جُمعہ وہ ہے جس میں عصر کے وقت آدم پیدا ہوئے
اگرچہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر ایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے۔ سو آدم جمعہ کی اخیر گھڑی میں بنایا گیا۔ یعنی عصر کے وقت پیدا کیا گیا اسی وجہ سے احادیث میں ترغیب دی گئی ہے کہ جمعہ کی عصر اور مغرب کے درمیان بہت دعا کرو کہ اس میں ایک گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ وہی گھڑی ہے جس کی فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی۔ اِس گھڑی میں جو پیدا ہو وہ آسمان پر آدم کہلاتا ہے اور ایک بڑے سلسلہ کی اس سے بنیاد پڑتی ہے۔ سو آدم اسی گھڑی میں پیداکیا گیا۔ اس لئے آدم ثانی یعنی اس عاجز کو یہی گھڑی عطا کی گئی۔
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد۱۷صفحہ ۲۸۰-۲۸۱، حاشیہ)
غرض اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُم (المائدہ:۴) کی آیت دوپہلو رکھتی ہے۔ ایک یہ کہ تمہاری تطہیر کر چکا۔ دوم کتاب مکمّل کر چکا۔ کہتے ہیں جب یہ آیت اُتری وہ جُمعہ کا دن تھا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی یہودی نے کہا کہ اس آیت کے نزول کے دن عید کرلیتے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ جُمعہ عید ہی ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس عید سے بے خبر ہیں۔ دوسری عیدوں کو کپڑے بدلتے ہیں لیکن اس عید کی پروا نہیں کرتے اور مَیلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ آتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ عید دوسری عیدوں سے افضل ہے۔ اسی عید کے لئے سُورہ جُمعہ ہے اور اسی کے لئے قصر نماز ہے۔ اور جُمعہ وہ ہے جس میں عصر کے وقت آدم پیدا ہوئے۔ اور یہ عید اس زمانہ پر بھی دلالت کرتی ہے کہ پہلا انسان اس عید کو پیدا ہوا۔ قرآن شریف کا خاتمہ اسی پر ہوا۔
(ملفوظات جلد۸ صفحہ۳۹۹ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ڈیڑھ میل تک شہر میں اپنے گائو ں سے آنا بجز حرج کے متصور نہیں۔ چونکہ گائوں میں مسجد ہے۔ اگر شہر کے نزدیک بھی ہے۔ تب بھی ایک محلہ کا حکم رکھتاہے۔ کسی حدیث صحیح میں اس ممانعت کا نام ونشان نہیں۔ بلاشبہ جمعہ جائز ہے۔ خدا تعالیٰ کے دین میں حرج نہیں۔
( مکتوبات احمد یہ جلد ۵ جز و ۵ صفحه ۵۴ مکتوب بنام حضرت منشی حبیب الرحمٰن صاحب)