میری پیاری دادی جان
میری دادی جان محترمہ رحمت بی بی صاحبہ زوجہ فیض احمد صاحب مرحوم مقبوضہ کشمیر کے علاقہ چار کوٹ میں پیدا ہوئیں۔ میرے داد ا جان حضرت قاضی محمد اکبر صاحب آف چارکوٹ ؓکے پوتے تھے۔ یعنی آپ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل میں سے تھے۔
دادی جان چند دن علیل رہنے کے بعد مورخہ ۲۸؍ستمبر۲۰۲۳ء صبح چار بج کر پندہ منٹ پر بعمر ۸۲؍ سال گوجرانوالہ میں خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئیں۔
بلانے والا ہے سب سے پیارااُسی پہ اے دل تُو جاں فدا کر
دادی جان تمام خاندان کے لیے دعائوں کا خزانہ تھیں۔ آپ کا وجود بہت سی خوبیوں کا مالک تھا۔ آپ نہایت شفیق انسان تھیں۔ اللہ تعالیٰ پر کامل توکل اور پختہ ایمان تھا۔ خلافت سے محبت کرنے والی، نماز روزہ کی پابند، کم گو، لیکن ملنسار، خوش اخلاق، خدمت گزار، عزیزوں رشتہ داروں کا خیال رکھنے والی تھیں۔ آپ میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی جو کہ ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ آپ نے کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ طبیعت کتنی ہی ناساز ہو مگر آپ نے کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ وفات سے قبل ایک دن پہلے کی مثال ہے ۔ ہسپتال میں آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ آپ نے پوچھا کہ فجر کی نماز کا ٹائم ہوگیا ہے؟ میں نے بتایا ہاں جی۔ تو پوچھا قبلہ کس طرف ہے؟ میں نے اشارہ کرکے بتایا۔ آکسیجن لگنے کے باوجود آپ نے قبلہ رُخ ہونے کی کوشش کی تو خاکسار نے بتایا کہ امّاں آپ کسی حالت میں بھی نماز پڑھ سکتی ہیں تو آپ نے نماز ادا کی۔
آپ نے اپنے بہن بھائیوں، رشتہ داروں سے بہت ہی پیار کا تعلق رکھا ۔ ہر ایک کو دعا دینا اور محبت سے ملنا آپ کی خصوصیت تھی۔
قرآن مجید سے آپ کو غیر معمولی عشق تھا۔ برادری اور دوسرے غیر از جماعت بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھانے کی سعادت حاصل کی۔ آپ کو قرآن کریم کا بہت سارا حصّہ حفظ تھا۔
اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ہسپتال میں آکسیجن لگی ہوئی تھی تو خاکسار کی بڑی ہمشیرہ کو بُلایا اور کہا کہ مجھے سورت یٰسین پڑھائو۔ جب عزیز پاس آگئے تو خود اُن سب کو زبانی پڑھانا شروع کردیا۔ پوری سورت زبانی پڑھنے کے بعد، آیت الکرسی، سورۃ البقرۃ کا آخری رکوع ادعیۃ الرسولؐ، قرآنی دعائیں، ادعیۃ المسیح الموعودؑ، درود شریف اور خلافت جوبلی کی دعائیں بلند آواز میں پڑھنے کی بھی توفیق پائی۔ وارڈ میں موجود سٹاف اور دیگر غیر از جماعت لوگوں نے بھی یہ دیکھا اور تعریف کی کہ انہوں نے ایک مثال قائم کی ہے۔
بچپن ہی سے ہمیں دادی جان کا بہت پیار ملا ۔ ہمیں قرآن پڑھانے کے ساتھ ساتھ، دیگر دعائیں یاد کروائیں اور دینی واقعات سنایا کرتی تھیں۔
آپ کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ بہت مہمان نواز تھیں۔ کوئی اپنا ہو یا پرایا، گھر میں کوئی بھی مہمان آتاتو مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ رہنے دیتیں۔ بیماری کے آخری ایام میں بھی آپ کو آخر تک یہی فکر لگی رہی کہ جو مہمان آئے ہیں اُن کا کھانا بنا یا کہ نہیں، فلاں نے کھانا کھایا کہ نہیں۔ آپ وفادار، اطاعت گزار اور فرمانبردار بیوی تھیں۔ اچھی بیوی، اچھی ماں، اچھی ساس، اچھی دادی، اچھی نانی اور سب سے بڑھ کر بہترین انسان تھیں۔ وفات سے ایک دن قبل بیٹوں کو بُلایا اور پوچھا کہ کیا میرے تمام چندہ جات مکمل ہیں اور ساتھ ہی یہ نصیحت کی کہ اپنے بزرگان کا چندہ بھی ہمیشہ دیتے رہنا۔
آپ ایسا نیک وجود تھیں کہ ہسپتال میں بیمار ہونے کے باوجود کسی قسم کی بے چینی اور گھبراہٹ کے آثار آپ کے چہرے پر موجود نہ تھے اور بار بار میری ہمشیرہ کو یہی کہتیں کہ جو اللہ کی رضا اُس پر راضی ہیں اور یہ شعر دہرایا ’’راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو‘‘۔ ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے آپ اللہ کے پاس جانے کی تیاری کررہی ہیں اور آپ کو اس بات کا علم ہے۔ ایسا خاتمہ بالخیر اور خوبصور ت موت اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو ہی عطا کرتا ہے۔
آپ نے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے ہیں۔ جن میں سے ایک بیٹا مربی سلسلہ ہے اور ایک بیٹا بطور نائب امیر شہر اور جنرل سیکرٹری ضلع اور باقی بیٹے بھی خدمت دین کی توفیق پا رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے ایک پوتا مربی سلسلہ اور دو پوتے متعلم جامعہ احمدیہ ہیں۔
دُعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میری دادی جان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی رحمت کی آغوش میں رکھے اور ہم سب کو آپ کی تمام نیکیاں زندہ رکھنے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ آمین