قبولیتِ دعا کے لیے بھی بعض شرائط ہیں
رمضان کے مہینے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر آ جاتا ہےیعنی اپنے بندوں کی دعاؤں کو بہت زیادہ سنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری دعائیں سنوں تو پھر تمہیں بھی میری باتوں کو ماننا ہو گا۔ مَیں نے جو احکامات دیے ہیں ان پر عمل کرنا ہو گا۔ صرف رمضان کے مہینے میں نہیں بلکہ ان نیکیوں کو مستقل زندگیوں کا حصہ بنانا ہو گا اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ پس قبولیت دعا کے لیے بھی بعض شرائط ہیں۔ پس ہم جب ان شرائط کے مطابق اپنی دعاؤں میں حسن پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے قریب اور دعاؤں کو سننے والا پائیں گے۔…. قبولیت دعا کی شرائط کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا ’’یہ بات بھی بحضور دل سن لینی چاہئے کہ قبول دعا کے لئے بھی چند شرائط ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض تو دعا کرنے والے کے متعلق ہوتی ہیں اور بعض دعا کرانے والے کے متعلق۔ دعا کرانے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو مدنظر رکھے۔‘‘یہ بڑی اہم بات ہے۔ جو دعا کے لیے کہنے والا ہے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو سامنے رکھے ’’اور اس کے غناء ذاتی سے ہر وقت ڈرتا رہے۔‘‘یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف ہونا چاہیے اس کے دل میں۔ ’’اورصلح کاری اور خدا پرستی اپنا شعار بنا لے۔‘‘یہ ضروری چیزیں ہیں۔ صلح کاری اور خدا پرستی اپنا شعار بنائے۔ ’’تقویٰ اور راستبازی سے خداتعالیٰ کو خوش کرے تو ایسی صورت میں دعا کے لئے بابِ استجابت کھولا جاتا ہے۔‘‘جب ایسی صورت پیدا ہو جائے گی یہ ساری شرطیں پوری ہوں گی تو اللہ تعالیٰ پھر دعا کی قبولیت کا دروازہ کھولتا ہے ’’اور اگر وہ خدا تعالیٰ کو نارا ض کرتا ہے اور اس سے بگاڑ اور جنگ قائم کرتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نہیں چلتا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی نہیں کرتا تو فرمایا ’’تو اس کی شرارتیں اور غلط کاریاں دعا کی راہ میں ایک سدّ اور چٹان ہو جاتی ہیں۔‘‘دیوار بن جائیں گی، روک بن جائیں گی، چٹان کی طرح کھڑی ہو جائیں گی ’’اور استجابت کا دروازہ اس کے لئے بند ہو جاتا ہے۔‘‘اس کے لیے قبولیت دعا کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ نہ اس کی اپنی دعائیں قبول ہوتی ہیں نہ جس سے وہ دعا کروا رہا ہے اس کی دعائیں اس کے حق میں قبول ہوتی ہیں۔ فرمایا ’’پس ہمارے دوستوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچاویں اور ان کی راہ میں کوئی روک نہ ڈال دیں جو ان کی نا شائستہ حرکات سے پیدا ہو سکتی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد۱ صفحہ۱۰۸، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
(خطبہ جمعہ ۱۶؍اپریل ۲۰۲۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۷؍مئی ۲۰۲۱ء)