قرآن کریم، احادیث نبویﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعض دعائیں: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍اپریل۲۰۲۴ء
٭…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مضطر کی دعائیں سنتا ہوں تومضطر سے مُراد صرف بے قرار ہی نہیں بلکہ ایسا شخص ہے جس کے تمام راستے کٹ گئے ہوں
٭… یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے جو ہمیں ان حالات سے نکالے جو پاکستان میں یا بعض دوسرے ملکوں میں ہیں
٭… حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شناخت کی یہ خاص نشانی بیان فرمائی ہے کہ میں مضطر کی دعا سُنتا ہوں
٭… دعا کی قبولیت کےلیےضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں جس کے بغیر ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ تک پہنچتی نہیں
٭…اسیران راہ مولیٰ کے لیےاور دنیا کے عالمی جنگ سے محفوظ رہنے اور انسانیت کے بچنے کے لیے دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍اپریل۲۰۲۴ء بمطابق۵؍شہادت ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۵؍اپریل ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدسورۃ النمل کی آیت۶۳؍کی تلاوت و ترجمہ کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
گذشتہ جمعہ مَیں نے دعا کا مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالوں کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ دعائیں کس طرح ہونی چاہئیں۔ ان کی حکمت ان کی فلاسفی کیا ہے۔ یہی دعا کا مضمون آج بھی جاری ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مضطر کی دعائیں سنتا ہوں تومضطر سے مُراد صرف بےقرار ہی نہیں ہے بلکہ ایسا شخص ہے جس کے تمام راستے کٹ گئے ہوں۔ پس جب ہم دعا کے لیے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں تو ایسی حالت بنا کرجھکیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کریں کہ سوائے تیرے ہمارا کوئی نہیں اور ہم تجھ ہی پر انحصاراور بھروسہ کرتے ہیں۔
جماعتی لحاظ سے تو خاص طور پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے جو ہمیں ان حالات سے نکالے جو پاکستان میں یا بعض دوسرے ملکوں میں ہیں بلکہ ذاتی طور پر بھی اگر انسان سمجھے تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب کام کرتا ہے وہی ہے جو ہماری ضرورتیں پوری کرتا ہے،جس کے آگے جھکاجا سکتا ہے اور جو اسباب مہیا کرتا ہے ۔ جو اُس کے آگےنہیں جھکتے اُن پر بھی اس کی رحمانیت کا جلوہ ہے کہ جو فیض ا ُٹھارہے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مضطر کے حوالے سے خاص نکتہ بیان فرمایا ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے اپنی شناخت کی یہ خاص نشانی بیان فرمائی ہے کہ میں مضطر کی دعا سُنتا ہوں۔
پس اپنی دعاؤں میں حالت اضطرار پیدا کرنے کی ضرورت ہےاور دعاؤں کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ یہ دعائیں ہی ہیں جو اُمت مسلمہ کو بھی ابتلا سے نکالنے کے لیے کام آئیں گی اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت کو ترک کریں۔ بہرحال ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہیے کہ اضطرار کی حالت پیدا کریں اگر اپنی دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ یاد رکھو خدا تعالیٰ بڑابےنیازہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروانہیں کرتا ۔قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے اور اضطراب کی وہ حالت ہے جب سو فیصد یہ یقین ہو کہ اب دنیا کے تمام راستے بند ہوگئے ہیں۔پس یہ حالت ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہیےورنہ دعا اور ذکرالٰہی کے زبانی جمع خرچ کا کوئی فائدہ نہیں۔
پس قرآنی، مسنون اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سکھائی ہوئی دعائیں ہیں ان کی طرف ہمیں بہت توجہ کرنی چاہیے اگر ہم نے ان حالات سے باہر نکلنا ہے جو ہمارےلیے پیدا کیے گئے یا کیے جا رہے ہیں۔
ہم پاکستان میں یا بعض دوسرے ملکوں میں آزادی سے نماز ادا نہیں کرسکتے ۔اپناعشق رسول ؐ ظاہر نہیں کرسکتے ۔قرآن کریم نہیں پڑھ سکتے۔کسی بھی قسم کے اسلامی شعائر کا اظہار نہیں کر سکتے۔ شیطان کے چیلے ہر وقت اس تاک میں ہیں کہ کہاں اور کب موقع ملے اور ہم احمدیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اپنےزعم میں ثواب کمانے والے بنیں۔گذشتہ دنوں ایک احمدی کو شہید کیاگیا قاتل پکڑے گئے اور اُنہوں نے کہا کہ ہمیں فلاں مدرسے کے مولوی صاحب نےبتایا کہ جنت میں جانے کے قریب ترین راستےکا یہی طریقہ ہےکہ تم کسی کافر کو ماردو اور احمدی کافر ہیں اس لیے ان کو قتل کرنا جائز ہے لیکن حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آنے کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔بہرحال ہمیں اپنی حالتوں کو مضطر کی حالت بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ اپنی زبانوں کو دعاؤں اور ذکرِ الٰہی سے تَر رکھنا چاہیے۔ اپنے سجدوں میں، اپنی دعاؤں میں اضطرار کی حالت پیدا کرنی چاہیے۔ اس وقت مَیں بعض قرآنی ،مسنون اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو بھی دہراؤں گا۔ ان پرصرف آمین کہنا کافی نہیں ہے بلکہ مستقل توجہ دینی چاہیے اور اضطرار کے ساتھ پڑھنا بھی چاہیے اوراپنی زبان میں بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ذکرِ الٰہی کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اورمُردہ کی ہے۔
پس ہمیں زندوں میں شمار ہونے کی کوشش کرنی چاہیے جو ذکرِ الٰہی سے اپنی زبان تَر رکھنے والے ہوں۔
سب سے پہلے تو سورت فاتحہ ہے۔
[بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ۔اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ ۔]نماز کے علاوہ بھی اسے دہراتے رہنا چاہیے۔ سورت فاتحہ کی ایک خصوصیت یہ ہے اس کو توجہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے۔اس کو بڑے غور سے سمجھ کے پڑھنے اور وِرد کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے ۔
پھر قرآن کریم کی ایک دعا ہے
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(البقرۃ :۲۰۲)اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا میں بھی حَسَنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حَسَنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ مومن کو دنیا کےحصول میں بھی حسنات الآخرہ کا خیال رکھنا چاہیے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ہماری جماعت کو یہ دعا بہت مانگنی چاہیے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے بنیں۔ پھر اس دعا کو بھی آج کل بہت شدت اور اضطرار سے کرنا چاہیے۔
رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرۃ :۲۵۱)اے ہمارے ربّ! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔
پھر اس دعا کا بھی بار بار وِرد کرنا چاہیے:
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَاعۡفُ عَنَّا ٝ وَاغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرۃ :۲۸۷)اے ہمارے ربّ! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔ اور اے ہمارے ربّ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر(ان کے گناہوں کے نتیجہ میں) تُو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے ربّ! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم کر۔ تُو ہی ہمارا والی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔
پھر ایمان کی مضبوطی کےلیے یہ دعا بھی بہت پڑھنی چاہیے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ (اٰل عمران: ۹)اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو۔ اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔
حضور انور نے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی بعض دعاؤں
کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر ؓکو نماز میں مانگنے والی یہ دعا سکھائی:
اللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَمْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ۔(بخار کتاب الاذان بَابُ الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلَامِ)
اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا اور کوئی گناہ نہیں بخش سکتا سوائے تیرے۔ پس تُو اپنی جناب سے میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔یقیناً تُو ہی بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
مصعب بن سعدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی بات سکھائیے جو میں کہا کروں۔ آپؐ نے فرمایا یہ کہا کرو۔
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ اللّٰہُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيرًا، سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۔… اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي۔(مسلم كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ باب فَضْلِ التَّهْلِيلِ وَالتَّسْبِيحِ وَالدُّعَاءِ)(ترجمہ) اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ اس کے لیے بہت حمد ہے۔ پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ نہ کوئی طاقت ہے، نہ کوئی قوّت ہے مگر اللہ کو جو غالب، بزرگی والا اور خوب حکمت والا ہے۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما۔ مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔
ایک دوسری روایت میں بیان ہے کہ
جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ دعا سکھایا کرتے تھے:
اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِی وَارْزُقْنِي۔ (مسلم کتاب الذکر والدعاء)(ترجمہ) اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہدایت دے اور مجھے عافیت سے رکھ اور مجھے رزق عطا کر۔
دو سجدوں کے درمیان ہم یہ دعا پڑھتے ہیں لیکن لوگ تو صرف اُٹھتے ہیں سجدے سے اور پھر بیٹھ جاتے ہیں لگتا ہے کہ دعا کرتے ہی نہیں۔ حالانکہ
اس پہ بڑا غور کر کے سمجھ کے پڑھنی چاہیے۔
اس سے مُراد مادّی رزق بھی ہےاور رُوحانی بھی ۔صرف دنیا کےحصول کےلیے ہماری دعائیں نہ ہوں بلکہ اپنی ظاہری اور باطنی حالتوں کی بہتری کےلیے جب ہم خاص توجہ سے دعاکریں گے تو پھر ہر قسم کے فضلوں کی بارش ہم ہوتا دیکھیں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ
رسول اللہ ﷺ جب رات کوجاگتے تو فرماتے:
لَا إلٰهَ إلَّا أنْتَ سُبْحَانَكَ، اَللّٰهُمَّ إنِّي أَسْتَغْفِرُكَ لِذَنْبِيْ، وأَسألُكَ رَحْمَتَكَ، اَللّٰهُمَّ زِدْنِيْ عِلْمًا، وَلَا تُزِغْ قَلْبِيْ بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِيْ، وَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً۔ إنَّكَ أنْتَ الْوَهَّابُ۔(المستدرك على الصحيحين)(ترجمہ) اے اللہ! تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اے اللہ! میں تجھ سے اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ! مجھے علم میں بڑھا دے اور میرے دل کو ٹیڑھا نہ کرنا بعد اس کے جب تو نے مجھے ہدایت دے دی۔ اور اپنی جناب سے مجھے رحمت عطا فرما۔ یقیناً تُو ہی بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی معاملہ میں پریشانی ہوتی تو آپؐ فرماتے کہ
يَا حَىُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الدعوات)(ترجمہ) اے زندہ اور دوسروں کو زندہ رکھنے والے! اے قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والے! اپنی رحمت کے ساتھ میری مدد فرما۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یقیناً روزہ دار کی اس کے افطار کے وقت کی دعا ایسی ہے جو ردّ نہیں کی جاتی۔
اِبنِ اَبی مُلَیْکہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ جب افطار کرتے توکہتے:اَللّٰہُمَّ اِنِّي اَسْئَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ اَنْ تَغْفِرَلِیْ۔اے اللہ ! مَیں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری رحمت کے واسطہ سے جو ہر چیز پر وسیع ہے کہ تُو مجھے بخش دے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا کیا کرتے تھے:
اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي۔(ابن ماجہ کتاب الصیام) (ترجمہ) اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری رحمت کے واسطے سے جو ہر چیز پر وسیع ہے کہ تُو مجھے بخش دے۔
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاھْدِنِیْ لِطَّرِیْقِ الْاَقْوَمِ۔(ترجمہ) اے میرے رب! بخش دے اور رحم فرما اور مجھے اُس طریق کی ہدایت دے جو سب سے سیدھا اور درست اور مضبوط ہے۔
اللّٰهُمَّ اِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ، وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ فِتْنَۃِ الْمَمَاتِ۔ اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَاْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔(بخاری کتاب الاذان)
(ترجمہ) اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں قبر کے عذاب سے۔ اور تیری پناہ میں آتا ہوں مسیحِ دجّال کے فتنے سے۔ اور تیری پناہ میں آتا ہوں زندگی کے فتنے سے اور موت کے فتنے سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوںگناہ سے اور مالی بوجھ سے۔
آپؐ تو بہرحال ان چیزوں سے پاک تھے یقیناً اپنی امت کے لیے کر رہے تھے کہ وہ ان چیزوں سے بچیں۔جھوٹ اور وعدہ خلافی سے بچیں۔
اب ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم یہ دعائیں کرتے ہیں تو کیا ہم ان چیزوں کی پابندی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ پس یہ دعا بھی کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے بچائے اور دنیا کی حسنات سے ہمیں نوازتا رہے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا ہے جس کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ اللّٰهُمَّ إنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَالْهَرَمِ وَالْمَغْرَمِِ وَالْمَأْثَمِ۔ اللّٰهُمَّ اِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ القَبْرِ وَعَذَابِ القَبْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الغِنَى، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الفَقْرِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِن شَرِّ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللّٰهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الخَطَايَا، كما نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الأبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِيْ وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بيْنَ المَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِاے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں سستی اور بڑھاپے سے اور چٹی اور گناہ سے اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے عذاب سے اور آگ کے فتنے سے اور قبر کے فتنے سے اور قبر کے عذاب سے اور امیری کے فتنے کے شر سے اور محتاجی کے فتنے کے شر سے اور مسیح دجال کے فتنے کے شر سے اے اللہ میری خطاؤں کو برف کے پانی اور ٹھنڈک سے دھو ڈال اور میرے قلب کو خطاؤں سے یوں صاف کر دے جیسے سفید کپڑا گندگی سے دھویا جاتا ہے اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری پیدا کر دے جیسا کہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری پیدا کر دی۔
اس میں بہت ساری دعائیں آ گئی ہیں ۔پس یہ دعائیں ہی ہیں جو ہماری ذاتی زندگی میں بھی تبدیلی لائیں گی اور جماعتی زندگی میں بھی فائدہ دیں گی لیکن ہمیں اُس درد کو بھی محسوس کرنا ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دعاؤں کے وقت محسوس کرتے ہوں گے ۔آپؐ نے مسیح الدجال کے فتنے سے بھی خاص طور پر پناہ مانگی جو اس زمانے میں اپنے عروج پر ہے۔ پس مسیح موعودؑ کے غلاموں کوان فتنوں سے بچنے کے لیے اور خاص طور پر فتنہ دجال سے بچنے کے لیے اور دنیا کو بچانے کے لیے اس دعا کی بہت ضرورت ہے۔
حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتے تو فرماتے:
[اللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ حَقٌّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّوْنَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ(صلّى اللّٰه عليه وسلّم) حَقٌّ،وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللّٰهُمَّ إِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِيْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ المُقَدِّمُ وَأَنْتَ المُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَوْ لَا إِلٰهَ غَيْرُكَ]ترجمہ: اے اللہ! سب تعریفوں کا تو حقدار ہے تو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے اور ان کو بھی جو ان میں ہیں اور ہر قسم کی تعریف کا تو ہی مستحق ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت تیری ہے اور ان کی بھی جو ان میں ہیں ہر قسم کی تعریف کا تو ہی مستحق ہے تو آسمانوں کا اور زمین کا نور ہے اور ان کا جو ان میں ہیں اور ہر قسم کی تعریف کا تو ہی مستحق ہے تو برحق ہے تیرا وعدہ بر حق ہے تیری ملاقات برحق ہے تیرا ارشاد برحق ہے اور جنت برحق ہے اور آگ برحق ہے اور انبیاء برحق ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں اور موعود گھڑی برحق ہے۔ اے اللہ میں تیرے حضور جھکا ہوں اور تیری خاطر میں نے جھگڑا کیا اور تیرے حضور فیصلہ چاہا۔ پس تو مجھے بخش دے جو میں نے پہلے آگے بھیجا اور جو بعد کے لئے رکھ دیا اور جسے میں نے پوشیدہ کیا اور جس کا میں نے اظہار کیا۔ تو مقدم ہے اور تو موخر ہے صرف تو ہی عبادت کے لائق ہے یا فرمایا تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔پھر آپؐ کی ایک اور دعا ہے کہ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ ذَنْبِيْ، وَوَسِّعْ لِيْ فِيْ دَارِيْ، وَبَارِكْ لِيْ فِيْمَا رَزَقْتَنِيْ۔(زاد المعاد) اے اللہ مجھے میرے گناہ بخش دے اور میرے لئے میرا گھر وسیع کر دے اور میرے لیے اس میں برکت رکھ دے جو تو نے مجھے بطور رزق عطا فرمایا ہے۔آپؐ نے فرمایا کیا تم دیکھتے ہو کہ ان کلمات نے کوئی چیز چھوڑی ہے۔
پس
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعائیں ہیں ان کا ترجمہ کم از کم یاد کر کے یا اس کا مفہوم سمجھ کر اس طرح ہمیں بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔
پھر بخاری میں ایک دعا اس طرح ملتی ہے کہ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُوْرًا، وَفِي بَصَرِي نُوْرًا، وَفِي سَمْعِي نُوْرًا، وَعَنْ يَمِيْنِي نُوْرًا، وَعَنْ يَسَارِيْ نُوْرًا، وَفَوْقِي نُوْرًا، وَتَحْتِي نُوْرًا، وَأَمَامِيْ نُوْرًا، وَخَلْفِيْ نُوْرًا، وَاجْعَلْ لِيْ نُوْرًا۔اے اللہ میرے دل میں نور رکھ دے میری بصارت و بصیرت میں نور رکھ دے میری سماعت میں نور رکھ دے میرے دائیں بھی نور رکھ دے میرے بائیں بھی نور رکھ دے میرے اوپر بھی نور ہو اور میرے نیچے بھی نور ہو اور میرے آگے بھی نور رکھ دے اور میرے پیچھے بھی نور رکھ دے اور میرے لئے نُور ہی نُور کر دے۔
پھر آپؐ کی ایک دعا کا یوں ذکر ہے۔اللّٰهُمَّ إنِّي أعُوْذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَهْوَاءِ (ترمذی) اے میرے اللہ! میں برے اخلاق اور برے اعمال سے اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔
یہ بڑی مختصر سی دعا ہے۔ اگر یہ انسان درد سے کرے تو بہت ساری برائیاں بھی دور ہو جائیں گی اور نیکیاں پیدا ہو جائیں گی۔
حضور انور نے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب دعاؤں کی جامع ایک دعا
کا ذکر فرمایا جو یہ ہے۔ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ البَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ ۔ اے اللہ ! ہم تجھ سے اُس خیر کے طالب ہیں جس خیر کے طالب تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہم ہر اُس شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں جس سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے پناہ طلب کی تھی اور اصل مددگار تو تُو ہی ہے اور تجھ ہی سے ہم دعائیں مانگتے ہیں اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ تو ہم نیکی کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور نہ ہی شیطان کے حملوں سے بچنے کی قوت۔پس اگر ہم یہ دعا کریں گے تو جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا ہوگی وہاں تمام جامع دعائیں ہمارے دل سے نکلنی شروع ہو جائیں گی۔
پھر
بخشش اور مغفرت کی ایک دعا ہے
رَبِّ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ وَ جَہْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ کُلِّہٖ وَاَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّی اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ خَطَایَایَ وَعَمَدِیْ وَجَہْلِیْ وَ جِدِّیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِیْ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَاقَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَ مَااَعْلَنْتُ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُوَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ (بخاری کتاب الدعوات باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللھم اغفرلی) اے میرے ربّ ! میری خطائیں میری جہالتیں میری تمام معاملات میں زیادتیاں جو تُو اس سے زیادہ جانتا ہے مجھے بخش دے۔ اے میرے اللہ! مجھے میری خطائیں میری عمداًکی گئی غلطیاں جہالت اور سنجیدگی سے ہونے والی میری غلطیاں مجھے معاف فرما دے اور یہ سب میری طرف سے ہوئی ہوں۔ اے اللہ! مجھے میرے وہ گناہ بخش دے جو میں پہلے کر چکا ہوں اور مجھ سے بعد میں سرزد ہوئے ہیں اور جو میں چھپ کر کر چکا ہوں اور جو میں اعلانیہ کر چکا ہوں۔ مقدم و مؤخرتُو ہی ہے اور تو ہر ایک چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
پھر
مصیبت اور حالت کرب کی ایک دعا
کا ذکر یوں ملتا ہے کہ لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰہُ الْعَظِيْمُ الْحَلِيْمُ، لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ۔(صحيح البخاری)۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عظمت والا اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمان و زمین کا اور عرش کریم کا ربّ ہے۔
دنیا کے فتنے سے بچنے کے لیے ایک دعا ہے
كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوْءِ القَضَاءِ، وشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ (بخاری)حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناقابل برداشت آزمائشوں، بد بختی، بری قضا اور دشمن کے خوش ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب فرمایا کرتے تھے۔
مصعب بن سعد بن ابی وقاصؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ کلمات ایسے سکھایا کرتے تھے جس طرح لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا ہے ۔
یہ دعا کیا تھی جو سکھاتے تھے کہ اَللّٰهمَّ إنِّي أَعُوْذُبِكَ مِنَ البُخْلِ، وَأَعُوْذُبِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوْذُبِكَ مِنَ أَنْ نُرَدَّ إِلٰى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وعَذَابِ القَبْرِ۔(صحيح البخاري كِتَاب الدَّعَوَاتِ بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا)اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بخل سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں ارذل العمر کی طرف لوٹایا جاؤں اور تیری پناہ چاہتا ہوں دنیاوی آزمائشوں میں گھرنے سے اور قبر کے عذاب میں گرفتار ہونے سے۔ بڑی جامع دعا ہے۔
پھر
حصول رُشد کی دعا
ہےکہ اَللّٰهُمَّ أَلْهِمْنِيْ رُشْدِيْ وَاَعِذْنِيْ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ۔ (ترمذی)اے اللہ !مجھے میری ہدایت کے ذرائع الہام کر اور میرے نفس کے شر سے مجھے محفوظ رکھ۔ یہ دعا بھی فی زمانہ بہت پڑھنے کی ضرورت ہے۔
پھر
دشمنوں کے بد ارادوں کے خلاف دعا ہے:
اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ، وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ (ابو داؤد )اے اللہ! ہم تجھے ان کے سینوں کے مقابل پر رکھتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔یہ دعا بھی آج کل احمدیوں کو بہت زیادہ پڑھنی چاہیے۔ دشمنوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے۔
حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض دعائیں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مولوی نظیر حسین صاحب سخاؔ دہلوی کے خط کے جواب میں انہیں حصولِ حضور کا طریق بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا: “السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ’ طریق یہی ہے کہ نماز میں اپنے لئے دعا کرتے رہیں اور سرسری اور بے خیال نماز سے خوش نہ ہوں بلکہ جہاں تک ممکن ہو توجہ سے نماز ادا کریں۔ توجہ پیدا نہ ہو تو پنج وقت ہر ایک نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور میں بعد ہر رکعت کے کھڑے ہو کر یہ دعا کریں کہ “ اے خدا تعالیٰ قادر و ذوالجلال! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ و ریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضورِ نماز حاصل نہیں تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کر حضورِ نماز میسر آوے۔”
حضور انور نے فرمایا کہ
نماز میں توجہ پیدا کرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔
پھر ایک جگہ آپؑ نے دعا کی ہے کہ ‘‘اے میرے محسن اور اے خدا! میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُر غفلت ہوں تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بےباکی اور ناسپاسی کومعاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اَور کوئی چارہ گر نہیں۔ آمین ثم آمین!’’
یہ ایسی دعا ہے جسے میں سمجھتا ہوں کہ روزانہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اپنا جائزہ لینا چاہیے ۔
یہ دعا آپؑ نے حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام ایک خط میں لکھی تھی۔ ان کا مقام دیکھ کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کس توجہ سے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی ایک دعا ہے جو جہاں آپ کی عاجزی اور خشیت اللہ کا اظہار کرتی ہے وہاں
ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم بھی اپنی حالت کا جائزہ لے کر یہ دعا کریں
آپؑ فرماتے ہیں کہ
اے رب العالمین! میں تیرے احسانوں کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے۔ تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تامیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جاوے۔ میں تیرے وجہِ کریم کے ساتھ اس بات سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما! رحم فرما! رحم فرما! اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کیونکہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین
پھر آپؑ کی ایک دعا ہے جو آپؑ نے پیغام صلح کے شروع میں تحریر فرمائی ہے جس کی طرف ہمیں بہت توجہ دینی چاہیے۔
فرمایا کہ اے میرے قادر خدا اے میرے پیارے رہنما! تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہل صدق و صفا۔ اور ہمیں ان راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں۔ یا کینہ یا بغض یا دنیا کی حرص و ہوا ہے۔
پھر ایک جگہ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایاکہ
سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ
‘‘خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتاہے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دور کر دے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے۔’’
حصولِ مغفرت کی ایک دعا
‘‘ہم تیرے گنہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہیں تُو ہم کو معاف فرما اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا۔’’
پھر آپؑ کی ایک دعا ہے کہ ‘‘اے خداوند قادر مطلق! اگرچہ قدیم سے تیری عادت اور سنت یہی ہے کہ تُو بچوں اور امیوں کو سمجھ عطا کرتا ہے اور اس دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کی آنکھوں اور دلوں پر سخت پردے تاریکی کے ڈال دیتا ہے مگر میں تیری جناب میں عجز اور تضرّع سے عرض کرتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے بھی ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا جیسے تو نے بعض کو کھینچا بھی ہے اور ان کو بھی آنکھیں بخش اور کان عطا کر اور دل عنایت فرما تا وہ دیکھیں اور سنیں اور سمجھیں اور تیری اس نعمت کا جو تو نے اپنے وقت پر نازل کی ہے قدر پہچان کر اس کے حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہو جائیں۔ اگر تُو چاہے تو تُو ایسا کر سکتا ہے کیونکہ کوئی بات تیرے آگے انہونی نہیں۔ آمین’’
آج بھی اس دعا کی ہمیں آپؑ کی پیروی میں ضرورت ہے۔ دنیا کی اور خاص طور پر مسلم امہ کی اصلاح ہو گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو تب ہی ان کی کھوئی ہوئی عظمت انہیں ملے گی اور دنیا میں جو آج ان کی ہر جگہ سبکی ہو رہی ہے اس سے بھی نجات ملے گی۔ پس ہمیں بڑے درد سے اس دعا کو بھی کرنا چاہیے۔
پھر آپؑ کی ایک دعا کا ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو ایک خط میں آپؑ نے یہ دعا لکھی تھی کہ ‘‘دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ۔جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے کچھ بھی چیز نہیں ہوتی۔ جب دعا کرو تو بجز صلوٰةِ فرض کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ اور اپنی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ جیسے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے خدائے تعالیٰ کے حضور میں دعا کروکہ اے رب العالمین! تیرے احسان کا میں شکر نہیں کر سکتا۔ تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے نہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جاوے۔ میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما! اور دین و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین’’
دعا کی قبولیت کےلیےیہ بھی بہت ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں۔ درود کے بغیر ہماری دعائیں ہوا میں معلق ہو جاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ تک پہنچتی نہیں ۔پس
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ وعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیْدٌ۔
اس کا بہت زیادہ ہمیں ورد کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی دے کہ ہم اپنے دل سے یہ دعائیں کرنے والے ہوں ۔اپنی زبان میں بھی دعائیں کریں اور وہ حقیقی بے قرار اور مضطر بن کر دعائیں کریں جن کے دل کی گہرائیوں سے یہ دعائیں نکل رہی ہوں۔ رمضان کی برکات کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لیے بھی دعا کریں۔ اس جمعہ کے برکات اور آئندہ آنے والے تمام جمعوں کی برکات ہم حاصل کرنے والے ہوں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کے جرم میں اسیران کے لیے بہت دعا کریں کہ اللہ تعالی ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے ۔
بعد ازاں حضور انور نےعالمی جنگ سے دنیا کے محفوظ رہنے اور انسانیت کو بچانے کے لیے دعاؤں کا ذکر کیا ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل پر لنک موجود ہے۔
٭…٭…٭