نماز
مُنکِر و فَحشَا سے انساں کو بچاتی ہے نماز
رحمتیں اور برکتیں ہمراہ لاتی ہے نماز
اِبتدا سے اِنتہا تک ہے سراسر یہ دُعا
آدمی کو حق تعالیٰ سے مِلاتی ہے نماز
ذِکر و شکر اللہ کا ہے ۔ مومن کا ہے معراج یہ
پنج وقتہ وصل کے ساغَر پِلاتی ہے نماز
قصرِ جاناں سے اذاں کی جونہی آتی ہے نِدا
عاشِقوں کو یار کی چَوکھٹ پہ لاتی ہے نماز
جُھک گئے ہیں، دست بستہ ہیں، جبیں ہے خاک پر
عاجزی کس کس طرح اُن سے کراتی ہے نماز
ہے توجہ اور تَضَرُّع اور تَبتُّل اور خُشوع
رنگ کیا کیا طالِبِ حق پر چڑھاتی ہے نماز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں محمودؔ و ایازؔ
یہ سُلوک اور یہ مُساواتیں سکھاتی ہے نماز
پاکبازی اور طہارت وقت کی پابندیاں
قدر دانوں کو سبق ایسے پڑھاتی ہے نماز
ہے ذریعہ روز شب آپس میں ملنے کا عجیب
اِتِّحادُ المُسلِمیں اَزبَر کراتی ہے نماز
امتیازِ کافر و مُسلم یہی اک چیز ہے
کون نوری؟ کون ناری؟ یہ بتاتی ہے نماز
ہر عبادت ختم ہو جاتی ہے دنیا میں یہیں
اہلِ جنّت کے لئے پر واں بھی جاتی ہے نماز
جو نمازوں میں دعا ہو ۔ ہے اَجابَت کے قریب
اُس دعا کو تو نِشانہ پر بِٹھاتی ہے نماز
دِل نمازی کا گرفتارِ گُنہ کیونکر ہو جب
اُس میں ہر دم یاد مولیٰ کی رَچاتی ہے نماز
رِقّتِ دِل چونکہ پِنہاں اس کے اَرکانوں میں ہے
کیسی کیسی گریہ و زاری کراتی ہے نماز
حشر کے دن سب سے پہلے آئے گی میزان پر
دیکھنا پھر کس طرح سے بخشواتی ہے نماز
ہے صفائے جسم بھی اور جِلائے رُوح بھی
جان و تن کی مَیل ہر لحظہ چُھٹاتی ہے نماز
حضرتِ باری کو ’’پہلے آسماں‘‘ پر ہر سَحَر
عرش سے وقتِ تہجد کھینچ لاتی ہے نماز
رُوح جب ہوتی ہے حاضر پیشِ رَبُّ العالَمِیں
کیسی کیسی پھر مُناجاتیں سکھاتی ہے نماز
عیدگاہ میں، عید کے دن، دِل پہ غیر اَقوام کے
اِمپریشن اپنا کیا اچھا بِٹھاتی ہے نماز
زندگی ہے۔نَخلِ ایماں کی یہی آبِ حیات
مَوت ہے، ضائِع اگر کوئی بھی جاتی ہے نماز
اے خدا ہم کو عطا کر اور ہماری نَسل کو
نعمتیں اور بخششیں جو جو بھی لاتی ہے نماز
(کلام حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب از بخارِ دل صفحہ ۱۸۶-۱۸۷)