یادِ رفتگاں

ایک خاموش عاشق خلافت خواجہ رشید الدین قمر صاحب

(آصف محمود باسط)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

لندن میں سکونت اختیار کرنے کے آغاز کے زمانہ کی بات ہےکہ مسجد فضل کے قریب رہائش ہونے کی وجہ سے اکثر جنازوں میں شامل ہونے کا موقع مل جایا کرتا۔ ہر جنازے پر ایک بزرگ ضرور نظر آیا کرتے ۔ پھر جن جنازوں کے ساتھ ان دنوں میں تدفین کے لیے جانے کا موقع ملا، وہاں بھی یہ بزرگ ہمیشہ نظر آئے۔شروع شروع میں مجھے سچ مچ اُن پر بہت ترس آیا کرتا کہ ہر ہفتے دو ہفتے بعد ان کا کوئی عزیز وفات پاجاتا ہے۔ حیرت بھی ہوتی کہ ایسا آدمی اس قدر حوصلے میں کیسے رہ سکتا ہے؟

پھر معلوم ہوا کہ یہ خواجہ رشید الدین قمر صاحب ہیں اور تجہیز و تکفین و تدفین کی ذمہ داری جماعتی طور پر ان کے سپرد ہے۔ ذمہ داری سپرد ہونا تو ایک الگ بات ہے، مگر کسی ذمہ داری کو اپنا ذاتی فریضہ سمجھ کر ادا کرنا یقیناً نہایت قابلِ رشک ہے۔ خواجہ صاحب کو سالہا سال یہ ذمہ داری سپرد رہی اور انہوں نے بڑی محبت، محنت اور ذاتی دلچسپی کے ساتھ اسے ادا کیا۔

محض ذمہ داری ادا کردینا بھی بڑی بات ہے مگر اس ذمہ داری کو ادا کردینے کے بعد وہاں موجود مرحوم کے لواحقین اور پسماندگان کو محبت سے دلاسےدینا ، ان کے کھانے پینے کا خیال کرنا اور دیگرانتظامات کرنے میں مدد کرنا یقیناً اس سلوک کو احسان کی حدوں میں داخل کرتا ہے۔ خواجہ صاحب اس لحاظ سے بہت سوں کے محسن تھے۔

یہ بات تو مشاہدہ کی حدتک تھی، مگر مجھے ان کے اس احسان کا تجربہ بھی ہوا۔ میرے بہنوئی محترم عبدالشکور صاحب کی وفات رات کے پچھلے پہروں میں ہوئی تھی۔ فجر کے وقت کا انتظار کیا تا کہ خواجہ صاحب سے رابطہ کر کے معلوم کیا جائے کہ اب آگے کیا ہوگا، کیسے ہوگا؟ نماز کے فوراً بعد خواجہ صاحب کے گھر فون کیا تو ان کی اہلیہ نے بتایا کہ ابھی صبح کی سیر سے واپس نہیں آئے۔ واپس آئے تو خود مجھے فون کیا۔ میں نے معاملہ پیش کیا اور انہوں نے بڑے تحمل اور سکون سے رہ نمائی کی ، ضروری فون نمبر وغیرہ دیے اورپھر تجہیز و تدفین کے تمام مراحل میں شامل رہے۔ فون پر بھی اور عملاً بھی۔تدفین کے وقت بھی ساتھ تھے ۔

خواجہ صاحب سے باقاعدہ تعارف تب ہوا جب ایک روز معلوم ہوا کہ ‘‘خواجہ club ’’کی میٹنگ ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اسے رونق بخشیں گے۔ یہ خواجہ صاحب اور ان کے ‘‘club’’سے پہلا تعارف تھا۔ معلوم ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان کے نام پر ایک کلب قائم فرمایا تھا۔ تفصیل تو یاد نہیں مگر یہ معلوم ہوا کہ خواجہ صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ہم راہ روزانہ صبح سیر پر جایا کرتے۔ خواجہ صاحب نے سیر کے دوران لطائف سنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ جو لطائف خواجہ صاحب سناتے، وہ ان کی دانست میں بہت مزاحیہ ہوتے۔ اور حضور رحمہ اللہ لطائف سے زیادہ خواجہ صاحب کی ‘‘دانست’’سے محظوظ ہوتے۔ شاید یہ بھی تھا کہ اس کلب میں شمولیت کے لیے بیوی کا رعب بلکہ خوف ہونا بھی ضروری شرط تھی۔ خواجہ صاحب اس شرط پر بھی بہت باریکی سے پورے اترتے تھے۔

خواجہ صاحب مرحوم سے زیادہ تعارف تب ہوا جب ان کے نواسے عزیزم قاصد معین احمد صاحب، جو تب جامعہ احمدیہ یوکے میں دوسرے یا تیسرے سال میں زیر تعلیم تھے، نے ایم ٹی اے میں کام کرنا شروع کیا۔ ہفتہ بھر کے دوران تو وہ جامعہ میں ہوتے مگر ہفتہ اور اتوار کے روز وہ زیادہ تر وقت ایم ٹی اے میں گزارتے۔ اب خواجہ صاحب سے جب ملاقات ہوتی، وہ قاصد کے بارہ میں ضرور پوچھتے کہ ٹھیک کام کرتا ہے؟ سب اچھا کی رپورٹ دے کر میں ان کا حال پوچھتا تو شاید ہی کبھی ہوتا کہ وہ اپنا حال مجھے بتاتے۔ ہمیشہ اپنی اہلیہ کی صحت کا احوال تفصیل سے بیان کرتے ۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو سرِ راہے کی گئی دعا کی درخواستوں کو یاد رکھتے ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ جس تفصیل سے خواجہ صاحب اپنی اہلیہ کی ناسازیٔ طبع کا حال سناتے اور جس درد کے ساتھ ان کی تکلیف بیان کرتے، شاید کوئی بھی اس تفصیل اور دردکے ساتھ کی جانے والی دعا کی درخواست کو یوں ہی فراموش نہ کرسکتا ہوگا۔

یوں وقت کے ساتھ خواجہ صاحب کے ساتھ تعلق سطحی نہ رہا اور اس میں گہرائی آتی گئی۔ ساتھ دل میں ان کی عزت اور ان کا احترام بڑھتا گیا۔ جب سے انہیں دیکھا تھا، پیرانہ سالی ہی میں دیکھا تھا، مگر ان کی نماز باجماعت میں باقاعدگی سے شمولیت ایسی تھی کہ جوان آدمی بھی شرما جائیں۔ سخت سردی میں مورڈن سے مسجد فضل جاتے اور پھر صبح کی سیر کر کے واپس گھر جاتے۔

صبح کی سیر کی بات چلی ہے تو خواجہ صاحب سے جب بھی بیٹھ کر بات کرنے کا موقع ملا، انہوں نے ہمیشہ ان لمحات کو بہت محبت سے یاد کیا جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ساتھ صبح کی سیر میں گزارے ہوئے تھے۔ حضورؒ باقاعدگی سے صبح کی سیر کو تشریف لے جاتے اور خواجہ صاحب باقاعدگی سے ہم رکابی کا شرف پانے والوں میں ہوتے۔خواجہ کلب نے بھی انہی سیروں کے دوران جنم لیا تھا۔اور خواجہ صاحب کو گو اس بات پر بہت فخر تھا، مگر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کبھی اس کا ذکر تفاخر سے نہ کیا۔ جس طرح ذکر کرتے اسے فخر کہنا بھی شاید درست نہیں۔ یہ ذکر ہمیشہ ایک گہری محبت اور ممنونیت میں گندھا ہوا ہوتا۔

مجھے وہ دن یاد ہیں جب خواجہ صاحب ہاتھ میں چھڑی تھامے صبح کی سیر کیا کرتے۔ مجھے ان کے پڑوس میں بھی رہنے کا موقع ملا اور کئی مرتبہ اپنی گلی میں سےبھی انہیں گزرتے دیکھا۔ وہ دن بھی یاد ہیں جب کار چلایا کرتے تھے۔ پھر وہ دن بھی یاد ہیں جب قاصد صاحب نے بتایا کہ ناناجان کو اب کار چلاتے ہوئے اردگرد کے ڈرائیور حضرات کے بجائے ہوئے horn بہت سننا پڑتے ہیں۔ پھر وہ دن بھی یاد ہے جب خواجہ صاحب نے کار چلانا ترک کردیا۔ وہ دن خواجہ صاحب کی زندگی کی شام کا آغاز بن گیا۔

مگر باجماعت نماز کے ایسے پابند تھے کہ ہر نماز پر پھر بھی نظر آتے رہے۔ ایک بار بتایا کہ بشیر اختر صاحب انہیں بعض نمازوں پر لے آتے ہیں۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ دل سے ان کے ممنون تھے۔ ان دنوں میں خواجہ صاحب سے سرِ راہے ہونے والی ملاقاتوں میں بشیر اختر صاحب کے لیے بھی دعا کی تحریک شامل ہوگئی۔ اب یہ مختصر فہرست تین افراد پر مشتمل ہوگئی۔ ایک ان کی اہلیہ جو علیل تھیں۔ قاصد جو اُن کا نواسہ ہے اور واقفِ زندگی ہے،اس وقت مربی بن رہا تھا، اس کے اچھے واقفِ زندگی ہونے کے لیے ۔ اور تیسرے بشیر اختر صاحب جو انہیں نمازوں پر ساتھ لے آتے تھے۔

پھر ایک دن خواجہ صاحب کو ضعفا ءکے لیے بنے سکوٹر پر مسجد آتے دیکھا۔ ان سے ملنے کے لیے میں بڑھ رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ کیسے دلاسا دوں گا کہ انہیں یہ سکوٹر چلانا پڑ رہا ہے۔ مگر جب ان سے ملا تو ان کی طبیعت بشاش تھی۔ چہرہ پر طمانیت تھی۔ وہی خوشی جو خود کار چلا کر نماز باجماعت پرآتے وقت ہوا کرتی تھی۔ باجماعت نماز پر آنے کے لیے احتیاج جو جاتا رہا تھا۔

ایک روز دیکھا کہ خواجہ صاحب اچھے وقتوں کی طرح کچھ فائلیں بغل میں دبائے چلے آرہے ہیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ فارغ وقت میں جنرل سیکرٹری صاحب کے دفتر میں رضاکارانہ خدمت کرنے کے لیے آجاتا ہوں۔خواجہ صاحب خود جماعت احمدیہ یوکے کے جنرل سیکرٹری رہے تھے۔ پھر وقت گزرا اور ساتھ بہت کچھ گزر گیا۔ مگر دین کی خدمت کا جذبہ ایسا تھا کہ اسی دفتر میں ہر طرح کی خدمت کے لیے حاضر رہنے میں کوئی عار محسوس نہ کی۔

نہ صرف خدمتِ دین میں خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، بلکہ دین کی خدمت کرنے والوں کے لیے بھی خواجہ صاحب کا دل محبت سے بھرا رہتا۔ مجھ تک سے جس طرح محبت کا اظہار کرتے، وہ بیان نہیں کروں گاکیونکہ مجھے تب بھی ان کے الفاظ سن کرشرمندگی ہوتی، آج یہ سطور لکھتے وقت بھی ہورہی ہے۔

جن کو ان کےساتھ کام کرنے کام موقع ملا، وہ سب اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے بہت باریکی سے ان کا خیال رکھا۔خواجہ صاحب کے ساتھ کام کرنے والے ایک دوست بتاتے ہیں کہ جن دنوں ان کے اسائیلم کی درخواست زیرِ غورتھی (اور ان صاحب کی درخواست نے زیر غور رہنے کے ریکارڈ قائم کیے ۔ شاید پندرہ سال تک زیر غور ہی رہی)، خواجہ صاحب کبھی ان کے لیے کھانا لے آتے،کبھی انہیں ہیٹر خرید دیا،کبھی کپڑے لے آتے کہ اس موسم میں یہ کپڑے پہنو، وغیرہ۔ غرض ضرورت مندکا خیال کرنا ان کی سرشت میں تھا ۔

اب خواجہ صاحب اپنے چھوٹے سے سکوٹر پر مسجد آنے لگے، تو سب نے سمجھا کہ اب سب ٹھیک ہے۔ خواجہ صاحب کی موجودگی پھر ایک معمول کا حصہ بن گئی۔ مگر پیرانہ سالی ان کے حوصلے کے ذخیرے پر حملہ آور ہوچکی تھی۔ یہ حوصلہ خواجہ صاحب کی زندگی کا اثاثہ تھا۔ ابھی نوجوان ہی تھے کہ ملازمت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ تعلیم بھی خود ہی اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کی جبکہ حالات اس کے لیے ہر گز سازگار نہ تھے۔ پھر آسٹریلیا میں قیام کی باتیں بھی سناتے کہ کیسے وہاں کئی سال رہے۔ پھر برطانیہ آگئے۔ یہاں برٹش ائیرویز میں معزز عہدے پر فائز رہے۔ غرض خواجہ صاحب ایک self made آدمی تھے۔ ایسے آدمی کا کل اثاثہ اس کا حوصلہ ہی ہوا کرتا ہے۔ سو اب کی بار جو پیرانہ سالی نے حملہ کیا، تو وار کارگر ہوگیا۔ مجھے قاصد سے معلوم ہوا کہ اب وہ گھر پر ہی رہتے ہیں اور بہت خاموش رہتے ہیں۔
میں تیمار داری کے لیے حاضر ہوا۔ اپنی خواب گاہ میں تھے اور بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ بالکل خاموش تھے۔ ٹہلتے ٹہلتے تھک گئے تو بستر پر لیٹ گئے۔ زیادہ تر خاموش ہی رہے۔ میں نے باتیں کرنے کی کوشش کی تو میرا دل رکھنے کو مختصر سا جواب دے دیتے اور پھر خاموش ہوجاتے۔جس بستر پر لیٹے ہوئے تھے، اس کے سرہانے جائےنماز رکھا تھا۔ قرآن کریم رکھا تھا ۔ ان دنوں یہی خواجہ صاحب کی کل کائنات تھی۔

خواجہ صاحب کی زندگی کے جو پہلو اور ادوار میں نے دیکھے، مختصر بیان کردیے ہیں۔ اس لیے کہ میرے دل میں ان کے لیے بہت محبت اور احترام ہے ۔مگر اس بیان کی ایک وجہ اور بھی ہے اور وہ وجہ ایسی ہے جو ہم سب کے لیے قابلِ تقلید ہے۔

ان تمام ادوار میں خواجہ صاحب نے ہمیشہ حضرت خلیفۃ المسیح سے ایسی گہری وابستگی کا اظہار کیا، اور ایسی محبت سے ذکر کیا کہ رشک آتا تھا۔ ‘‘میں نے حضور کو دعا کے لیے لکھا ہے’’۔ ‘‘میں نے ابھی حضور کو دعا کے لیے لکھنا ہے’’۔ ‘‘میں نے حضور کو پرسوں دعا کے لیے لکھا تھا، اب آج دوبارہ لکھنا ہے’’۔ ‘‘ملاقات کے لیے درخواست دی ہوئی ہے’’۔ ‘‘ملاقات ہوگئی ہے اور حضور نے بڑی محبت سے یہ فرمایا ہے’’۔ ‘‘کافی دیر ہوگئی ملاقات کے لیے نہیں گیا۔ اب درخواست دی ہوئی ہے’’۔

یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہ ہوگا کہ خواجہ صاحب جس حال میں بھی رہے، جن حالات سے بھی گزرے، ان کے تحت الشعور میں خلافت کی محبت کا بسیرارہا۔یہ محبت ہر جذبے، ہر کیفیت، ہر تکلیف، ہر پریشانی میں اپنی جگہ پرقائم رہی۔ محترم خواجہ صاحب خلافت کے ایک خاموش عاشق تھے۔

ایک اَور بات جو یہاں قابلِ ذکر ہے وہ یہ ہے کہ خلافتِ رابعہ کے زمانہ میں خواجہ صاحب کو جو محبت، شفقت اور توجہ حاصل رہی، اس میں اندیشہ ہوتا ہے کہ انسان کہیں اسی دور میں نہ اٹک کر رہ جائے۔ مگر خواجہ صاحب نے ان محبتوں کو ایاز کی طرح ایک صندوق میں رکھا۔ ان یادوں کی زیارت بھی گاہے گاہے کرتے رہتے۔ مگر خلیفۂ وقت کے ساتھ اسی وابستگی، اسی محبت، اسی وارفتگی، اسی جوش سے چمٹے رہے۔ میں نے ان میں نہ ستائش کی تمنا دیکھی، نہ صلے کی پروا۔ صرف خلیفۂ وقت سے بے پناہ محبت دیکھی۔ اللہ ہم سب کو خلافت سے بے پناہ محبت کرنے کی توفیق دے ۔

بہرحال، خواجہ صاحب کی صحت گرتی گئی۔ پھر سنا کہ ہسپتال میں داخل ہوگئے ہیں۔ پھر ڈاکٹروں کے جواب دے دینے کی خبر سے دل کو دکھ ہوا۔ پھر پتہ چلا کہ چل چلاؤ ہے۔ اور پھر ایک صبح خواجہ صاحب کی خبر آگئی۔

16؍اکتوبر2019ءکی صبح خواجہ صاحب انگلستان کے مشہور قبرستان Brookwood میں دفنا دیے گئے۔ میں تدفین کے وقت جب قبرستان پہنچا، تودور سے ہجوم میں ان کےسے قدوقامت والا، سفید بالوں والا جو بھی نظر آیا، گمان گزرا کہ خواجہ صاحب کھڑے ہیں۔ وہ ہر ایسے موقع پر پیش پیش جو ہوتے تھے۔ انہیں سالہا سال ایسے مواقع پر ہی تو ہمیشہ دیکھا ہوا تھا۔

پھر خواجہ صاحب کا تابوت لایا گیا۔ جب انہیں لحد میں اتارا جانے لگا، تو ہر طرف سے ‘‘ایسے نہیں ویسے۔ویسے نہیں ایسے۔بھئی ادھر سے سیدھا کرو۔ یہاں نہیں ،وہاں رکھو’’جیسی ہدایات سنائی دینے لگیں۔ یہ ہدایات سالہا سال تک خواجہ صاحب دیا کرتے۔ یہ ہدایات ان کی آواز میں سنی ہوئی تھیں۔ آج خواجہ صاحب خاموشی سے اپنے تربیت یافتہ احباب کی یہ آوازیں سن رہے تھے۔ وقت بھی کیا کیا رنگ دکھاتا ہے!

محترم خواجہ صاحب مرحوم نے زندگی بھر وفات پاجانے والے احمدی احباب کو Brookwood قبرستان میں سپردِ خاک کیا۔ آج اسی قبرستان کی خاک خود اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو گئے۔

اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت کرے ۔ بڑے پیارے آدمی تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button