دادی جان حضرت غلام بی بی صاحبہؓ
آج سے تقریباً ایک سو ایک سال پہلے ۱۹۲۳ء میں اس عاجز کی دادی جان کا وصال ہوا۔ اور ان سے سو سال بعد اس عاجز کی اہلیہ کی رحلت ہوئی۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ۔ وَّیَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَالۡاِکۡرَامِ۔(الرحمٰن:۲۷۔۲۸)
ہمارے خاندان میں اس عاجز کے دادا جان حضرت میاں عبد الرحمٰن صاحب بھیرویؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ احمدیت کا آغاز ہوا۔ انہوں نے ۱۸۹۸ء میں قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دستی بیعت کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے مشورے سے اپنے والد محترم حضرت میاں الہ دین صاحب کو بڑی حکمت سے قادیان بلوایا جہاں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ مبارک دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا کہ یہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ اور دستی بیعت کر کے صحابہ مسیح موعود میں شامل ہو گئے۔ وَاَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ (الشعرآء :۲۱۵)کے حکم کی تعمیل میں واپس بھیرہ پہنچ کر اپنے سارے کنبہ سے بیعت کے خط لکھوائے اور اپنے کئی زیر اثر احباب کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔
ہماری دادی جان کا نام غلام بی بی تھا اور انہوں نے بھی اپنے خاوند کی تحریک پر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی۔ہماری دادی جان غلام بی بی صاحبہ اور ہمارے داداجان میاں عبدالرحمٰن صاحب کا اپنے جملہ افراد خاندان کی بیعت کروانے میں بہت بڑا کردار ہے۔انہی کے ذریعے ہمارے دادا جان کے ہم زلف میاں نیک محمد صاحب اور ان کی اہلیہ نےبیعت کی۔
دادی جان کا اپنا خاندان بھی انہی کی معرفت احمدیت کی نعمت سے متمتع ہوا۔ آپ کے بھائی صاحب کا نام میاں نور محمد صاحب تھا۔
ان کے ایک پوتے عبد القیوم جنجوعہ جو کہ سکول میں اس عاجز کے کلاس فیلو تھے انہوں نے ایک بار بتایا کہ ان کے دادا میاں نور محمد صاحب نے منارۃ المسیح کی تعمیر پر بھی کام کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔
اس عاجز کی دادی جان کے مختصر حالات زندگی اس عاجز نے اپنے والد محترم میاں فضل الرحمٰن بسمل بی اے بی ٹی سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ کی کتاب سے اخذ کیے ہیں۔
حضرت والد صاحب لکھتے ہیں ’’ہماری والدہ (غلام بی بی )صاحبہ ایک سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ ہماری تربیت اچھی طرح سے کی۔ ہمیں بچپن میں ہی دعائیں اور مسائل سکھائے۔ ان کو بھی حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ سے خاص عقیدت تھی۔چنانچہ اپنی اولاد کے نام عطا الرحمٰن، فضل الرحمٰن، حبیب الرحمٰن حضورؓ سے ہی تجویز کروائے۔ وہ بڑی متواضع خاتون تھیں۔ان کے حسن سلوک کی وجہ سے متعدد مستورات ان کی بہنیں بنی ہوئی تھیں۔
۱۹۱۱ء یا ۱۹۱۲ء کے جلسہ سالانہ پر ہمارا سارا کنبہ قادیان گیا تھا. (اس عاجز کے دادا جان کا حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ساتھ رضاعی رشتہ تھا اس لیے) حضورؓ کے ہاں قیام کیا تھا۔(والد صاحب کی عمر اس وقت تقریباً ۴ سال کی تھی ) مجھے اس وقت حضور کی زیارت بھی ہوئی تھی۔ پھر جب ہم قادیان جاتے تھے تو حضرت اماں جیؓ کے لیے تحائف لے جاتے تھے۔حضرت اماں جیؓ دعائیں دیتی تھیں۔
حضرت والد صاحب بڑے عدیم الفرصت تھے۔ دن بھر کاروبار میں مصروف رہتے۔ رات کو افسانہ علم کی خاطر حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحب کے درس قرآن و حدیث میں شامل ہوتے تھے۔ رات گئے واپس آتے۔ پھر نماز تہجدو فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد نور میں چلے جاتے تھے۔ ہم ان کو صرف کھانے کے اوقات میں گھر پر دیکھتے تھے۔
ہمارے گھر کے حالات بڑے اچھے جا رہے تھے مگر ۱۹۲۳ء میں ہماری ہمشیرہ ایک شیر خوار بچی چھوڑ کر فوت ہو گئیں۔ جلد ہی ہماری والدہ بیمار پڑ گئیں۔ ہر چند علاج ہوا۔ مگر وہ فوت ہو گئیں‘‘۔ (بھیرہ کی تاریخ احمدیت )
اللہ تعالیٰ نے ہمارے دادا جان اور دادی جان کو پانچ بچون سےنوازا:۱۔ بیگم بی بی،۲۔ عطا الرحمٰن،۳۔ فضل الرحمٰن،۴۔ حبیب الرحمٰن،۵۔ محمد شریف احمد
اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی برکت سے ان کی اولاد در اولاد کو دنیا کے کئی ملکوں امریکہ،کینیڈا، انگلینڈ، جرمنی، آسٹریلیا، ہالینڈ، سویڈن، پاکستان وغیرہ میں پھیلا دیا ہے جن کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔