے مقامی احمدیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ بالآخریہ مقدمہ عدالت میں پہنچا اور کافی دیر تک چلتا رہا۔ کپورتھلہ کے بہت سے دوست فکر مند تھے اور گھبرا گھبرا کر حضرت مسیح موعود ؑکی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دوستوں کے فکر اور اخلاص سے متأثر ہو کر ایک دن ان کی درخواست پر غیرت کے ساتھ فرمایا: گھبراؤ نہیں! اگر مَیں سچا ہوں تو یہ مسجد تمہیں مل کر رہے گی۔ مگر عدالت کی نیت خراب تھی اور جج کا رویہ بدستور مخالفانہ رہا۔ آخر اس نے عدالت میں برملا کہہ دیا کہ ’’تم لوگوں نے نیا مذہب نکالا ہے۔ اب مسجد بھی تمہیں نئی بنانی پڑے گی اور ہم اسی کے مطابق فیصلہ دیں گے‘‘۔ مگر ابھی اس نے فیصلہ لکھا نہیں تھا اور خیال تھا کہ عدالت میں جا کر لکھوں گا۔ اس وقت اس نے اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں بیٹھ کر نوکر سے بوٹ پہنانے کے لئے کہا۔ نوکر بوٹ پہنا ہی رہا تھا کہ جج پر اچانک دل کا حملہ ہوا اور وہ چند لمحوں میں ہی اس حملہ میں ختم ہوگیا۔اس کی جگہ جو دوسرا جج آیا تو اس نے مسل دیکھ کر احمدیوں کو حق پر پایا اور مسجد احمدیوں کو دلا دی۔ (سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ۱۲۵۔۱۲۶)
بعض ہندوؤں کے حق میں قبولیت دعا
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تحریرکرتے ہیں:ایک دفعہ ایک آریہ ملا وامل نام مرض دق میں مبتلا ہو گیا اور آثار نومیدی ظاہر ہوتے جاتے تھے اور اُس نے خواب میں دیکھا کہ ایک زہریلا سانپ اُس کو کاٹ گیا وہ ایک دن اپنی زندگی سے نو مید ہو کر میرے پاس آکر رویا میں نے اُس کے حق میں دعا کی تو جواب آیا قلنا یا نارکُونی بردًا وسلامًا یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ سرد اور سلامتی ہو جا۔ چنانچہ بعد اس کے وہ ایک ہفتہ میں اچھا ہو گیا۔اور اب تک زندہ موجود ہے۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۷۷)
پھر قادیان کے ایک آریہ کے حق میں اپنی ایک دعاکے قبول ہونے کے متعلق ایک جگہ تحریرکرتے ہیں: بشمبر داس بقید ایک سال مقید ہوگیا تھا۔ اور اس کے بھائی شرمپت نام نے جو سرگرم آریہ ہے۔ مجھ سے دعا کی التجا کی تھی اور نیز یہ پوچھا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ میں نے دعا کی اور کشفی نظر سے میں نے دیکھا کہ میں اس دفتر میں گیا ہوں جہاں اس کی قید کی مثل تھی۔ میں نے اس مثل کو کھولا۔ اور برس کا لفظ کاٹ کر اس کی جگہ چھ مہینے لکھ دیا۔ اور پھر مجھے الہام الٰہی سے بتلایا گیاکہ مثل چیف کورٹ سے واپس آئیگی۔ اور برس کی جگہ چھ مہینے رہ جائے گی۔ لیکن بَری نہیں ہوگا۔ چنانچہ میں نے یہ تمام کشفی واقعات شرمپت آریہ کو جو اَب تک زندہ موجود ہے۔ نہایت صفائی سے بتلادیئے۔
اور جب میں نے بتلایا اور بعینہٖ وہ باتیں ظہور میں آگئیں۔ تو اُس نے میری طرف لکھا کہ آپ خدا کے نیک بندے ہو۔ اس لئے اس نے آپ پر غیب کی باتیں ظاہر کردیں۔‘‘(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۷)
سب سے عمدہ دعا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ حقیقت بھی ہم پر آشکار فرمائی کہ اصل دعا تو رضائے الٰہی کے حصول کی دعا ہے اور زندگی کا اصل مقصود بھی یہی ہے۔ اسی لئے اس مقصد کے حصول کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ زندگی کے باقی معاملات خدا خود ہی حل فرما دیتاہے۔ فرمایا:’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو، کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتاہے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دُورکردے اور اپنی رضا مندی کی راہ دکھلائے‘‘۔ ( ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۳۰، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)