آخری عشرہ اور لیلۃ القدر
رمضان کاسارا مہینہ ہی برکتوں والا ہے لیکن رمضان کی اہمیت اورفضیلت اس کے آخری عشرہ میں اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اسی عشرہ میں لیلۃ القدر واقع ہوئی اور قرآن مجید نازل کیاگیا۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ۔ وَمَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۔ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ۔ تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ۔ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ۔(سورۃ القدر) ترجمہ: یقیناً ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا ہے۔ اور تجھے کیا سمجھائے کہ قدر کی رات کیا ہے۔ قدر کی رات ہزار مہینوںسے بہتر ہے۔ بکثرت نازل ہوتے ہیں اس میں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے حکم سے۔ ہر معاملہ میں سلام ہے۔ یہ (سلسلہ) طلوع فجر تک جاری رہتاہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑنے لیلۃالقدر کے تین معنی بیان فرمائے ہیں۔ آپؑ فرماتےہیں:قرآن شریف میں جو لیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔یہاں لیلۃ القدر کے تین معنی ہیں۔اول تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلۃالقدر کی ہوتی ہے۔دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی ایک لیلۃالقدر تھا یعنی سخت جہالت اور بے ایمانی کی تاریکی کے وہ زمانہ میں آیا جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا۔کیونکہ نبی دنیا میں اکیلا نہیں آتا۔ بلکہ وہ بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ملائکہ کا لشکر ہوتا ہے۔جو ملائک اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں ۔سوم۔ لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفیٰ ہے۔تمام وقت یکساں نہیں ہوتے۔بعض وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ ؓکو کہتے ہیں کہ ارحنا یا عائشہ یعنی اے عائشہؓ مجھ کو راحت و خوشی پہنچا اور بعض وقت آپ بالکل دعا میں مصروف ہوتے۔(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۳۶ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے نزدیک ہر رمضان لیلۃ القدر کا ظہور ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں:ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ کسی سال تو رمضان شریف میں لیلۃ القدر ہوتی ہے اور کسی سال نہیں ہوتی بلکہ بالیقین رمضان شریف میں ہر سال کسی نہ کسی طاق رات میں لیلۃ القدر ضرور ہوتی ہے۔ خواہ ستائیسویں کو ہویا اکیسویں کو۔(حقائق الفرقان جلد ۴ صفحہ ۴۲۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی اہمیت اور فادیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ہر عقل مندانسان سمجھ سکتا ہے کہ انسانی عمل کا آخری حصہ زیادہ جاذب فضل ہوتاہے۔ مثلاً ایک شخص کسی سے تعلق اور محبت پیداکرنے کے لئے اس کی خدمت کرتا ہے۔ اور پانچ یا دس مواقع اس کی خدمت کے حاصل کرلیتا ہے۔ تو ہر موقع اس کے مخدوم کی محبت کو بڑھانے کو موجب ہوگا۔ جوں جوں رمضان خاتمہ کے قریب پہنچتاہے۔بندے کی گھبراہٹ بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اور وہ سمجھتاہے کہ اگر اب ان دنوں سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکا تو مجھ سے زیادہ بدبخت کون ہوگا کہ روزے آئے اور گزر گئے۔ اور میں یوں ہی محروم رہا۔ اور یہ دونوں چیز مل کر لازمی طورپر رمضان کے آخری دنوں کو خداتعالیٰ کے افضال کا زیادہ جاذب بنادیتی ہیں۔(خطبات محمود فرمودہ۲؍اکتوبر۱۹۴۲ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’آخری دنوں کے متعلق بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ اس عشرہ میں مسلمان کو اس رات کی تلاش کرنی چاہیے تقدیر کی جس رات میں دعائیں قبول ہوں اور اسلام کے حق میں دنیا کی تقدیریں بدل دی جائے۔ (خطبات ناصر جلد اول صفحہ۱۰۰۶)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ رمضان کے آخرعشرہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کا ذکر فرماتے ہیں کہ’’آپ [حضرت عائشہؓ]گواہی دیتی ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری عشرہ میں ایسے وقت آتے تھے کہ ہم نے پہلے کبھی دوسرے دنوں میں نہیں دیکھے۔ ان کیفیات کابیان کرنا انسان کی طاقت میں نہیں ہے۔ نہ میری طاقت میں ہے نہ کسی انسان کی طاقت میں ہے… لیکن یہ چند دن تو ہیں ان دنوں میں اللہ خود قریب آجاتا ہے یہ وہ دن ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی آسان کردی جاتی ہے‘‘ (خطبہ جمعہ۲۳؍جنوری۱۹۹۸ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍مارچ۱۹۹۸ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رمضان کے آخری ایام کی برکات کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ’’ان چنددنوں کے بارے میں خداتعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ جو آخری عشرہ کے دن ہیں یہ اس برکتوں والے مہینے کی وجہ سے جہنم سے نجات دلانے کے دن ہیں۔ گناہ گار سے گناہگار شخص بھی اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے تو اپنے آپ کو آگ سے بچانے والا ہو گا۔ پس یہ گناہگار سے گناہگار شخص کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے کہ اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے سامان کر لو۔
…آخری عشرہ میں اللہ تعالیٰ جہنم سے نجات دیتا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے۔ تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی ہوا و ہوس کی جہنم سے بھی ہمیں نجات دے۔ ہماری دعائیں قبول فرمائے، ہماری توبہ قبول فرماتے ہوئے ہمیں اپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنا دے۔ آمین۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۸؍نومبر۲۰۰۵ء)
ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ سامنے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’رمضان کے آخری دس دنوں میں عبادت کا اہتمام فرماتے۔رات کے اکثر حصے میں عبادت کے لئے بیدار رہتے اور اہل وعیال کو بھی بیدار فرماتے۔(بخاری)
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک میں اور خاص طورپر آخری عشرہ سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطافرمائے۔ اور جن مقاصد کو پورا کرنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے۔ اور بار بار حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں اس طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں ان مقاصد کو پورا ہوتے ہوئے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ تمام دنیا کو حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آنے کے نظارے ہمیں دکھائے۔ ہم اس ماہ مبارک میں ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ ہم اپنی نسلوں میں خلافت کی دل وجان سے اطاعت کا جذبہ اور ہر قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہنے کا جذبہ پیدا کرنے والے ہوں۔آمین