بحری قزاقی
بین الاقوامی سطح پر سمندری ڈاکو ؤں کو بحری قزاق کہا جاتا ہےجو سمندر میں لوٹ مار اور جہازوں پر قبضہ کرتے ہیں۔چنانچہ ان قزاقوں کی وجہ سے تا حال عالمی منڈی کو ہر طرح کے بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔بحری علوم کے ماہرین کے مطابق دنیا کے سمندروں کو سب سے بڑا خطرہ بحری قزاقوں سے ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے کہ یہ کب سے سر گرم عمل ہیں اور ان کی تاریخ کتنی پرانی ہے تو اس حوالے سے مؤرخین صرف اتنا بتاتے ہیں کہ قزاقوں کی سر گرمیوں کا آغاز بحری نقل وحمل کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔جبکہ بحری قزاقوں سے سب سے زیادہ خطرہ افریقہ اور مشرقی افریقی ممالک کی ساحلی پٹیوں میں رہتا ہے۔
بحری قزاقی اب ایک باقاعدہ پیشہ کا درجہ حاصل کرچکا ہے،اور یہ درجہ قرون وسطیٰ میں سکینڈےنیویا کے لٹیروں نے دیا تھا جنہیں ’’وائیکنگ‘‘کہا جاتا ہے اور یہ وائیکنگ لٹیرے شمالی یورپ کے ساحلوں پر شاید ہی کسی بھی بحری جہاز کو خیریت کے ساتھ گزرنے دیتے تھے۔وائیکنگ بنیادی طور پر سکینڈینیوین ممالک جن میں ناروے، ڈنمارک، سویڈن شامل ہیں کے بحری جہاز سازوں کا ایک گروہ تھا جس نے رفتہ رفتہ سمندری لوٹ مار کو رواج دیا۔
وائیکنگ گروہ نے ۷۹۳ عیسوی میں برطانوی شہر لنڈس فارنے پر اچانک حملہ کر کے اپنی لوٹ مار کا آغاز کیا۔ اس سانحہ کے بعد مغرب میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ،اورکہتے ہیں کہ یہاں ہی سے وائیکنگ کی سر گرمیوں کا آغاز ہوا۔اسی طرح اس گروہ نے ۸۰۰ء میں برطانوی جزیروں فرانس ، ایسٹونیا اور کیوان روس کے پانیوں اور ساحلوں میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔ ۸۳۰ء میں وائیکنگ گروپ نے بحری جہازوں کے بڑے بڑے بیڑے بنائے۔۸۳۲ء میں وائیکنگ کے بیڑے میں ۱۲۰؍بحری جہاز شامل ہو چکے تھے اور ۸۴۰ء میں وائیکنگ نے سمندر کے کنارے طویل اور مضبوط قلعے بنا کر اپنی دہشت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ ۱۱۰۰ء تک وائی کنگ سمندر کی دنیا کے بے تاج بادشاہ کے طور پرنمایاں سر گرم عمل رہے۔
وائیکنگ کے بعد دسویں صدی کے اختتام سے پہلے یورپی سمندروں پر عرب قزاقوں کا راج رہا۔اسی طرح سولہویں صدی میں بحر ہند اوربحیرہ عرب میں یورپی سمندری لٹیروں نے حاجیوں کے جہاز بھی لوٹنا شروع کر دیے۔ جبکہ ۱۷۱۶ء سے ۱۷۱۸ء تک کے دو برسوں میں کریبین اور بحیرہ اوقیانوس میں ایڈورڈ میچ نامی ایک انگریز قزاق جو اپنی سیاہ گھنی داڑھی کی بدولت ’’بلیک بیئرڈ‘‘کے نام کی شناخت رکھتا تھا۔جسے ایک عرصہ تک سمندری حدود میں خوف و ہراس کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اور اس قزاق کو سمندری دنیامیں ’’دہشت البحر ‘‘کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس کی جنگی کامیابیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ کی ملکہ نے دوران جنگ اس دہشت البحر کو ہسپانوی اور فرانسیسی جہازوں کی لوٹ مار پر مامور کیا تھا۔
۱۷۱۸ء سے ۱۷۲۰ء تک کو قزاقی کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ انگلستانی قزاق کلیلو جیک را هم اس عرصے کے دوران بہاماس اور کیوبا کے سمندری علاقوں میں لوٹ مار کرتا تھا۔ نیزیہ اپنے منفر د قزاقی جھنڈے اور دو قزاق خواتین کے باعث سمندرکی دنیا میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔۱۷۲۰ء میں اس نے ایک برطانوی جہاز اغوا کیا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد کلیلو شاہی بحریہ کے حفاظتی جہاز جانا تھن بار نٹ کے حملے میں گرفتار کر لیا گیااور پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بحری قزاقوں کے اڈے،قزاقی بادشاہی اور حملوں کے طور طریقے بدلتے چلے گئے۔لہٰذاموجودہ دور میں صومالیہ کا سمندرخطرناک سمندری قزاقی کی وجہ سے غیر محفوظ ترین گزرگاہ بن گیا ہے کیونکہ اس کے پانیوں میں مسلح قزاق ہر وقت موجود رہتے ہیں جو کہ تاوان کے لیے اپنے شکار کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ صومالیہ کے سمندر سے کیونکہ ایک اہم ترین بحری راستہ گزرتا ہے لہٰذاایشیا سے مغرب کی طرف سفر کرتے جہاز خلیج گزر کریورپ جاتے ہیں،اور کئی جہاز بحیرہ احمر سےنکل کر صومالی پانی سے ہوتے ہوئے ایشیا کا رخ کرتے ہیں۔
قزاقوں کے پاس میری ٹائم ریڈیو ہیں جس کی بدولت ان کو کشتیوں کی نقل و حرکت کا علم رہتا ہے۔لہٰذاجب یہ قزاق کشتی پر حملہ کرتے ہیں تو فورا ًوہ جہاز پر چڑھ کر قبضہ کر لیتے ہیں اورجہاز کو صومالیہ کی حدود میں لے جاتے ہیں۔
صومالیہ قزاقوں کا محفوظ ترین ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صومالیہ کا نمبر سمندری لوٹ مار کے ۹۵؍فیصد حصے کے قریب ہو گیا ہے جس سے عالمی معیشت سالانہ ۷ سے ۸؍ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا کرتی ہے جبکہ خطرے کے باعث دیگر اخراجات کی ادائیگی اور حادثات کی صورت میں قزاقوں کے خلاف مقدمات کی صورت میں لیگل چار جز وغیر ہ ان کے علاوہ ہیں۔اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ آخر صومالیہ قزاقی کا گڑھ کیسے بنا؟
صومالیہ کا شمار بد قسمتی سے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں قانون جیسی چیز کا کوئی وجود نہیں۔ غربت اور بے روز گاری عروج پر ہے۔ اگرچہ ملک کی معاشی صورت حال شروع سے بد حالی کا شکار رہی ہےلیکن ۱۹۹۰ء میں امریکی مداخلت کے باعث ملک میں خانہ جنگی کا آغاز ہو گیاجس کے باعث ملک میں قحط کے باعث تین لاکھ سے زائد اموات ہوئیں۔ اور ملک کو جرائم کا گڑھ بنا دیا۔
مزید یہ کہ ملکی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یورپی بحری جہاز صومالیہ کے ساحل پر خطر ناک مواد اور تابکار فضلہ پھینکنے لگےجس کے باعث علاقے میں مہلک بیماریاں جنم لینے لگ گئیں۔ نیز صومالیہ کے پانیوں سے یورپی تجارتی جہاز کثیر تعداد میں غیر قانونی مچھلیاں پکڑنے لگے جس وجہ سے مقامی ماہی گیروں نے تیز رفتار کشتیوں کے ذریعے ان کا تعاقب کرنا شروع کیا اور یوں آہستہ آہستہ بے روز گاری اور قحط کے ستائے ہوئے ان لوگوں نے قزاقی کو بطورپیشہ اپنا لیا ہے جس کی وجہ سے صومالیہ کا سمندر سمندری سفر کرنے والے ممالک اور تجارتی جہازوں کے لحاظ سے خطرناک اور زیادہ غیر محفوظ ہے ۔لہٰذا یہ اب پوری دنیا کے لیے لمحہ فکریہ بن چکاہے ۔
(مرسلہ:الف فضل)