مکرم عبداللہ ادریس صاحب آف گھانا
جماعت احمدیہ گھانا کے ایک انتہائی مخلص ممبر مکرم عبداللہ ادریس صاحب مورخہ ۱۳؍جنوری ۲۰۲۴ء کو ۷۹؍سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔
مرحوم مکرم عبدالغفار احمد صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ (نوٹنگھم یوکے) کے ہم زلف تھے۔مکرم عبد اللہ ادریس مرحوم کا تعلق گھانا کے شمال مغربی ریجن اپر ویسٹ کے شہر(دارالحکومت) وا سے تھا۔ مرحوم ڈائریکٹر زراعت اور لائیو سٹاک کے شعبہ کے انچارج تھے اور اپنی ملازمت کے سلسلہ میں دارالحکومت اکرا میں قیام پذیر تھے۔ مرحوم کو ایک حادثے کے باعث کمر کے مہرے میں فریکچر ہو گیا تھا جس کی وجہ سے بیساکھی یا چھڑی کے سہارے سے بہت آہستہ اور بہت تھوڑا چل سکتے تھے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ حادثے کے بعد انہیں گمان بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اٹھ کر بھی بیٹھ سکیں گے لیکن یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ وہ نہ صرف بیٹھنے بلکہ اتنا چلنے اور گاڑی چلانے کے قابل ہوگئے کہ جس کے نتیجہ میں ان کے لیے اپنی ملازمت جاری رکھنا ممکن ہو گیا۔ الحمد للہ علی ذالک۔
دسمبر ۱۹۹۱ء میں خاکسار اپنےتقرر کے سلسلہ میں گھانا گیا تو گھانا میں خاکسار کا پہلا سٹیشن وا اپرویسٹ ریجن تھا۔ اس شہر میں مکرم عبداللہ ادریس صاحب کا ایک کوٹھی نما بڑا گھر تھا۔ نیز ان کے تین چھوٹے بھائی بھی اسی شہر میں رہتے تھے۔ مرحوم ہر سال اپنی فیملی کے ساتھ ایک ماہ کی چھٹیاں گزارنے وا آیا کرتے تھے اور اپنے قیام کے دوران اپنے خاندان کے افراد کے لیے ایک خاص دعوت کا اہتمام کیا کرتے تھے اور خاکسار کو بھی اس میں مدعو کرتے اور کہتے کہ آپ بھی میرے خاندان کے ایک فرد ہیں۔ وا میں تقریباً پونے تین سال خدمت کے بعد خاکسار کا تبادلہ ’’گریٹر اکرا‘‘ ریجن میں ہوا۔ خاکسار کا قیام اکرا کے قریب واقع ایک تجارتی شہر ٹیما میں تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد مکرم عبداللہ ادریس صاحب مرحوم گریٹر اکرا ریجن کے ریجنل صدر منتخب ہوئے تو ان سے دوستی کا تعلق اَور بھی گہرا اور مضبوط ہو گیا۔ اپنی معذوری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مرحوم بڑی ہمت، محنت جانفشانی اور خلوص کے ساتھ جماعتی خدمت میں پیش پیش ہوتے۔ مختلف جماعتوں، سرکٹس کے دورہ جات اور دیگر میٹنگز میں ہم اکھٹے جایا کرتے تھے چونکہ گریٹر اکرا ریجن کی زیادہ تر جماعتیں اکرا شہر اور اس کے گرد ونواح میں تھیں اس لیے خاکسار ٹیما سے اکرا میں ان کے ہاں آ جاتا اور ہم اکٹھے جماعتی دورہ جات، میٹنگز اوردیگر پروگراموں میں شرکت کے لیے جایا کرتے تھے۔ خصوصی طور پر رمضان کے مہینے میں نماز تراویح اور افطاری کے پروگراموں میں شمولیت کے لیے جاتے تھے۔ وہ بہت ہی یادگار دن تھے۔ الحمد للہ علی ذالک۔ مرحوم کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی وہ بڑے اہتمام اور استقلال کے ساتھ اپنے دفتر سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے نیشنل ہیڈ کوارٹرز کی مسجد میں آیا کرتے تھے۔ اسی طرح مرحوم احمدی نوجوانوں کی تعلیم اور ملازمتوں کے سلسلہ میں بھی تعاون کرتے خصوصاً ان کی خواہش تھی کہ احمدی نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور سول سروس میں جائیں اور اس ضمن میں وہ احمدی نوجوانوں کی راہنمائی بھی کرتے تھے۔ مرحوم اپنی ہمت اور انہی خوبیوں کے باعث گھانا جماعت میں بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ فجزاھم اللّٰہ احسن الجزاء
مارچ ۱۹۹۹ء میں خاکسارکا تقرر گھانا سے انگلستان میں ہو گیا۔ لیکن اس دن سے ان کی وفات تک ان سے مسلسل رابطہ قائم رہا۔ خصوصاً سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ اس وساطت سے ہفتہ میں ایک دو دفعہ پیغامات اور مہینہ میں ایک دو دفعہ فون پر رابطہ رہتا تھا۔ ان کے دو چھوٹے بھائی عبدالصمد ادریس اور بشیرالدین ادریس کافی عرصہ پہلے وفات پاگئے تھے جس کے بعد ان کے بچوں کی نگرانی بھی کرتے تھے۔ آپ کے بھائی مکرم بشیر الدین ادریس بہت خاص انسان تھے جس دوران خاکسار کو وا میں خدمت کی توفیق ملی وہ ہمارے خدام الاحمدیہ کے ریجنل قائد تھے اور بڑے خلوص اور محنت کے ساتھ خدمت کرتے تھے۔ خاکسار نے ان کی وفات پر ایک مضمون بھی لکھا تھا جو الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہوا تھا۔
مکرم عبداللہ ادریس مرحوم ہمیشہ اپنی گفتگومیں دونوں مرحوم بھائیوں کے بچوںاور اپنی بیٹیوں کے بارے نیز جماعت احمدیہ گھانا کے عمومی حالات کے متعلق بتاتے۔خاکسار کی بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں ضرور پوچھتے اور دعائیں دیا کرتے تھے۔ وفات سے چند روز قبل بھی ان کا سلام آیا اور پھر اچانک ان کی ایک عزیز نے ان کی وفات کی خبر دی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو جنت الفروس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آمین