قرآن کریم کا نزول
صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعددادی جان نے احمد،گڑیا اور محمود سے پوچھا: ہاں بھئی بچو ! بتائیں آپ تینوں کون کون سے پارے پر پہنچ گئے ہیں ؟
گڑیا: دادی جان !میرا تو اللہ کے فضل سے ایک دور مکمل ہوگیا ہے۔
احمد: ہاں تو گڑیا آپی میں پندرہویں پارے پر ہوں۔ اگلے سال میں بھی دو دور کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ
محمود: دادی جان میں آٹھویں پارے پر ہوں۔ میں روزانہ آدھا پارہ پڑھتا ہوں۔جبکہ آپی دو پارے اور احمد بھائی ایک پارہ پڑھ لیتے ہیں۔
دادی جان: شاباش بچو! آپ نے تو میرا دل خوش کردیا ہے۔میری تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت بھر دے۔ آمین۔
محمود: دادی جان مجھے میرے دوست نے بتایا تھا کہ پہلے قرآن لکھتے نہیں تھے۔ تو پھر یہ قرآن کس نے لکھا؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے سارا قرآن ہاتھ سے لکھا تھا؟
دادی جان: نہیں بیٹا جان! رسول اللہ ﷺ تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ کیا آپ کو میں قرآن کریم کے نزول کا قصہ نہ سناؤں؟
محمود: دادی جان ضرور سنائیں!
دادی جان: رسول اللہ ﷺ کی شادی پچیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ آپؐ اس وقت نوجوان تھے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ کا تجارت میں ساتھ دیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ تجارت میں اس قدر امانت اور دیانت سے کام لیتے کہ پورے مکہ شہر کے لوگ آپ کو امین اور صدیق کے لقب سے جانتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے بلکہ دینِ ابراہیمی کی تعلیمات کے مطابق خدائے واحد کی عبادات بجا لاتے تھے۔ مکہ والوں نے کعبہ کے اندر اور اُس کےاردگرد بہت سارے بت سجا رکھے تھے اس لیے آپؐ مکہ سے باہر شمال مشرق میں ایک غار میں بھی عبادت کیا کرتے تھے۔
محمود: وہ اتنی دور روزانہ جاتے تھے؟
دادی جان: نہیں! آپؐ کچھ دن کا سامان لے کر وہاں تشریف لے جاتے یا پھر حضرت خدیجہؓ کسی کے ذریعہ کھانا وغیرہ بھجوا دیتی تھیں۔جب رسول اللہﷺ چالیس سال کے ہوئے تو ایک دن اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام دے کر ایک فرشتہ آپؐ کے پاس بھیجا۔
احمد: اس فرشتہ کا نام حضرت جبریلؑ تھا۔
دادی جان: شاباش احمد بیٹا۔ حضرت جبریلؑ نے آنحضرتﷺ کو فرمایا: اِقۡرَاۡ یعنی پڑھ! تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: مَا أَنَا بِقَارِیٍٔ کہ میں تو پڑھ نہیں سکتا۔ پھر حضرت جبریلؑ نے آپؐ کو سینے سے لگا کر زور سے بھینچا کہ آپؐ کی طاقت جواب دے گئی اور کہا کہ اِقۡرَاۡ یعنی پڑھ! تو رسول اللہﷺ نے پھر فرمایا: مَا أَنَا بِقَارِیٍٔ کہ میں تو پڑھ نہیں سکتا۔
پھر حضرت جبریلؑ نے آپ کو سینے سے لگا کر دوسری بار بھی زور سے بھینچا کہ آپؐ کی طاقت جواب دے گئی۔ اور کہا کہ اِقۡرَاۡ یعنی پڑھ! تو آپؐ نے پھر فرمایا: مَا أَنَا بِقَارِیٍٔ کہ میں تو پڑھ نہیں سکتا۔
پھر حضرت جبریلؑ نے آپ کو سینے سے لگا کر تیسری بار بھی بھینچا کہ آپؐ کی طاقت جواب دے گئی۔ اور کہا کہ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ۔یعنی پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔اُس نے انسان کو ایک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پیدا کیا۔پڑھ، اور تیرا ربّ سب سے زیادہ معزز ہے۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا سے لوٹے تو آپؐ نے گھبراہٹ کے عالم میں حضرت خدیجہؓ کو سارا واقعہ سنایا اور فرمایا کہ مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہوگیا ہے ۔مگر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہرگز نہیں!خدا کی قسم اللہ آپ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ وہ ہیں جو صلہ رحمی کرتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور وہ اخلاق فاضلہ جو دنیا سے ختم ہو چکے ہیں ان کو ازسرنو قائم کر تے ہیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں،اگر کوئی شخص محض ظلم کی وجہ سے کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو آپ اُس کی اعانت فرماتے ہیں‘‘۔
پھر مزید تسلی کے لیے حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچازاد بھائی تھے۔ انہوں نے سارا واقعہ سن کے کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰؑ پر وحی لے کر نازل ہوا تھا۔ پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی۔ یوں رسول اللہ ﷺ پر قرآن کریم کی پہلی وحی نازل ہوئی۔
محمودقرآن کریم چیک کر کے کہنے لگا: دادی جان لیکن قرآن کریم کے شروع میں تو سورة الفاتحہ ہے۔ اِقۡرَاۡ والی سورت تو ہم نے آخری پارے میں پڑھی تھی۔ یہ کیسے ہوا؟
دادی جان: وہ اس لیے بیٹا کہ قرآن کریم کے نزول کی ترتیب اور اس کی کتابی ترتیب الگ الگ ہے۔ قرآن کریم کا نزول قریباًتئیس سال میں ہوا۔ بعض آیات بعض واقعات کے ظہور کے ساتھ نازل ہوئیں۔ آپؐ کو حضرت جبریلؑ بتاتے جاتے کہ یہ آیات فلاں آیات کے بعد ہیں۔رسول اللہﷺ فوراً کسی کاتب یعنی لکھنے والے کو بلا کر ساری آیات لکھوا لیتے۔ پھر بعد میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے زمانہ میں قرآن کریم کتابی صورت میں جمع ہونا شروع ہوا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قرآن کریم باقاعدہ ایک صحیفہ کی شکل میں تیار ہو گیا۔ پھر حضرت عثمانؓ نے اس کی کاپیاں کروا کر مختلف ممالک میں بھجوائیں جن سے اَور کاپیاں تیار ہوئیں۔
احمد: تو اس طرح ہمارے پاس آج وہی قرآن موجود ہے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں آپؓ پر نازل ہوا۔
دادی جان: جی بالکل!
گڑیا: دادی جان! میں قرآن کریم کی شان میں حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک شعر سناتی ہوں
جمال و حسنِ قرآں نور جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
دادی جان: بہت خوب بیٹا۔ چلیں اب سکول کی تیاری کرلیں۔اس پر تینوں بچے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے سکول کی تیاری کرنے چلے گئے۔
(درثمین احمد، جرمنی)
(بخاری کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی)