الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے پُرمعارف لطائف
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۴؍دسمبر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب کے قلم سے ’’مکتوباتِ احمدؑ (جلد دوم)‘‘ سے حضرت مسیح موعودؑ کے چند پُرمعارف حقائق و لطائف میں سے انتخاب پیش کیا گیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
٭…’’اعمال صالحہ جو شرط دخولِ جنت ہیں دو قسم کے ہیں۔ اوّل وہ تکلیفات شرعیہ جو شریعت نبویہؐ میں بیان فرمائی گئی ہیں اور اگر کوئی ان کے ادا کرنے میں قاصر رہے یا بعض احکام کی بجاآوری میں قصور ہوجائے اور وہ نجات پانے کے پورے نمبر نہ لے سکے تو عنایت الٰہیہ نے ایک دوسری قسم جو بطور تتمہ اور تکملہ شریعت کے اس کے لیے مقرر کردی ہے اور وہ یہ کہ اس پر کسی قدر مصائب ڈالی جاتی ہیں اور اس کو مشکلات میں پھنسایا جاتا ہے … بلکہ اَور مکروہات بھی اور کئی جسمانی عوارض بھی اس کی جان کو تحلیل کرتے ہیں۔ تب خدا کے کرم اور فضل اور عنایت کا وقت آجاتا ہے اور دردانگیز دعائیں اس قفل کے لیے بطور کنجی کے ہوجاتی ہیں۔ معرفت زیادہ کرنے اور نجات دینے کے لیے یہ خدائی کام ہیں۔‘‘ (صفحہ۲۹۳)
٭… ’’آپ کو یاد رہے ہمارا آقا و مولیٰ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ نہایت درجہ کا مہربان اور رحیم و کریم ہے …کبھی کبھی وہ اپنے بندہ کی آزمائش بھی کرتا ہے لیکن آخرکار رحم کی چادر سے ڈھانک لیتا ہے۔ اس پر جہاں تک ممکن ہو توکّل رکھو اور اپنے کام اس کو سونپ دو۔ اُس سے اپنی بہبودی چاہو مگر دل میں اُس کی قضاءوقدر سے راضی رہو۔ چاہئے کہ کوئی چیز اُس کی رضا سے مقدّم نہ ہو۔ … آپ درویشانہ سیرت سے ہر یک نماز کے بعد گیارہ دفعہ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلّا بِاللّٰہِ الْعَلِیّ الْعَظِیْم پڑھیں اور رات کو سونے کے وقت معمولی نماز کے بعد کم سے کم اکتالیس دفعہ درودشریف پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھیں اور ہر یک سجدہ میں کم سے کم تین دفعہ یہ دعا پڑھیں: یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔ پھر نماز پوری کرکے سلام پھیر دیں اور اپنے لیے دعا کریں۔‘‘ (صفحہ ۲۹۱)
٭…مولوی مبارک علی صاحب کی طویل رخصت پر اُن کی ملازمت سے برخاستگی کا معاملہ پیش ہوا تو حضورعلیہ السلام نے فرمایا: ’’عفو اور کرم سیرت ابرار میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے …عفو اور درگذر کی عادت ڈالو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہاری تقصیریں معاف کرے اور خدا تو غفور رحیم ہے۔ پھر تم غفور کیوں نہیں بنتے۔ اس بناء پر ان کا یہ معاملہ درگذر کے لائق ہے۔ … ایسا نہ ہو کہ آپ کی سخت گیری کچھ آپ ہی کی راہ میں سنگ راہ نہ ہو۔ ایک جگہ مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا جس کے اعمال کچھ اچھے نہ تھے۔ اُس کو کسی نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس نے کہا کہ خداتعالیٰ نے مجھے بخش دیا اور فرمایا کہ تجھ میں یہ صفت تھی کہ تُو لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا اس لیے مَیں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں۔ سو میری صلاح یہی ہے آپ اس امر سے درگزر کرو تا آپ کو خداتعالیٰ کی جناب میں درگزر کرانے کا موقع ملے۔‘‘ (صفحہ۲۸۷)
٭… ’’بغیر استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں۔ ہمارا اس میں طریقہ یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کرکے دو رکعت نماز کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ پڑھیں …اور دوسری رکعت میں سورۃفاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص … التحیات میں آخر میں اپنے سفر کے لیے دعا کریں کہ یاالٰہی! مَیں تجھ سے کہ تُو صاحب فضل اور خیر اور قدرت ہے۔ اس سفر کے لیے سوال کرتا ہوں کیونکہ تُو عواقب الامور کو جانتا ہے اور مَیں نہیں جانتا۔ اور تُو ہر ایک امر پر قادر ہے اور مَیں قادر نہیں۔ سو یا الٰہی! اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سراسر میرے لیے مبارک ہے، میری دنیا کے لیے، میرے دین کے لیے اور میرے انجام امر کے لیے اور اس میں کوئی شر نہیں۔ تو یہ سفر میرے لیے میسر کردے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا۔ اور اگر تُو جانتا ہے کہ یہ سفر میرا میری دنیا یا میرے دین کے لیے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ دہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے اور اس سے مجھ کو پھیر دے۔ آمین
یہ دعا …تین دن کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا بار بار کرنے سے اخلاص میسر آوے۔ آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپرواہ ہیں حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے۔…خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ استخارہ کے بعد متولّی اور متکفّل ہوجاتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک اپنی منزل تک نہ پہنچے۔‘‘ (صفحہ241)
٭… حضورؑ فرماتے ہیں: ’’دعاؤں میں اثر ہوتے ہیں مگر صبر سے ان کا ظہور ضرور ہوتا ہے۔…دعا سے بڑے بڑے انقلاب پیدا ہوجاتے ہیں۔ دعا زمین سے لے کر آسمان تک اپنا اثر رکھتی ہے۔ عجیب کرشمے دکھاتی ہے۔ ہاں پورے طور پر اس زندہ دعا کا ظہور میں آجانا اور ہوجانا ہی خداتعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔‘‘ (صفحہ۳۸۳)
٭… حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’محبت ایک خاص حق اللہ جلّشانہٗ کا ہے۔ جو شخص اس کا حق دوسرے کو دے گا وہ تباہ ہوگا۔ تمام برکتیں جو مردانِ خدا کو ملتی ہیں، تمام قبولیتیں جو اُن کو حاصل ہوتی ہیں، کیا وہ معمولی وظائف سے یا معمولی نماز روزہ سے ملتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ توحید فی المحبتسے ملتی ہیں۔ اُسی کے ہوجاتے ہیں، اُسی کے ہورہتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے دوسروں کو اس کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ مَیں خوب اس درد کی حقیقت کو پہنچتا ہوں کہ جو ایسے شخص کو ہوتا ہے کہ یکدفعہ وہ ایسے شخص سے جدا کیا جاتا ہے جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے۔ لیکن… ہمیشہ سے میرا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ غم سے مستقل محبت کرنا کہ جس سے للّٰہی محبت باہر ہے خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست، کوئی ہو۔ ایک قسم کا کفر اور کبیرہ گناہ ہے جس سے اگر شفقت و رحمتِ الٰہی تدارک نہ کرے تو سلب ایمان کا خطرہ ہے۔‘‘ (صفحہ ۵۳۵)
٭… ’’ہر ایک شخص فانی لذّت کا طالب اور شیطانی خیال اس پر غالب ہے۔ مومن پر شیطان غالب نہیں آتا کیونکہ وہ خداتعالیٰ سے بیعت الموت کرچکا ہے۔ شیطان پر وہی فتح پاتا ہے جو بیعت الموت کرے۔‘‘ (صفحہ۵۷۱)
٭…’’وحی میں ضروری نہیں ہوتا کہ الفاظ بھی خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں بلکہ بعض وحیوں میں صرف نبی کے دل میں معانی ڈالے جاتے ہیںا ور الفاظ نبی کے ہوتے ہیں۔ اور تمام پہلی وحییں اسی طور کی ہیں۔ مگر قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ پہلی وحیوں کے معانی بھی معجزہ کے حکم میں تھے مگر قرآن کریم شریف معانی اور الفاظ دونوں کی رُو سے معجزہ ہے۔اور تورات میں یہ خبر دی گئی تھی۔‘‘ (صفحہ۶۱۷)
………٭………٭………٭………
زمانۂ مہدی اور سائنسی کرامات
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۱؍مارچ ۲۰۱۴ء میں مکرم ڈاکٹر محمود احمد ناگی صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دَور میں ہونے والی چند اہم سائنسی ایجادات اور دریافتوں کا اختصار سے احاطہ کیا گیا ہے۔
انجینئرنگ کے حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن کریم کی دو سمندروں کو ملانے کی پیشگوئی نہر سویز (۱۸۶۹ء) اور نہر پانامہ (۱۹۱۴ء)کی تعمیر کے نتیجے میں حضرت مسیح موعودؑ کے دَور میں پوری ہوئی۔ اسی طرح کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے قرآن کریم کی پیشگوئی پرنٹنگ پریس کی ایجاد، لائبریریوں کے قیام اور میڈیا کی ترقی کے دیگر ذرائع کی ایجاد سے نہایت شان سے پوری ہوچکی ہے۔
اسی دَور کی برکت سے کئی اتفاقیہ ایجادات بھی ہوئیں جنہوں نے بنی نوع انسان کی بھرپور خدمت کی۔ ان میں ایک جرمن ماہر طبعیات Wilhelm Conard کے ہاتھوں ایکس ریز (۱۸۹۵ء میں) حادثاتی طور پر دریافت ہوگئیں تو اُس نے ان شعاعوں کو ’نامعلوم شعاعیں‘ قرار دیا۔ سب سے پہلے اُس نے اپنی بیوی کے ہاتھ کا ایکسرے لیا۔ اس دریافت نے جو انقلاب برپا کیا اُس کا ذکر کئی کتابوں کا متقاضی ہے۔ ایکسریز کی ایجاد کے اگلے ہی سال مختلف دھاتوں سے ایکس ریز کے اخراج سے متعلق کیے جانے والے تجربات کے نتیجے میں Henery Becquerrel نے ریڈیائی لہریں اتفاقیہ طور پر دریافت کرلیں جب اُس نے یورینیم پر تجربہ کیا۔ اس دریافت کے نتیجے میں ایٹم کے اندر پوشیدہ لامتناہی طاقتوں کو زیر کیا جاسکا اور مادام کیوری اور اس کے خاوند نے اس میں کمال حاصل کرتے ہوئے جو تجربات کیے اس پر انہوں نے پہلی نوبیل انعام یافتہ خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
پلاسٹک کی حادثاتی تیاری یوں ہوئی کہ ۱۸۳۹ء میں Charles Goodyear نے انجانے میں ایک کیمیائی ترکیب سے ربڑ کو پائیدار بنایا۔ ۱۸۴۶ء میں ایک سوئس کیمیاگر Charles Schonbein سے ایک کیمیائی عمل میں پلاسٹک حادثاتی طور پر بن گیا۔ بعد میں پلاسٹک کی بےشمار اقسام کی ایجادات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جو آج بھی جاری ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے ظہور کے ساتھ ہی سائنس میں آنے والے انقلابات کے نتیجے میں بےشمار سائنس دانوں کے نام سامنے آتے ہیں جن میں البرٹ آئن سٹائن کو وہ مقام حاصل ہے کہ اُس کے کئی مقالہ جات پر نوبیل انعام مل سکتا تھا۔ تاہم اُس کو یہ انعام Photoelectric Effect پر ملا اور اُس کا یہ کام ایٹمی بجلی گھر کی تیاری اور ایٹم بم بنانے کا باعث بنا۔ جب جاپان پر ایٹم بم گرایا گیا تو اُس نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُس کا کام تو انسانیت کی خدمت تھا۔ بہرحال اُس کو ’صدی کا سائنسدان‘ کہا جاتا ہے۔
مضمون کے آخر میں اٹھارہ نہایت اہم ایجادات اور دریافتوں کا بیان اُن کے سن ایجاد اور موجد کے اسماء کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ان ایجادات میں ٹیلیگراف، ٹیلیفون، ریڈیو، ایٹم بم، جہاز اور کیموتھراپی کی ایجاد، نیز الیکٹران، روشنی کی رفتار، تابکاری شعاعیں، ایکس ریز، بےہوشی طاری کرنے کے لیے دی جانے والی دوا انستھیزیا، ملیریا بخار کی دوا اور تپ دق کے علاج کی دریافت کے علاوہ جراثیموں کی دریافت اور ان کے علاج سے متعلق پیش رفت شامل ہیں۔ ان ایجادات کے نتیجے میں بنی نوع انسان کے لیے انقلابات کا ایسا دروازہ کھلا جو تاریخ کا حصہ ہیں۔
………٭………٭………٭………