وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍اگست ۲۰۱۴ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اِس آیت کے معنی یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دو ہی گرو ہ ہیں۔ اوّل صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبویؐ پایا اور معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے ان میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک روح رہ گئے۔ دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہؓ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے۔ کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا۔ اور آیت آخَرِیْنَ مِنْہُمْ میں جو اس گروہ کو مِنْہُمْ کی دولت سے یعنی صحابہؓ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے۔ یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات دیکھے اور پیشگوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے اور درمیانی زمانہ کو اس نعمت سے کامل طور پر حصہ نہیں ہو گا۔ چنانچہ آج کل ایسا ہی ہوا کہ تیرہ سو برس بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا دروازہ کھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا…‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’…طاعون کا پھیلنا اور حج سے روکے جانا بھی سب نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا۔ ملک میں ریل کا تیار ہونا اونٹوں کا بیکار ہونا یہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے جو اس زمانے میں اس طرح دیکھے گئے جیساکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے معجزات کو دیکھا تھا۔ اسی وجہ سے اللہ جل شانہ نے اس آخری گروہ کو مِنْہُمْ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہؓ کے رنگ میں ہی ہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوۃ کا اور کس نے پایا۔ اس زمانے میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھارہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔ بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے‘‘۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14صفحہ305۔ 306)
پس آپؑ کا یہ دعویٰ کہ میں دنیا کو زندگی دینے آیا ہوں بڑی شان سے پورا ہوا اور ہو رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ سے بھی دنیا کو زندگی بخش رہا ہے۔ اب خدا تعالیٰ کے کلام کو سمجھنا آپ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے۔ اس کے بغیر ناممکن ہے۔ قرآن کریم کے معارف و حقائق بتانا آپ کا ہی کام ہے۔ لوگوں کو روحانی زندگی اب آپ کے ذریعہ سے ہی مل رہی ہے اور مل سکتی ہے۔ چودہ سو سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور محبت میں فنا ہو کر کامل عملی نمونہ آپ نے ہی پیش فرمایا۔ پس یہ عملی اور اخلاقی زندگی بخشنے کا فیضان آج بھی جاری ہے۔ لیکن اسلام پر اعتراض کرنے والے اس طرف نظر نہیں کرتے۔ اگر مسلمانوں کے غلط عمل دیکھتے ہیں تو ضرورت سے زیادہ پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ اعتراضوں کی بھرمار شروع ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں مجھے کسی نے لکھا کہ ایک پڑھے لکھے عیسائی سے اسلام کی خوبصورت تعلیم پر بات ہو رہی تھی اور خلافت کے جاری نظام اور جماعت دنیا میں کیا خدمات انجام دے رہی ہے اس بارے میں احمدی نے بتایا تو وہ کہنے لگا کہ میڈیا کو کیوں نہیں بتاتے۔ یہ دنیا کو کیوں نہیں پتا لگتا۔ اخباروں میں یہ کیوں نہیں آتا۔ اس دوست نے کہا کہ ہم تو بتاتے ہیں۔ ہماری تبلیغ بھی ہے، لیف لٹس کی تقسیم بھی ہے۔ اب تو تقسیم لاکھوں کروڑوں میں چلی گئی ہے۔ بسوں میں اشتہار ہیں اور ذریعے ہیں اشتہار کے۔ مختلف پروگرام ہیں۔ خبریں بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میڈیا اس کو اتنی کوریج نہیں دیتا جتنی وہ منفی خبروں کو دیتا ہے۔ تو عیسائی دوست خود ہی کہنے لگے کہ ہر چیزہی کمرشلائز ہو چکی ہے میڈیا کو بھی جس طرف رجحان زیادہ ہو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے چٹ پٹی خبروں کی ضرورت ہے تاکہ لوگ ان کو سنیں اور دیکھیں اور مسلمانوں کے خلاف کیونکہ آجکل رجحان ہے اس لئے ان کے خلاف خبریں لگانے میں یہ تیزی دکھاتے ہیں۔ خود ہی کہنے لگا کہ میڈیا والے انصاف سے کام نہیں لیتے اور حقائق سے گریز کرتے ہیں۔ بہرحال یہ ان کا کام ہے لیکن بعض اب ایسے بھی ہیں جو کچھ نہ کچھ حق میں کہنے یا بولنے لگ گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ بی بی سی کے نمائندے نے مجھ سے انٹرویو لیا تھا۔ کافی لمبا تھا۔ اس کے کچھ حصے کو انہوں نے اپنی ایک ڈاکومنٹری میں بھی سنایا ہے جو کل ایک دفعہ دکھایا جا چکا ہے۔ بی بی سی ایشیا پر اور جو بی بی سی ورلڈ ریڈیو سروس ہے اس میں شاید ہفتے سے دکھائیں گے یا ہفتے سے شروع کریں گے یا صرف ہفتے والے دن انہوں نے دکھانا ہے۔ بہر حال اس دن انہوں نے کہا کہ ہم یہ سنائیں گے۔ (دکھائیں گے نہیں سنائیں گے کیونکہ ریڈیو سروس ہے۔) اس میں میری یہ بات بھی انہوں نے شامل کی ہے کہ جماعت جو خوبصورت تعلیم دیتی ہے وہ اسلام کی حقیقی تعلیم ہے اور اسی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہر سال جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ پوری بات تو نہیں لیکن بہر حال انہوں نے کافی حد تک بتائی، کچھ کچھ الفاظ بھی بیچ میں سنائے ہیں کہ جو لوگ شامل ہوتے ہیں وہ اس لئے شامل ہوتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم ان کو پتا لگتی ہے اور اسلام کے اس زندگی بخش پیغام کو سن کر وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پس اسلام کی تعلیم میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ ایک کامل اور مکمل نمونہ اور تعلیم ہے۔ اگر خرابی ہے تو ان علماء اور لوگوں میں جو ان کی غلط رہنمائی کرتے ہیں اور جو غلط طریقے پر ان علماء کے پیچھے چلتے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہو کہ انبیاء زندگی بخشتے ہیں جس کا سب نبیوں نے دعویٰ کیا تو خدا تعالیٰ کی ذات پر بھی اعتماد اٹھ جائے۔ وہ مردہ مذاہب جو صرف دعویٰ کرتے ہیں اور اب زندگی بخشنے والی بات ان میں کوئی نہیں رہی۔ اس لئے لوگ ان مذاہب کو چھوڑ رہے ہیں۔ ان مذاہب کے ساتھ رسمی تعلق تو ہے لیکن ایمان کی حالت نہیں۔ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے اس زمانے میں بھی اپنا رسول بھیج کر اپنی تعلیم کو تازہ کر کے ہمارے سامنے پیش فرمایا تا کہ ہم روحانی زندگی کو حاصل کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے مامور اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ لے کر آتے ہیں کہ جو قوم ان کے ساتھ شامل ہو گی، حقیقی پیروی کرے گی وہ اسے کامیابی تک پہنچائیں گے۔ انہیں روحانی زندگی عطا ہوگی اور باقی لوگ ناکام اور ذلیل ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ آپ غالب آئیں گے۔ آپ کے ماننے والے ترقی کرتے چلے جائیں گے انشاء اللہ۔ خلافت کا نظام آپ کے بعد آپ کے کام کو جاری رکھنے کے لئے چلتا چلا جائے گا۔ کوئی اور نظام اگر اس کے مقابل پر اٹھے گا تو ناکام و نامراد ہو گا۔ خلافت وہ انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔ چھین کر نہیں لیا جاتا۔ ظلم کر کے نہیں حاصل کیا جاتا۔ معصوموں کو زندہ درگور کر کے نہیں حاصل کیا جاتا۔ ظالمانہ طریقے پر قتل کر کے اس نظام پر قبضہ نہیں کیا جاتا۔ یہ تو زندگیاں دینے کا ذریعہ ہے نہ کہ زندگیاں لینے کا۔ جو خدا تعالیٰ کی تائید اور مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس کوئی اور نظام بھی جو چھین کر لیا جائے وہ خدا تعالیٰ کا تائید یافتہ نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا ہے۔