اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (اکتوبر۲۰۲۳ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)
جماعت احمدیہ کے مرکز میں فرقہ واریت، نفرت انگیزی اور جارحیت کو پروان چڑھانے والی کانفرنس
ربوہ۔ ۲۶ اور ۲۷؍اکتوبر۲۰۲۳:عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ختم نبوت کے موضوع پر پچانوے فیصد احمدی آبادی والے شہر ربوہ کے مضافات میں موجود مسلم کالونی میں دو روزہ کانفرنس کی اور اب تو یہ ایک اہم سالانہ تقریب بن گئی ہے حالانکہ ربوہ میں اس کے انعقاد کا کوئی جواز نہیں ہے۔
جتنے بھی مقرر آئے سب نے بہتان طرازی،احمدیوں کو برا ثابت کرنا، جھوٹ،من گھڑت الزامات اور نفرت انگیزی حتیٰ کہ جانی مالی نقصان پہنچانے کے لیے انگیخت کرنے کی کوشش کی۔ ان سب نے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کر کے حاضرین کو نہ صرف شر انگیزی پر ابھارا بلکہ انتظامیہ سے بھی مطالبہ کیا کہ احمدیوں پر ظلم و ستم میں مزید اضافہ کیا جائے۔اس کانفرنس کی تقاریر کا خلاصہ بغرضِ ریکارڈ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
ان کی کانفرنس کے پانچ اجلاس تھے۔پہلا اجلاس ۲۶؍اکتوبر کو سوا دس بجےشروع ہوا اور دوپہر ایک بجے ختم ہوا۔اس میں ۴۵۰۰؍ کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔اس کی صدارت مسلم کالونی کے مقامی مولوی مولوی غلام رسول دین پوری نے کی۔اس دوران سرگودھا کے مولوی احسان اللہ نے کہا قادیانی(احمدی) اسلام کا انکار کرتے ہیں اس لیے یہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔یہ اسلام اور پاکستان کے غدار ہیں اور یہ منافق ہیں جو ڈاکہ زنی کررہے ہیں۔کوئٹہ کے مولوی محمد احمد نے کہا کہ مسلمان بچھوؤں اور سانپوں کے ساتھ تو بیٹھ سکتے ہیں لیکن کسی گستاخ رسول کے ساتھ نہیں۔ لکی مروت کے مولوی ضیاءاللہ نے کہا کہ قادیانی (احمدی) معاشرے کے ہر شعبے میں موجود ہیں۔ہمیں ان کو وہاں سے نکالنا ہے۔ ۱۹۷۴ء سے پہلے آرمی میں بہت سارے قادیانی جرنیل تھے ہم نے آئین کی ایک ترمیم کرکے ان کو وہاں سے نکال دیا۔ سیالکوٹ کے قاری انور انصر نےکہا کہ اب قادیانی کوئی اسلامی کام نہیں کر سکتے۔صرف مسلمان کرسکتے ہیں۔جیسے کہ قربانی۔ مولوی فاروق نےکہا انگریز کے دور میں قادیانی تیزی سے پھیل رہے تھے۔ہمارے بڑوں نے اس عمل کو روک دیا۔قادیانی اسلام دشمن ہیں۔پشاور کے مولوی ابراہیم نے کہا کہ ہم آخری سانس تک قادیانیوں کا پیچھا کریں گے۔فیصل آباد کے مولوی سیف الرحمان نےکہا کہ قادیانیت کے خلاف جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔
دوسرا اجلاس دوپہر دو بجےسے لےکر سوا چاربجےتک جاری رہا اور اس کی صدارت لاہور کے عزیزالرحمان ثانی نے کی۔اس میں ساڑھے چھ ہزار کے قریب حاضری تھی۔ لاہور کے مولوی عبدالواحد نےکہا کہ ختم نبوت کا پیغام پھیلانے میں سوشل میڈیا کا سہارا لیں۔سکھر کے قاری جمیل احمد نے بانی جماعت احمدیہ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ مولوی عبدالقیوم حقانی نے بین الاقوامی امور پر بات کی اور کہا کہ جیسے امریکہ افغانستا ن میں ذلیل ورسوا ہوا ہے اسی طرح اسرائیل بھی ہو گا۔ساہیوال کے مولوی ذکاء اللہ نے کہا کہ جیسے خلیفہ اوّل کے لشکر نے مسیلمہ کی سرکوبی کی تھی اسی طرح مجاہدین کو جدید دور میں منافقین کی سرکوبی کرنا ہوگی۔فیصل آباد کے مولوی خلیل نے کہا کہ سب کو ختم نبوت کے لیے اپنی جان قربان کرنے کےلیے تیار رہنا چاہیے۔
چکوال کے مفتی معاذ نے کہا کہ پاکستانی حکومت ہی جاہل ہے کیونکہ ان کو علم ہی نہیں کہ اسلامی شریعت کی رو سے قادیانی اس ملک میں زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔مولوی امجد خان نے کہا کہ سب حاضرین امریکہ کا انجام یاد رکھیں یہی انجام روس کا ہوا تھا اور اب انڈیا اور اسرائیل کا بھی یہی انجام ہو گا۔
تیسرے اجلاس کی صدارت خانقاہ سراجیہ کے خواجہ خالد نے کی اور اس میں چودہ ہزار کے قریب لوگ شامل ہوئے۔ مولوی عبداللہ گل نے کہاکہ اسرائیل کے خلاف ہر گھر سے سیف اللہ (اللہ کی تلوار) نکلے گی اور یہ کہ قادیانی ایک نحوست ہیں ان کا مسلمان معاشرے میں کوئی کام نہیں۔سرگودھا کے مولوی محمد عاطف نے کہا کہ قادیانی اپنی عبادت گاہ مسلمانوں سے مشابہ نہیں بنا سکتے۔تونسہ شریف کے خواجہ مدثر نے کہا کہ ہماری جانیں ختم نبوت کے لیے حاضر ہیں اور ختم نبوت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دیں گے۔مولوی محمد ایوب نے کہا کہ قادیانی عبادت گاہیں ختم کی جائیں اور یہ کہ قادیانی ایک کینسر ہیں جو مسلمان معاشرے کو نقصا ن پہنچا رہے ہیں۔کراچی کے مولوی زبیر اشرف نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت کی مختلف تشریح قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج کرتی ہے۔ اہل حدیث مولوی ضیاءاللہ بخاری نے ختم نبوت کے لیے اپنی گردن پیش کی اور کہا کہ اگر جہاد کا اعلان ہوا تو وہ سب سے پہلے حاضر ہو گا۔مولوی الیاس چنیوٹی نے کہا کہ اس کے والد نے کہا تھا کہ اگر سمندر کی تہ میں دو مچھلیاں بھی جھگڑا کریں تو یہ قادیانی سازش کا نتیجہ ہوگا۔جماعت اسلامی کے سراج الحق نے کہاکہ دنیا میں دو بڑے فتنے ہیں یہودیت اور قادیانیت۔دونوں کو امریکہ اور برطانیہ کی حمایت حاصل ہے۔یہ اسلام اور پاکستان سے غداری ہے کہ قادیانیت کو پھیلنے کا موقع دیا جائے۔ سب کو فلسطین کے جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔ لاہور کےسید عبد الخبیر نے کہا کہ اسلام کی بقا قادیانیت کی تباہی میں ہے۔ اس جنگ میں وہ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔سرگودھا کے مولوی نور محمد ہزاروی نے کہا کہ قادیانی ام الخبائث ہیں۔ مولوی یحییٰ لدھیانوی نے کہا ایک اقلیتی قادیانی گروہ کو حکومت قابو کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ حکومت کو اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کرنا چاہیے۔
چوتھا اجلاس ۲۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو ملتان کے مولوی نصیر الدین خاکوانی کی صدارت میں شروع ہوا۔اس اجلاس میں پندرہ ہزار کے قریب لوگ شریک ہوئے۔کوئٹہ کے مولوی انوار الحق نے کہا کہ قادیانی مسلمانوں کے دلوں سے حضرت محمد ﷺ کی محبت کم کرنے کےلیے کام کر رہے ہیں۔ اس مولوی نے دروغ گوئی کی ساری حدیں عبور کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے نعوذ باللہ قادیان کو مکہ سے بھی زیادہ مقدس قرار دیا ہے۔پھر کہا کہ انہوں نے جہاد کو ختم کیا۔حالانکہ جہاد نے افغانستان میں شیطانی طاقتوں کو شکست دے کر قادیانی عقیدہ کو غلط ثابت کر دیا تھا۔بھیرہ کےمولوی حمزہ لقمان نے کہا کہ قادیانی جھوٹے ہیں۔ سرگودھا کے مولوی خالد نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم کو امریکہ سے واپسی پر کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان میں قادیانیوں کی حفاظت کریں گے تو تمام قرضے معاف کر دیے جائیں گے۔اس نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو ہم قادیانیوں کے خاتمے کی مہم چلا دیں گے۔مفتی راشد مدنی نے یہ جھوٹی رپورٹ دی کہ بلوچستان سے قادیانیوں کی عبادت گاہوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح افغانستان اور کشمیرسے بھی ان کو نکال باہر کیا گیا ہے۔ مرزا مظفر احمد صدارت کی کرسی حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن ختم نبوت کے پروانوں نے یہ ہونے نہیں دیا۔پشاور کے مولوی شہاب الدین پوپلزئی نے فتویٰ دیا کہ ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے مرزائی کافر اور مرتد ہیں۔
پانچویں اجلاس کی صدارت کندیاں کے مولوی عزیزالرحمان نے کی۔ جمعہ کے بعد اس اجلاس میں دس ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ملتان کے مولوی الطاف الرحمان نے کہا کہ قادیانی انگریز کے حمایت یافتہ ہیں۔کراچی کے مولوی اعجاز مصطفیٰ نے ایک قرار داد پیش کی جس کو تمام حاضرین نے منظور کر لیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ قرآن اور حدیث کے تحریف کے جرم میں تمام احمدی قیادت کو گرفتار کیا جائے۔تمام ادارے اور این جی او قادیانی جماعت کے جانب سے اس کے اپنے ممبران پر ہونے والے ظلم کا جائزہ لیں۔تمام اداروں میں نوکریاں کوٹہ سسٹم کے مطابق دی جائیں اور تمام مسلمان ختم نبوت کا حلف نامہ جمع کروائیں۔امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت احمدیوں کی تمام عبادت گاہوں سے کلمہ اور قرآنی آیات کو مٹایا جائے۔شریعت کے مطابق ارتداد کی سزا کا اطلاق کیا جائے۔(یعنی تمام احمدیوں کو سزائے موت دی جائے)ربوہ میں سیکیورٹی کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا نوٹس لیا جائے۔( جبکہ ہزاروں غیر احمدی ہر روز ربوہ میں آتے اور خریداری کرتے ہیں لیکن کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔)اگلا مطالبہ تھا کہ خدام الاحمدیہ کو مسلح گروہ نامزد کر کے کالعدم کیا جائے۔(حالانکہ خدام الاحمدیہ احمدی نوجوانوں پر مشتمل ایک پُرامن اور خدمت خلق کرنے والی تنظیم ہے۔) پھر قرارداد میں تمام سرکاری افسران اور عہدیداروں کا شکریہ ادا کیا گیا جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ قرارداد میں حکومت سے مہنگائی کم کرنے کا کہا گیا اور اسرائیل کی مذمت کی گئی۔
اس طرح نفرت انگیزی،اشتعال،فرقہ واریت اور شدت پسندی کی ترغیب پر مبنی اس کانفرنس کا خاتمہ ہوا۔
ہماری رائے
جو کچھ ہم نے اس رپورٹ میں بتایا ہے اس کی تمام تفصیل قانون نافذکرنے والے اداروں کے پاس موجود ہے۔ اور جو ہرزہ سرائی ان مولویوں نے کی ہے یہ سراسر پاکستان کے قانون کے خلاف ہے کیونکہ مقررین کھلے عام تمام حاضرین کو شدت پسندی پر اکسا رہے تھے۔ کیا اس کانفرنس میں ہونے والی کارروائی اس کے انعقاد پر پابندی لگانے کےلیے کافی نہیں؟ نیز کیا ایسے اجتماع ایسی جگہ پر ہونے چاہئیں جہاں کی پچانویں فیصد آبادی احمدی ہے اور براہ راست اس آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جماعت احمدیہ کی مرکزی قیادت نے کئی ہفتے قبل اس کانفرنس اور اس کے منفی اثرات کے حوالے سے حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔ لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ کیا ان تقاریر اور کانفرنس کی کارروائی کے بعد بھی شک کی کوئی گنجائش باقی ہے۔ پندرہ ہزار لوگوں کو ملک کے مختلف کونوں سے جمع کیا گیا، ان کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست کیا گیا۔ اسی طرح درجنوں مولوی جو لاکھوں روپیہ تقریریں کرنے کا وصول کرتے ہیں،یہاں موجود تھے۔کوئی تو تھا جس نے یہ سب رقم ادا کی۔عین ممکن ہے کہ کل کو یہ رقم کسی دہشتگردی کی کارروائی میں استعمال کی جائے یا ان لوگوں کو ہی استعمال کیا جائے۔
۲۷؍اکتوبر۲۰۲۳ء کو دنیا نیوز نے یہ خبر شائع کی کہ اسرائیلی فوج میں ۶۰۰؍ قادیانی ہیں۔ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا نیوز کے ایڈیٹر کو بخوبی علم ہے کہ یہ خبر جھوٹی ہے۔اور اتنے بڑے اخبار کو ایسی متعصبانہ، جھوٹی اور بے سروپا خبر شائع کرنے سے پہلے تحقیق کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔یہ کوئی خبر نہیں تھی بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس کے ذریعے احمدیوں کے جان ومال کو خطرے میں ڈالا گیا۔
ایک اچھی بات یہ تھی کہ فیصل آباد ریجنل پولیس افسر نے ٹوبہ ٹیک سنگھ،چنیوٹ اور جھنگ کے پولیس افسروں کو کہا کہ احمدیوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ہم ان کے اس اقدام کو سراہتے ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ پاکستان کے قومی مفاد کے لیے بہتر ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق تمام شہریوں کو ان کے حقوق دیے جائیں اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔حال ہی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کسی بڑے بحران کا انتظار کر رہی ہے۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )