جمعۃ الوداع کا بیان
آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے جس کو جمعۃالوداع کہنے کی ایک اصطلاح چل پڑی ہے۔ غیروں میں تو خیر دین میں اتنا بگاڑ پیدا کرلیا ہے کہ وہ تو اس کوجو بھی چاہے نام دیں، اور جو بھی چاہیں عمل کریں، جس طرح جی چاہے عمل کریں اور اس کی تشریح بیان کریں، یہ ان کا معاملہ ہے۔ بلکہ وہ تو اس خیال کے بھی ہیں کہ جمعۃ الوداع کے دن چار رکعت نماز پڑھ لو تو قضائے عمری ادا ہو گئی۔ یعنی جتنی چھُٹی ہوئی نمازیں ہیں وہ ادا ہوگئیں، تین چار رکعتوں کے بدلے میں۔ اور اب نمازیں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ جونمازیں نہیں پڑھی گئی تھیں پوری ہوگئیں۔ پھر یہ سوچ کہ جمعۃ الوداع آئے گا تو چاررکعت نماز پڑھ لیں گے، پھر چھٹی ہوگی ایک سال کی۔ تو یہ کون تردد کرے کہ پانچ وقت کی نمازیں جا کے مسجد میں پڑھی جائیں۔ ان کی ایسی حرکتوں پر تو اتنی حیرت نہیں ہوتی کہ انہوں نے تو یہ کرنا ہی ہے۔ کیونکہ مسیح محمدی ؐ کا انکارکرنے والوں سے اس سے زیادہ توقع کی بھی نہیں جا سکتی لیکن حیرت اس بات پر ضرور ہوتی ہے کہ جنہوں نے اس زمانہ کے امام کو مانا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کردیا اور پھر وہ اپنے دین کی حفاظت نہ کریں۔ عام حالات میں اتنی پابندی سے جمعہ پر نہیں آتے جس اہتمام سے بعض لوگ، اور یہ بعض لوگ بھی کافی تعداد ہو جاتی ہے، جس پابندی سے رمضان کے اس آخری جمعہ پر آیا جاتاہے۔ حالانکہ حکم تو یہ ہے کہ پانچ وقت کی نمازوں کے لئے بھی مسجد میں آؤ۔ تو ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی دنیاوی دھندوں میں اتنے محو ہو جائیں کہ نمازیں تو ایک طرف، جمعہ کی ادائیگی بھی باقاعدگی سے نہ کرسکیں۔ اور اس بات کا اندازہ کہ ہم میں سے بعض احمدی بھی لاشعوری طورپر جمعۃ الوداع کی اہمیت کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔ مسجدوں کی حاضری سے لگایا جا سکتاہے۔ اگر آج کے دن ہم میں سے وہ جو عموماًجمعہ کا ناغہ کر جاتے ہیں، اتنی اہمیت نہیں دیتے جمعہ کو، اس لئے جمعہ پر آئے ہیں کہ رمضان نے ان میں تبدیلی پیدا کردی ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری اور اس کی عبادت کا ان میں شوق پیدا ہو گیاہے اور انہوں نے عہد کر لیاہے کہ آئندہ ہم اپنے جمعوں کی حفاظت کریں گے اور باقاعدگی سے جمعہ کے لئے حاضر ہواکریں گے۔ … اگر تو یہ صورت حال ہے تو ایسے لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرمائے کہ آئندہ بھی وہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکامات کو گلے لگانے، ان پر عمل کرنے والے اور اسی جوش وخروش سے ان تمام احکامات میں حصہ لینے والے ہوں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍نومبر۲۰۰۳ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍جنوری ۲۰۰۴ء)