اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز (دورہ کینیڈا۔ اکتوبر،نومبر۲۰۱۶ء کے چند واقعات۔ حصہ نہم)
ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
نو مبائعین سے ملاقات
اگرچہ یہ حضورِانور کے دفتری شیڈول کا حصہ نہ تھالیکن ۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو محترم امیر صاحب کینیڈا کی درخوا ست پر حضورِانور نے نومبائعین سے ایک مختصر ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران حضورِانور نے چند نو مبائعین سے گفتگو فرمائی اور ان سے احمدیت قبول کرنے کے حوالے سے استفسار فرمایا۔ گیانا سے تعلق رکھنے والےایک نو مبائع نے حضورِانور کو بتایا کہ انہوں نے احمدیت اس وجہ سے قبول کی ہے کہ انہوں نے مسیح موعود کے ظہور سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیشگوئیوں کو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی ذات میں پورا ہوتا ہوا دیکھا ہے۔
یہ سماعت فرمانے پر حضورِانور نے فرمایاکہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام اور احمدیت دونوں ایک ہی ہیں اور یہ کہ ہم اپنے آپ کو راسخ العقیدہ شمار کرتے ہیں جو قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔
ایک نوجوان نے حضورِانور کی خدمت میں حضورِانور کی اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی ایک تصویر پیش کی جسے دیکھنے پر حضورِانور نے فرمایا آپ کو میری تصویر نہیں بنانی چاہیے۔
یہ ایک مثال تھی کہ کس طرح حضورِانور سختی کی بجائے محبت سے سکھاتے اور راہنمائی فرماتے ہیں۔
مضبوط ایمان کی ایک مثال
بعد ازاں حضورِانور فیملی ملاقاتوں کے لیے اپنے دفتر میں تشریف لے گئے۔ دو خوش نصیب احباب جنہیں حضورِانور سے ملنے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں ذوالفقار علی باجوہ (عمر ۴۴؍سال )اور ان کی اہلیہ طیبہ ذوالفقار شامل تھیں۔ وہ یکم جنوری ۲۰۱۵ء کو پاکستان سے کینیڈا ہجرت کرکے آئے تھے۔
۲۰۰۲ء میں سانگھڑ میں احمدیت قبول کرنے والے ذوالفقار صاحب نے مجھے بتایا کہ دو سال بعد ۲۰۰۴ء میں انہیں محض اس لیے کہ وہ احمدی تھےجھوٹے مقدمات میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہیں ڈرایا،دھمکایا اور مارا گیا اور شدید زدوکوب کیا گیا اور ان پر جھوٹا مقدمہ بنانے والوں نے ناکام کوششیں کیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کر دیں۔ اپنے سابقہ تجربات کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے بتایا کہ جس جیل میں مجھے قید کیا گیا تھا وہاں حالات نہایت ناگفتہ بہ اور نا مساعدتھے۔ پھر بھی میں نے وہاں اپنے گھر کی طرح گزارا کیا اور نہایت پُرسکون طور پر وہاں رہا۔ میرے اس رویے کو اپنانے کی وجہ یہ تھی کہ میں جانتا تھا کہ میرا جرم صرف اتنا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لایا ہوں۔
ذوالفقار صاحب نے مزید بتایا کہ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ مَیں جیل میں نماز ادا کر رہا تھا اور مولویوں کے اکسانے پر چار لوگوں نے میرے پر چھلانگ لگائی اور حملہ کر دیا۔ انہوں نے مجھے گردن سے دبوچا ہوا تھا اور نہایت بےرحمی سے مجھے مار رہے تھے۔ یہاں تک کہ میرا سارا جسم زخمی ہو گیا اور زخموں کے نشان پڑ گئے۔ پھر بھی میرا ایمان کبھی کمزور نہ ہوا کیونکہ میں اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قربان کر چکا تھا اور آپؑ سے عہدِ بیعت باندھ چکا تھا۔
جب ذوالفقار صاحب نے یہ الفاظ ادا کیے تو مَیں نے دیکھا کہ ان کی اہلیہ اپنے شوہر کا ماضی یاد کر کے آنسو پونچھ رہی تھیں۔ طیبہ صاحبہ نے بتایا کہ کئی سال تک مَیں اس خیال سے بیٹھی روتی رہتی تھی کہ یہ ظلم و ستم کب ختم ہوں گے۔ بہرحال اپنے آنسوؤں کے بہنے کی وجہ سے میں معذرت چاہتی ہوں، کیونکہ میں اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پا رہی کیونکہ ابھی میں نے اپنے محبوب آقا سے ملاقات کا شرف پایا ہے جن سے میں اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبت کرتی ہوں۔ آج میں اپنے تجربات کی رُو سے بڑے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ صبر کا پھل نہایت شاندار ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی کسی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
پھر ذوالفقار صاحب نے مزید بتایا کہ میں نے اس دَور کے فرعونوں کو دیکھا ہے جو کھلے عام کہتے تھے کہ اگر مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار نہ کیا تو مجھے قتل کر دیں گے۔لیکن یہ حقیقت کہ آج میرا یہاں موجود ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کے پاس کوئی طاقت نہیں اور ساری طاقت اور حکومت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
موصوف نے بتایاکہ میرا وکیل مجھے کہتا تھا کہ اگر میں ایک کاغذ پر دستخط کر دوں کہ میں احمدی نہیں ہوں تو میں چند منٹوں میں جیل سے باہر ہوں گا۔ لیکن میں ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکراتا تھا اور کہتا تھا کہ انہوں نے مجھے بیوی کے سامنے مارا اور میں اس وقت بھی جانتا تھا کہ مَیں اس ذلّت اور تکلیف سے نجات پا سکتا تھا، اگر میں احمدیت سے انکار کردیتا۔لیکن میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ مجھے زندہ جلا بھی دیتے تو بھی میں اس کاغذ پر کبھی دستخط نہ کرتا اور کوئی ایسی بات نہ کہتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے خلاف ہوتی۔
موصوف نے مزید بتایا کہ مولوی مجھے کہتے تھے کہ وہ مجھے لوگوں کے ہجوم میں لے جائیں گے جہاں وہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لعنتیں ڈالیں گے اور اگر میں نے خاموشی سے سن لیں تو وہ مجھے آزاد کر دیں گے۔ اس کے جواب میں خاکسار نے ان کو بتایا کہ وہ مجھے لوگوں کے ہجوم میں لے جاکر مجھ پر، میری بیوی پر،میرے والدین پر اور میرے بچوں پر لعنتیں ڈالیں تو میں خاموشی سے اس کو برداشت کر لوں گا تاہم اگر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلافتِ احمدیت پر نعوذ باللہ لعنت ڈالنے کی کوشش کی تو جواب میں خاکسار کھل کر یہ اعلان کرے گا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام اللہ کے نبی اور امام الزمان ہیں۔
ناقابلِ فراموش مناظر
چند لمحات گزرنے پر جبکہ میں حضورِانور کی رہائش گاہ کی سیڑھیوں کے قریب کھڑا احمدیوں کے جمِ غفیر کو دیکھ رہا تھا تو میں نے اپنی زندگی کا سب سے بلنداور جذباتی نعرۂ تکبیر سنا۔
میں نے فوراً پیچھے دیکھا تو حضورِانور کی رہائش گاہ کا دروازہ کھل رہا تھا اور ایک لمحہ کے بعد حضورِانور کا پُرنور اور وجیہ چہرہ دکھائی دیا۔ یہ ایسا لمحہ تھا جو مَیں کبھی بھلا نہیں سکتا۔اب بھی کئی ماہ گزرنے کے بعد میرے ذہن میں وہ لمحہ مستحضر ہےجب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ حضور انور کی رہائش گاہ کا دروازہ کھلا ہے اور اسی لمحہ احمدیوں کے جذبات میں تلاطم رونما ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
میں نے حضورِانور کے مبارک چہرے پر ایک مسکراہٹ بھی دیکھی اور میرے خیال میں وہ حیرت کے باعث تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ اگرچہ حضورِانور (رہائش گاہ کے)اندر بھی نعرے سماعت فرما رہے تھے تاہم حضورِانور کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ باہر احمدیوں کا کیسا جمِ غفیر آپ کا منتظر ہے۔
اگلے پندرہ سے بیس منٹ حضورِانور نے Peace Villageکی گلیوں میں چہل قدمی فرمائی جبکہ آپ کے چاروں طرف احمدی ہی احمدی تھے جن کی ہر ممکن کوشش تھی کہ اپنے آقا کے قریب سے قریب تر ہو سکیں۔ درحقیقت یہ بعض لحاظ سے خطرناک بھی تھا۔ تاہم یہ روحانی ماحول ناقابلِ فراموش یاد اور وہ ناقابلِ یقین جذبات تھے جنہوں نے اس شام پیس ولیج کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ خلیفۂ وقت اور آپ کی روحانی فوج کے مابین اس گہرے تعلق کو ہر کوئی دیکھ اور محسوس کر سکتا تھا۔ آغاز میں حضورِانور نے عبدالسلام سٹریٹ میں چہل قدمی فرمائی اور اس گھر تک تشریف لے گئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی متعدد تصاویر آویزاں کی گئی تھیں۔جس دوران حضورِانور احمدیوں کے جمِ غفیر سے گزر رہے تھے تو مَیں نے بے شمار لوگوں کو آنسو صاف کرتے دیکھا گویا ان میں سے ہر ایک زبانِ حال سے خلافت سے اپنی لازوال محبت کا اقرار کر رہا تھا اور اپنے پیارے امام کی خدمت میں سلام عرض کر رہا تھا۔ اس دوران حضورِانور احباب جماعت کی طرف دیکھ کر مسکراتے رہے اور لوگوں کے ہجوم کی طرف ہاتھ ہلا کر جواب دیتے رہے۔
چند منٹ کے بعد حضورِانور واپسی اختیار فرماتے ہوئے احمدیہ ایوینیو کی صدر شاہراہ کی طرف تشریف لے گئے۔ ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ یہ ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ حفاظتِ خاص کی ٹیم اور خدام جو ڈیوٹی پر موجود تھے، انہوں نے لوگوں کے ہجوم کو ایک مناسب فاصلے پر رکھنے کی بھرپور کوشش کی اور اس غرض سے نیم دائرہ میں بازو پکڑ کر آپ کے پیچھے اور ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ الحمدللہ یہ پیدل سیر بخیریت تکمیل کو پہنچی۔ حضورِانور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے اور میں نے بےشمار لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جزاک اللہ پیارے حضور۔ وہ سب جانتے تھے کہ حضورِانور محض ان کی خاطر باہر تشریف لائے تھے اور اس لیے بھی کہ ان کے دلوں کو طمانیت ملے۔ حضورِانور اپنی رہائش گاہ میں داخل ہوئے تو میں نے جذبات کا ایک اَور تلاطم دیکھا جب احمدی احباب ایک دوسرے کو مل کر مبارکباد دے رہے تھے کیونکہ وہ خوش قسمت تھے کہ اس موقع پر موجود تھے۔ کم ازکم دس احباب میرے پاس بھی تشریف لائے اور مجھے بھی مبارکباد دی اور ان کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں تھے۔ میں درحقیقت ایمان رکھتا ہوں کہ آج کی دنیا میں صرف خلافت ہی ایسے سچے اور پُر خلوص پیار کے جذبات اور دلی خوشی کا باعث بن سکتی ہے۔
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)