معتکفین کی عبادت اور دعاؤں میں خلل انداز ہونا ثواب کا کام نہیں!
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہماری اس مسجد میں اور ممکن ہے دوسری مساجد میں بھی، بعض لوگ معتکفین کی خلوت میں خلل انداز ہونے کی کوشش کرتے ہوں۔
انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں کرتا…معتکف کو دعا کے لئے کہنا ہی ہے تو اعتکاف بیٹھنے سے پہلے کہہ دیں یا اس کے لئے کوئی ایسا طریق اختیار کریں جو معتکف کی عبادت اور دعا میں خلل نہ ڈالے…تم اس چیز کو جسے ان کے خدا اور رسولؐ نے اور تمہارے خدا اور رسولؐ نے ان کے لئے پسند کیا ہے یعنی خالص تنہائی اور خلوت ان سے چھین لیتے ہو۔ یہ کپڑے کی عارضی دیواریں اس بات کی علامت ہیں کہ ان لوگوں کو خلوت میسر آنی چاہئے اور یہ کہ دنیا کی نظر سے جو انہیں پریشان کرتی ہے اور ان کے وقت کو ضائع کرتی ہے یہ لوگ آزاد اور محفوظ رہنا چاہتے ہیں یہ دیواریں حدود اللہ کو قائم رکھنے والی چیزیں ہیں اور آنے والے کو خبردار کرتی ہیں کہ آگے نہ جائیں کیونکہ خداتعالیٰ کا ایک بندہ اپنے ربّ کو یاد کر رہا ہے اور تم جرأت کرکے ایک آدھ لڈو یا کچھ مٹھائی اور دعا کے لئے پیغام پہنچانے کے لئے ان کے اوقات کو ضائع کر رہے ہو…آپ محض دعا کی درخواست کرنے اور تھوڑی سی مٹھائی دینے کی خاطر معتکف بھائیوں کو ناجائز طور پر تنگ کرتے ہیں۔
معتکفین کی عبادت اور ان کی دعائوں میں خلل انداز ہونا ثواب کا کام نہیں اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے اگر ضروری طور پر دعا کی درخواست کرنا ہی ہے تو اجتماعی طور پر دعا کی درخواست کر دی جائے یا اعتکاف بیٹھنے سے پہلے دعا کی درخواست کر دی جائے یا اس کام کے لئے کوئی ایسا وقت تلاش کیا جائے جس میں ان کی عبادت اور دعا میں خلل واقع نہ ہو۔ گو مجھے ان دنوں میں کوئی وقت ایسا نظر نہیں آتا جو دعا اور عبادت سے خالی ہو۔ دعا کا دروازہ آپ سب کے لئے کھلا ہے جہاں ان دنوں میں معتکف بھائی دعا کرتے ہیں آپ بھی دعا کر سکتے ہیں پھر دعا اور صدقہ خیرات کے اور کئی مواقع ہیں۔ ان سے فائدہ اُٹھایا جائے۔معتکف کو اس کے حال پر چھوڑ دیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴ ؍جنوری ۱۹۶۶)